سال کا سب سے بڑا فریب

ہزاراندیشوں اورلاکھ امیدوں کے درمیان نریندرمودی سرکار کاپہلا سال پورا ہوگیا۔ جائزوں ، تبصروں،تنقیدوں اورخوداپنی تعریفوں کا طویل سلسلہ ہے جو جاری ہے اورابھی اورجاری رہیگا۔ پارٹی لیڈروں اوروزیروں کی ایک فوج ظفرموج مقرر کردی گئی ہے جو ملک بھر میں جلسہ جلوسوں، پریس کانفرنسوں اورریلیوں کی مدد سے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کریگی کہ زمین پر بھلے ہی کچھ نظرنہ آرہا ہو، لیکن دورآسمان پر چاند نکل آیا ہے۔ بس کچھ بدلیاں ہیں، ہٹ جائیں گیں توچاندنی ساری دھرتی پر بکھر جائیگی اورننگے بدن، خالی پیٹ بھی اچھا لگنے لگے گا۔ اچھے دنوں کی نوید تو چناؤ قبل سے ہی سنائی جارہی ہے، اب جو خوشخبری خود وزیراعظم نے متھرا کی ریلی میں سنائی ہے، بڑی بھلی لگتی ہے مگر اس کے لئے شرط بہت سخت ہے۔اس کے لئے کسی حادثہ میں مرنا ہوگا تب بال بچوں کو کچھ ملے گا، اگرملا تو۔

ایک وزیرباتدبیر نے فرما یا اچھے دن صرف ان کے نہیں آئے جنہوں نے سابق میں لوٹ کھسوٹ کی تھی۔ اب عوام اپنا جایزہ لے رہے ہیں ۔ جوبیچارے ہرروزٹھگے جاتے رہے، یہ تہمت ان کے سربھی آرہی ہے کیونکہ اچھے دن ان کو بھی نظرنہیں آرہے۔اب ان سے کہا جارہا ہے صرف 12 روپیہ سال یا330روپیہ سال کی بیمہ پالیساں خرید لو۔اس کے بعد اگرناگہانی مرگئے یا معذورہوگئے تو سرکار نقد نذرانہ پیش کریگی تاکہ کچھ غم غلط ہوجائے۔ انسان بچوں کے لئے کیا کچھ جتن نہیں کرتا، سنا ہے ساڑھے تین کروڑ لوگوں نے آنا فانا اس پیش کش کو قبول کرلیا ہے۔زبان حال سے صداآرہی ہے:
تم اور فریب کھاؤ بیان رقیب سے
تم سے تو کم گلہ ہے، زیادہ نصیب سے
برباد دل کا آخری سرمایہ تھا امید
وہ بھی تم نے چھین لیا مجھ غریب سے

فریب کاریوں کے اس موسم بہار میں مودی سرکار کے ایک سال کے ’کارناموں‘ پرروشنی ڈالتے ہوئے ان کے وزیرخاص ارن جیٹلی نے 24 مئی کودعوا کیا:’’ ملک میں اقلیتیں پوری طرح محفوظ ہیں۔‘‘ ہم حیران ہیں کہ وہ کس دنیا میں رہتے ہیں؟ان کے اس دعوے کواس سال کا سب سے بڑا فریب، سب سے سنگین غلط بیانی قرارنہ دیا جائے تو اور کیا نام دیا جائے؟

ان کے اس دعوے کا جواب ان کے ہی سنگھ پریوار کے شورہ پشتوں نے اگلے ہی دن دہلی سے متصل ضلع بلبھ گڑھ (ہریانہ )کے گاؤں اٹالی میں ایک مسجد کو نذرآتش اورمسلمانوں کے تمام گھروں کو تاراج کرکے دیدیا۔حتیٰ کہ گاؤں کے مسلم باشندوں کو جان بچانے کے لئے گھروں سے بھاگ کر تھانے میں پناہ لینی پڑی۔ یہ سب کچھ پولیس اورانتظامیہ کی ناک کے نیچے ہوا۔ ہریانہ میں مودی کے خاص الخاص اور آرایس ایس کے سابق پرچارک موہن لال کھٹّرکیونکہ وزیراعلا ہیں،اس لئے کوئی کیسے بولتا؟

جیٹلی صاحب یہ تو زرا مسلم اورعیسائی اقلیت سے پوچھئے کہ وہ یہاں کس قدر محفوظ ہیں؟ ہمارے نوجوان تو ماتھے پر سجدے کا نشان اورسرپر اسکل کیپ دیکھ کر نشانہ بنا لئے جاتے ہیں؟ ہماری بچیوں کو کلاس سے اس لئے نکالدیا جاتا ہے وہ سرپردوپٹہ ڈال کر آنا چاہتی ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ لڑکوں کو محض اس لئے جیل رسید کردیا جاتا ہے کہ افسران’ حسن کارکردگی‘ کا انعام پاسکیں۔جیٹلی صاحب ابھی زنجیروں میں بندھے ہوئے ان پانچ نوجوانوں کا خون کے دھبے تازہ ہیں جو تلنگانہ پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے ہیں۔اقلیتیں خود کو کس قدر محفوظ پاتی ہیں، اس کا فیصلہ وہی کریگا جس پر گزررہی ہے۔ مودی کے دفاعی وکیل کوشاید یہ سب زخم نظر نہیں آتے۔

مسٹرجیٹلی نے یہ دعوا بھی کیا ہے کہ ’’سرکار نے ایسے اقدامات کئے ہیں کہ ملک میں کہیں بھی فرقہ ورانہ کشیدگی نہ ہو۔‘‘لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ان کی پارٹی کے لیڈرمسلسل مختلف مقامات پر کشیدگی برقراررکھنے اوربھڑکانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تواٹالی کی ہے جہاں مسجد کی توسیع کو روکنے کے لئے تمام آس پاس کے گاؤوں میں زہرپھیلایا گیا۔منصوبہ بند سازش کے تحت کئی گاؤں کے افراد کو جمع کیا گیا۔ 8-8 اور 10-10کی ٹولیاں بناکر، چن چن کر مسلمانوں کے گھروں اوردوکانوں کو لوٹا اورجلایا گیا۔یہ سب کچھ انتظامیہ کی نظروں کے سامنے ہوا کیونکہ مسجد کی توسیع کا کام عدالت سے اجازت مل جانے کے بعد انتظامیہ کے علم میں لاکر کی جارہی تھی اورموقع پر بھی پولیس موجود تھی۔ دوسری مثال کاندھلہ کا واقعہ ہے جس کے بعد بھاجپائیوں نے فرقہ ورانہ منافرت کو بھڑکانے کی زبردست مہم چلائی ۔ اس خطہ میں حالیہ لوک سبھا چناؤ سے قبل جو مسلم مخالف ماحول بنا تھا، وہ ا بھی ختم نہیں ہوا۔سنگھ پریواروالے گھربدرمسلمانوں کی اپنے آبائی گاؤ ں میں واپسی کی ہرکوشش کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

فرقہ ورانہ کشیدگی اورپارٹی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات پر مودی کی خاموشی پر حال ہی میں میں باجپئی کابینہ کے سینئر وزیرارن شوری نے بھی گرفت کی تھی۔ ان کی تنقید کو پارٹی نے یہ کہہ کر چٹکیوں میں اڑادیا کہ وہ موسم بہار کے دوست ہیں۔گویا اب اس خزاں رسید ہ لیڈر کی بات قابل توجہ نہیں۔ لیکن اس کو کیا کہا جائیگا کہ مودی کابینہ کے وزیر رام ولاس پاسوان نے بھی اشتعال انگیز بیانات اور ان پر خاموشی اختیارکئے جانے پروہی بات کہی ہے جو مسٹرشوری نے کہی تھی۔ انہوں نے ایک طویل انٹرویو میں جو 26مئی کو شائع ہوا ہے، کہا ہے:’’ یہ درست ہے کہ بھاجپا اوراس سے جڑی ہوئی ہندوتووا تنظیموں کے لیڈروں کے بیانات سے صحیح سگنل نہیں جارہا ہے۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا:’’نوٹس دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ لیکن مسٹرپاسوان مطمئن ہیں کہ وزیراعظم اس ماحول سے خوش نہیں، جو ان کے برسر اقتدارآنے کے بعد مزید خراب ہوا ہے اور یہ کہ وہ (مودی)خود کسی ایسی ویسی حرکت میں ملوث نہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ مسٹرمودی کواقتدار کی کرسی تک پہنچانے کے لئے ان کے سپہ سالاروں نے جو فرقہ ورانہ کشید گی پھیلائی تھی ، کیا اس کو ختم کرنے کی کوئی کوشش ہوئی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس منافرت پھیلانے والوں اورمسلم کش فسادات کے مجرم لیڈروں کو ٹکٹ دئے گئے۔کابینہ میں جگہ دے کر ان کو انعام سے سرفراز کیا گیا۔پھربھی یہ کھوکھلا دعوا کہ اقلیت محفوظ اورمطمئن ہیں۔ یہ کہاں کی منطق ہے؟ مسٹرجیٹلی نے اپنے اسی انٹرویو میں گرجاگھروں پر حالیہ حملوں کو ’’امن اورقانون کا مسئلہ‘‘ قراردیا اوریہ کہ پارٹی لیڈروں کو ہدایت دیدی گئی ہے کہ وہ اشتعال انگیزبیانات نہ دیں۔بہت خوب۔ سنگھ پریوار کے خطاکاروں کو صرف نصیحت اوراقلیت کے کسی فرد پر پولیس کے ایک معمولی کارکن کو شک بھی ہوجائے تو اس کے لئے ناقابل ضمانت جیل؟بقول اقبالؔ : ’’ برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘‘

ایک بات وہ بھی ہے جو مودی کابینہ کی وزیر اقلیتی امور محترمہ نجمہ ہبت اﷲ نے کہی ہے۔ انہوں نے مسلم اقلیت کی تشویشات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا وہ تو تقیسم کے وقت سے ہی خود کو غیر محفوظ اور الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ مودی کے راج میں کوئی نئی صورت پیدا نہیں ہوگئی۔‘‘ ہم ان کے اس بیان کو خارج نہیں کرسکتے ۔ واقعی مسلم اقلیت کے ساتھ سابقہ حکومتوں کا رویہ شدید انصافی کا رہا ۔ اس بات کو ڈاکٹر نجمہ صاحبہ سے زیادہ اورکون سمجھ سکتا ہے جو کم وبیش چار دہائیوں تک کانگریس میں رہیں اور اہم باوقار مناصب کا لطف اٹھاتی رہیں۔ انہوں نے کانگریس میں خود کو اس وقت غیرمحفوظ پایا جب ان کی نائب صدر بننے کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ لیکن ان کے اس بیان سے کم ازکم یہ نتیجہ تونکالا ہی جاسکتا ہے کہ مسلم اقلیت (سابق سرکاروں کی طرح )مودی سرکار میں بھی محفوظ نہیں ۔ ان کے اس بیان سے مسٹرجیٹلی کے دعوے کی مزید تردید ہوتی ہے۔

بیشک وزیراعظم نے بیان کی حد تک اقلیتوں کو تحفظ کی یقین دہائی کرائی ہے۔اقلیتوں نے اس کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ کچھ لوگوں کو نوٹس بھی دئے گئے۔ لیکن جیسا کہ مسٹر پاسوان نے کہا، نوٹسوں سے کیا ہوتا ہے؟ حق تو یہ ہے کہ خطاکاروں کو سزا ملے ،ورنہ کم سے کم ضابطہ کی تادیبی کاروائی ہواور محلہ سطح کے کیڈرتک اس کا پیغام جائے۔ مگر اس کے برعکس ان کو اعزاز سے نوازا جارہا ہے۔وزارت اوراعلا کمیٹیوں میں نامزد کیا جارہا ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مودی کابینہ کے دفاعی وکیل کا یہ دعوا کہ مودی سرکار میں اقلیتیں محفوظ ہیں، اس سال کابد ترین فریب اورسنگین ترین غلط بیانی ہے۔ آپ چاہیں تو اس کو دروغ گوئی یا کذب بیانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ہمیں جھوٹے کو بھی جھوٹا کہتے ہوئے اچھا نہیں لگیا۔ خیال ہوتا ہے کہ شاید کل اﷲ اس کے دل میں سچائی ڈال دے اور یہ ناحق کا نہیں ،حق کا طرفدار بن جائے۔

روہنگیا مسلمان اورہندستان
ابھی چند ہفتہ قبل ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں ایک قدرتی آفت نازل ہوئی جس پر ہماری حکومت سے لے کر میڈیا تک سب انتہائی متحرک اورمتفکر ہوگئے اورمصیبت زدگان کی امداد کے لئے دوڑ پڑے ۔ انسانی ہمدردی کا یہ جذبہ یقینا قابل قدر ہے۔لیکن اس سے بھی بڑی آفت ہمارے دوسرے پڑوسی ملک میانمارکے غریب روہنگیا باشندوں پرآئی ہوئی ہے، جس میں اب تک نیپال زلزلے سے کئی گنا زیادہ افرادہلاک اور بے گھر ہوچکے ہیں ۔ تقریبا آٹھ ہزارافراد عالم بے بسی میں سمندرمیں بھٹکتے اورمرتے رہے لیکن ہمارے یہاں انسانی ہمدردی کا وہ جذبہ نظرآیاجو نیپالیوں کے تئیں ابل پڑاتھااورنہ میڈیا کو اس میں خبر نظر آئی۔

وزیراعظم مودی ابھی تین پڑوسی ممالک چین، منگولیا اورکوریا کے دورے سے لوٹ کرآئے ہیں۔ ان کو کوریاکااجودھیا سے لاکھوں سال پرانا سسرالی رشتہ یادرہا جس کا ایک تقریر میں حوالہ دیا۔ مگر میانمار کے ان باشندوں سے کوئی رشتہ نظر نہیں آتا، جن میں بڑی تعداد معلوم تاریخ کے دور کی ہندستانی نسل کی ہے۔16مئی کو شنگھائی میں چین کے صدر زی جن پنگ کے ساتھ ایک مشترکہ خطاب میں وزیر اعظم نریندرمودی نے اعلان کیا:’’ یہ چین اورہند کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ہمیں پوری دنیا کی مدد کرنے کے لئے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘دوسرے ہی دن چین کے سرکاری اخبار’پیپلز ڈیلی‘ میں ایک مضمون شائع ہوا،جس میں ایک ایسی عالمی برادری کے تصوردیا گیا ہے جس کی قسمت ، غم وخوشی میں اور خوشحالی میں مشترکہ ہو گی۔چین کے سرکاری اخبار میں یہ مضمون یقینا صدرکے دفتر سے آیا ہوگا، جس میں صدرزی کے حوالے سے کہا گیا ہے: ’’ہمارے مقدر خوشی اورغمی میں باہم شریک ہیں،اورہمارے خواب بھی مشترکہ ہیں۔‘‘

یہ عالمی سطح پرابھرتی ہوئی دو بڑی طاقتوں اور ایشیا کی دو انتہائی بااثرمملکتوں کے رہنماؤں کے عالمی قیادت کے لئے عزائم اورعالمی برادری سے یگانگت کے انتہائی قابل توجہ اورپرجوش ارادوں کا اظہا ر ہے۔ لیکن جس وقت ان کے یہ ولولہ انگیز بیانات نشر ہورہے تھے،اس وقت عالمی میڈیا پر یہ رپورٹیں بھی آرہی تھیں کہ چین اورہندستان کے پڑوسی ملک برما سے گھر بدرتقریباً آٹھ ہزارافراد، بغیر ملاحوں کی کشتیوں میں بحرانڈمان میں بے آب و دانہ بھٹک رہے ہیں۔سینکڑوں افرادپانی کی کمی سے مرچکے ہیں۔ ایک صحافی نے ان کشتیوں کو ’’زندہ افراد کے تابوت‘‘ قرار دیا ہے۔

یہ روہنگیا صدیوں سے برما میں رہتے چلے آئے ہیں۔ لیکن وہاں کی فوجی سرکار نے عالمی قوانین کے خلاف ان کی شہریت کوسلب کرلیا ہے۔ ان میں سے بہت سوں پر یہ الزام یہ ہے یہ اصلاً بنگالی ہیں۔ غیر منقسم بنگال سے آ کر برما کی حدود میں بس گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی آکر بسا وہ صدیوں سے وہاں رہ رہا ہے۔ اس کے اباواجداد کو وہاں کی شہریت حاصل تھی۔ برما کی سرحد بنگال کے ضلع چٹگاؤں سے ملی ہوئی ہے۔ صدیوں سے لوگ ادھر ادھر آتے جاتے رہے ہیں۔ اکثرسرحدی علاقوں کی تہذیب وثقافت اوربولی پڑوسی ملک کے متصل علاقوں جیسی ہی ہوتی ہے۔ اگربرما میں کچھ بنگالی نسل کے لوگ ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ۔ پاکستان کے مغربی قبائلی علاقوں کی تہذیب وتمدن اوررسم ورواج سب افغانیوں سے ملتے ہیں۔ ہندستان کی دور مشرقی ریاستوں ناگالینڈ، اروناچل پردیش اورسکم وغیرہ کے باشندوں کے نقش ونگار اور رہن سہن چینیوں سے ملتے جلتے ہیں ۔ لیکن ان کا سب سے بڑا قصورشائد یہ ہے کہ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں اوران میں سے تھوڑے بہت نمازروزہ کے بھی پابند ہیں۔اسی لئے نہ چین کی جبیں پر کوئی شکن ہے اورنہ مودی کو کوئی ملال ہے۔

مودی کے اس تازہ سہ ملکی دورے کے دوران الیکٹرانک میڈیا پررات دن مودی کی شعبدہ سامانیوں پر تالیاں بجاتے چیرلیڈرس کی لائیو کلپنگ دکھلائی جارہی تھیں۔ لیکن برمی روہنگیا مسئلہ کو پوری طرح نظرانداز کردیا گیا۔ اب مودی اورزی نے عالمی قیادت اورعالمی برادری کے دکھ درد میں شرکت کے جس حوصلہ مندانہ عزم کا اظہار کیا ہے ، کیا اس کا منطقی تقاضا یہ نہیں کہ اس کی پہل اپنے پڑوس سے کی جائے اورہماری ناک کے نیچے سمندرمیں جو اتنا بڑا انسانی المیہ روز شدید ترہوتا جا رہا ، کچھ اس کو حل کی فکر کی جائے۔
بیشک ہندستان اورچین کو پوری دنیا کے دکھ درد میں شرکت کے اعلان کے ساتھ ہی پہلا مشترکہ عملی قدم برما کے روہنگیا باشندوں کی شہریت کے مسئلہ کو سلجھانے کے لئے اٹھانا چاہئے۔ افسوس کہ اس معاملے میں موجودہ اور سابق سرکار کی سردمہری میں کوئی فرق نہیں ، حالانکہ یہ سرکاریں پاکستان میں ہندو اقلیت پر کسی ظلم کی خبرسنتے ہی بلبلااٹھتی ہیں۔چین اورہندستا کو برما کے ان مظلوموں سے ہمدردی شائد اس لئے نہیں کہ وہ غیرہندو ہیں اور ان پر ظلم وہاں کی غیرآئینی سرکار عدم تشدد کے نام لیوا بودھ بھکشوؤں کی شہ پر ڈھا تی رہی ہے۔

بنگلہ دیش سے متصل اس خطے میں کوپہلے ارکان ریاست کہلاتا تھا، جہاں کی 44فیصدآبادی روہنگیا مسلمانوں پر مشتمل ہے، چین اورہندستان آئندہ چند سالوں میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والے ہیں۔اس کے باوجودان دونوں ممالک نے حقوق انسانی کی اس شدید پامالی سے آنکھیں بند کررکھی ہیں جس کا ارتکاب فوجی حکومت کررہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ اگرہندستان کو عالمی سطح پر کوئی بڑارول اداکرنا ہے تو پھر اس کو اس مسئلہ کو فرقہ ورانہ نظریہ سے دیکھنے کے بجائے انسانی ہمدردی کے نظریہ سے دیکھنا چاہئے اورمظلوموں کی دست گیری کے لئے سفارتی سطح پر میانمار کو راغب کرنا چاہئے کہ جب تک اس خطے میں امن چین نہیں ہوگا، مطلوبہ ترقی ممکن نہیں۔ اس کے لئے خود ہمیں اپنے یہاں ایک مثالی ماحول کی تشکیل دینی ہوگی جس کے لئے مودی سرکار کو ان سب عناصر پر لگام کسنی ہوگی جو ملک کے ماحول کو بگاڑتے رہتے ہیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.