ایگزیکٹ ،میڈیا چینل اور جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
پاکستان میں اسکینڈلز کی کمی
نہیں ، ایک سے ایک بڑھ کر اور بڑی سے بڑی جعل سازی، اسکینڈلوں کی فیکٹریاں
اگر دنیا میں کہیں پائی جاتی ہیں تو وہ ہماری سرزمین ہے۔ کل کی خبر تھی کہ
سعودی عرب میں 80سے زیادہ لوگوں کو پھانسیوں پر لٹا یا گیا ان میں
10پاکستانی تھے۔ اگر پاکستان میں جنم لینے والے اسکینڈلوں کی فہرست بنائی
جائے تو صرف فہرست ہزاروں صفحات پر مشتمل ہو گی۔ دھوم تھی کہ ہمارا میڈیا
آزاد ہوگیا ہے، خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا نے اپنی طاقت کا ڈنکا بجایا
ہواتھا۔ پاکستان کی تمام طاقت ور قوتوں کا ڈر ختم ہوگیا تھا اگر ڈر اور خوف
رہ گیا تھا تو الیکٹرنک میڈیا کایا خود کش بمباروں کا، دہشت گردی کا، چورں
کا لٹیروں کا، ڈاکوؤں کا، موبائل چھینے والوں کا ۔پاکستان میں نجی چینلوں
کی تعداد سو سے اوپر ہے ان کا کاکام اگر کچھ رہ گیا تھا تو وہ یہ کہ وہ
دکاندار، فیکٹری مالکان،اسپتال، ڈاکٹر، حکیم ، طبیب، عامل،جعلی پیر،جادو
گر، فال نکالنے والے، میٹھائی بنانے والے، اچار و مربہ بنانے والے، سؤنف
سپاری، گٹکے کا کاروبار کرنے والے ، ساحل سمندر پر تفریح کی غرض سے موجود
جوڑوں ، سیاست دانوں کا ٹاکرا کرنے انہیں نیچا دکھانے یا مند پسندوں کو
سیڑھی کاسہاردیتے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی خوف کھاتا تھا تو الیکٹرنک میڈیا
سے کہ نہیں معلوم کب اور کون سے چینل کی خاتون اینکر پرسن ہاتھ میں مائیک
لیے اپنے ہمراہ کیمرہ اٹھائے ساتھیوں کی ٹیم کے ساتھ آموجود ہوگی اور سلطان
راہی کی طرح چنگھاڑتے ہوئے گویا ہوگی کہ ’اُوئے اے کی کاروبار ہو ریا ہے‘ ۔
لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ساحل سمندر یا تفریح مقام پر کسی جوڑے سے نکاح
نامہ طلب کرنا، ایک سے ایک بڑھ کر ، ترم خان، صحافت کے علمبردار، سچ دکھانے
اور سچ بولنے کے دعویٰ کرنے والوں نے کبھی اپنا احتساب نہیں کیا، کبھی کسی
چینلز کے گریبان میں جھانکنے کی توفیق نہیں ہوئی، کسی چینلز کے مالک سے
آنکھ مٹکا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، ایک چینل چھوڑا دوسرا، دوسرا چھوڑا
تیسرا، تنخوائیں اور مراعات کا موازنہ دیگر پیشوں سے کریں تو پتہ چلتا ہے
کہ اینکروں نے تمام پیشے والوں کو پیچھے چھوڑدیا، تعلیم کیا صرف گریجویٹ،
زیادہ سے زیادہ ماسٹر، سارے ماہر، تجربہ رکھنے والے، ایم فل اور پی ایچ ڈی
کی ڈگری رکھنے والے سوچ بھی نہیں سکتے کہ انہیں کروڑوں میں یا ان چلتے
پھرتے اینکروں کے مساوی تو کیا آدھی مراعات بھی حاصل کر سکیں گے۔اگر کسی نے
اینکر پرسن کی تنخواہوں کی تفصیل دیکھنا ہو تا نیٹ پر موجود ہے، چھوٹے سے
چھوٹا ڈیڑ لاکھ ، بڑے نامور کئی کئی لاکھ ماہانہ لے رہے ہیں۔ اتنی آمدنی تو
وزیروں سفیروں کی بھی نہیں ہوگی، بس ایک بار موقع مل جائے تو کسی بھی بڑے
سیاست داں کا انٹر ویو کرلیں اور اسے خوب خوب دوڑائیں پھر دیکھیں کہ چینل
مالکان آپ کی کسی منت سماجت کرتے ہیں ،آپ کی دلیرانہ گفتگو آپ کو بھی
لاکھوں ماہانہ کا انسان بنا دے گی۔
ہمارے میڈیا نے کبھی یہ نہیں سوچا نہ ہی تحقیق کی کہ ان کے بعض ساتھیوں کو
جو نہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بہت طویل تجربے کے حامل بھی نہیں، پھر
انہیں کوئی چینل انہیں غیر معمولی تنخواہ اور مراعات سے کیسے نواز رہا ہے۔
ہر کوئی اس فکر اور جدوجہد میں لگا رہا کہ اسے بھی کوئی ایسا ہی چینل ہاتھ
آجائے ۔ بھلا ہو ڈیکلن والش کا کہ لندن میں بیٹھ کر پاکستانی ادارے کے بارے
میں ایسی رپورٹ تیاری کی کہ جس کی صداقت کو تاحال کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔
اس کی رپورٹ کے تمام باتیں سچ کا پتا دیتی نظر آرہی ہیں۔ جعلی ڈگریوں کی
فروخت کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ صدر مشرف نے پارلیمان کا رکن ہونے کے
لیے گریجویٹ ہونے کی شرط لگائی تو کیسے کیسے پارسا، عوام کی بھلائی کا دم
بھر نے والے، خاندانی شرافت ، معزز و محترم ، خاندان کے بزرگ ہمیشہ عوام کے
نمائندہ رہے ، جعلی ڈگریوں کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کیے نظر آئے،
مقدمات کا سامنا کیا، نہ اہل ہوئے، رسوا اور بدنامی الگ ۔ راقم کا تعلق
کیونکہ تعلیمی ادارں سے رہاہے، 35سال تعلیمی اداروں اور وہاں ہونے والی
مثبت اور منفی سرگرمیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جعلی کام جسے عرف عام
میں دو نمبری کام کہا جاتا ہے ہر جگہ، ہر ادارے میں ہوتا ہے۔ اس کی بھی بے
شمار وجوہات ہیں، سیاسی ، معاشی و معاشرتی نہ ہمواریوں نے بعضوں کو مجبور
کردیا ہے، کچھ کو سیاسی جماعتوں نے بے بس کردیا، بعض حالات اور ماحول کے
ہاتھوں برائی کے کاموں میں پڑ گئے۔ لیکن یہ جو ایگزیکٹ اسکینڈل سامنے آیا
اس نے تو پاکستان کا نام باہر کی دنیا میں زیادہ ہی روشن کردیا اور وہ
ہمارے ملک کی پہچان بن کر ابھرے ہیں۔ معروف شاعر انور شعورؔ نے ’قدر‘ کے
عنوان سے کیا خوب قطعہ کہا ہے
ہم نے یہ مانا کہ اپنے بعض لوگ
بد دیانت اور بے ایمان ہیں
قدر کرنی چا ہئے اُن کی ہمیں
وہ ہمارے ملک کی پہچان ہیں
واقعی ایگزیکٹ اسکینڈل ہمارے ملک کی پہچان بن رہا ہے۔ اچھے اچھے کام کرنے
سے ہی نام ور ی حصہ میں نہیں آتی، مال بنانا مقصد ہو تو پھر کچھ بھی کیا
جاسکتا ہے، کسی بھی حد کو عبور کیا جاسکتا ہے۔آج 27مئی جنگ کی خبر ہے آئی
ٹی سے متعلق ادارہ جو ایک معروف چینل جس کا چرچہ دو سال سے ہے چل رہاتھا
تاحال شروع نہیں ہوا ، بس اب آیا کہ جب آیا ، بتا یا جاتا ہے کمپنی کا سی
ای او شعیب شیخ کو جعلی ڈگریاں برآمد ہونے کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حکومت نے اس کمپنی کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع تر کردیا ہے۔ رپورٹر کی
اطلاع ہے کہ کراچی کے دفتر سے لاکھوں کی تعداد میں اسٹوڈنٹ کے کارڈ اور
دیگر دستاویزات بھی برآمد کی گئیں جو دنیا بھر میں آن لائن فروخت کی گئی
جعلی ڈگریوں کا ریکارڈ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایگزیکٹ سے منسلک بیلفر ڈ
یونیورسٹی کو امریکی عدالت جعل سازی کے جرم میں بائیس ملین ڈالر جرمانے کی
سزا سنا چکی ہے جب کہ ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ بیلفرڈ یونیورسٹی سے
کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کر چکے ہیں۔سلیم قریشی نامی پاکستانی نے
بیلفرڈ کے معاملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ کمپنی کے اعلیٰ افسران ایک
ایک کرکے کمپنی سے اپنے لاتعلقی کا اظہار کرچکے ہیں۔ کچھ انتظار میں ہیں کہ
اگر معاملا یہیں پر ٹھنڈاپڑجاتا ہے تو بھاری بھرکم تنخواہ کا مزاہ لوٹتے
رہیں گے، اگر معاملا اور بگڑتا نظر آتا ہے تو وہ بھی مستعفی ہوجائیں گے۔
اسی طرح اس کمپنی کا چینل اور اس کے اعلیٰ افسران صحافی بھی اپنی علیحدگی
کا بیان دے چکے ہیں۔ ڈیکلن والش کی رپورٹ پر حکومت نے تحقیقات کو سچائی اور
ایمانداری سے آگے بڑھایا تو بات بہت دور تک جا پہنچے گی۔ اپنی علیحدگی کا
اعلان کرنے والے بڑے اینکر پرسن بھی اس تحقیقات کا حصہ بنتے نظر آئیں گے۔
بھاری بھرکم مراعات حاصل کرنے والوں کا احتصاب ہوا تو آئندہ اس قسم کے جرم
کی روک تھام ہوسکے گی۔ اگر اس اسکینڈل کو دیگر اسکینڈلوں کی مانند سرد خانے
کی نذر کردیا گیا تو نتیجہ صفر ہی نکلے گا۔
ایگزیکٹ کے سی ای او سے بعض چینل نے انٹر ویوز لیے اور ان سے اس اسکینڈل کے
حوالے سے بہت سے سوالات کیے۔ ان کی گفتگو سن کر ، ان کی پرسنالٹی دیکھ کر،
زبان و بیان اور انداز تکلم سے مجھے حیرت ہوئی کہ ہمارے صحافی برادری کی
بڑی بڑی شخصیات کس طرح فریب میں آگئیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف لاکھوں کی
نہیں بلکہ کروڑوں کی تنخواہ ا ور مراعات کے سحرمیں پھنس گئے۔ صحافی خاص طور
پر سینئر اینکر پرسن تو بڑے جہان دیدہ ہوتے ہیں، یہ تو اڑتی چڑیا کے پر گن
لیتے ہیں، سامنے والی بڑی سے بڑی شخصیت کو اس طرح گھیرتے ہیں کہ کیا کوئی
شکاری اپنے شکار کو قابو میں کرتا ہوگا ۔ پھر یہ بھی کہ چلیے آپ روپے پیسے
کی چمک سے آپ کی آنکھیں چندھیا گئیں تھیں ، دو سال سے چینل شروع ہوکر ہی
نہیں دے رہا تھا، یہ سوچنے کی بات تھی کہ چینل چل نہیں رہا تو پھر مالک اس
قدر بھاری بھرکم اخراجات کہاں سے کر رہا ہے۔ اس کا کاروبار کیا ہے؟ اگر یہ
چینل کسی بڑے ادارے کا ذیلی ادارہ بھی ہے تو ا س بڑے ادارے کا کاروبار کیا
ہے؟ اتنا کثیرسرمایہ کہا سے آرہا ہے ؟ اور کس طرح آرہا ہے۔ ہمارے بعض سینئر
صحافی آسائشوں اور روپے پیسوں کی چمک کے سامنے اپنی عقل و سمجھ ہی کھو
بیٹھے۔
ایگزیٹ کے سی ای او کی گفتگو سے ہر گز ہرگز یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ یہ
کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ، برد بار، عقل و سمجھ رکھنے والا، اس قدر بڑے
ادارے کا مالک گفتگو کررہا ہے۔ ان کی باتوں میں جذباتی پن تھا، پاکستانیت
کا شیلٹر لینے کی کوشش کر۔ اپنی شرٹ پر پاکستان کا جھنڈا لگالینے سے ہمیں
جعلی ڈگری کے کاروبار کا لائسنس نہیں مل جاتا، ایمانداری کو ثابت کرنے کے
لیے قسمیں کھانا منفی عمل تصور کیا جاتا ہے۔بعض سیاست دانوں نے قرآن سر پر
رکھ کر اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی، لیکن لاحاصل۔محترم سی ای او
صاحب نے اپنے دفعہ میں جو دلائل دیے وہ ناکافی اور ان میں وزن دکھائی نہیں
دیتا تھا۔ ماں یا بچوں کی باتیں کرکے ہمدردی حاصل کرنے سے آپ کا جرم چھپ
نہیں جائے گے اس کے لیے آپ کو ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو
جو کاروبار انہوں نے گنوائے وہ ایسے نہیں تھے کہ ان سے اس قدر منافع ہو جو
سامنے آیا ہے۔ کیا یہ کمپنی آن لائن ڈگریاں دینے والوں کو صرف اور صرف ویب
سائٹ کی سہولیات فراہم کرتی تھی؟ ایساکام کرنے والے آئی ٹی کی دنیا میں بے
شمار ادارے موجود ہیں جو اس قسم کا کاروبار کررہے ہیں لیکن ان کی آمدنی بے
حساب نہیں۔اس شعبہ میں محض ایگزیکٹ ہی تو نہیں ، سخت مقابلہ ہے، موصوف سی
ای او صاحب کی ذات آئی ٹی کے حوالے سے کوئی معتبر و معروف بھی نہیں۔ محترم
سی ای او صاحب نے یہ بھی کہا کہ وہ ان کمپنیوں کو چیٹ اور دوسری سہولتیں
فراہم کرتے تھے۔ آن لائن خدمات کی فراہمی اور جعلی ڈگریوں کی فروخت دو الگ
الگ چیزیں اور کام ہیں دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق اور ربط نہیں،
ڈگریوں کی فروخت میں غیر ملکی بھی ملوث پائے گئے ہیں لیکن اصل کنٹرول اس
کمپنی یعنی ایگزیکٹ کے پاس ہی تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر ادارہ خواہ اس کا
تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو اپنا احتصاب ازخود کرے۔ چینلز کو بھی ، اینکر پرسن
بھی اب غیر اہم فوٹو گرافی، ڈرامے بازی کے بجائے ٹھوس شواہد کے ساتھ ،
تحقیق کرنے کے بعد معاملے کو کیمرے کے سامنے لانا چاہیے۔ امریکہ کے ڈیکلن
والش سے سبق حاصل کریں ، ممکن ہے کہ والش کی مدد کسی پاکستانی نے ہی کی ہو
لیکن اس کی اسٹوری سے کتنی بڑی حقیقت سامنے آئی۔
ساری باتیں ، اسکینڈل اپنی جگہ، ایگزیکٹ غلط کاموں میں ملوث ہوگی، پاکستان
کے متعلقہ ادارے تحقیقات کررہے ہیں، وزیر داخلہ نے اس اسکینڈل کے حوالے سے
مناسب بیان دیا ہے کہ ہر سطح پر تحقیقات کی جائے گی، اب یہاں تک ہوچکا ہے
کہ کمپنی کے سی ای او کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے، یقینا دیگر ذمہ داران
بھی قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے، سالوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات
لینے والوں سے بھی حساب کتاب ہوگا، کہ وہ کس طرح مزے لیتے رہے، اس دوران
انہوں نے کتنا انکم ٹیکس ادا کیا، کیا وہ اپنی تعلیم، تجربہ اور حیثیت کے
مطابق اس لائق تھے کہ انہیں کوئی بھی کمپنی اتنی بھاری رقم تنخواہ کے طور
پر ادا کرے۔ یہ سب باتیں وقت آنے پر ہوں گی۔ اس اسکینڈل کو منطر عام پر
لانے والے ڈیکلن والش بھی دودھ میں دھلا نہیں، وہ بھی پاکستان اور پاکستانی
عوام اور حکومت کا خیر خواہ نہیں، اسے 2013میں پاکستان سے expelledکردیا
گیا تھا۔ وہ کم عمر ہے، فتین اور پاکستان سے محبت نہیں بلکہ اسے اپنی شہرت
درکار ہے۔ وہ پاکستان میں نیویارک ٹائم کا بیورو چیف ہے ، ماضی میں گارڈین
کے لیے کام کرتا رہا ہے۔ اب وہ لندن میں بیٹھ کر پاکستان پراپنی بری نظر
رکھے ہوئے ہے، وہ گزشتہ دیہائی سے پاکستانی تہذیب و ثقافت، پاکستانی
سوسائیٹی، پاکستان کی سیاست اور سیاست دانوں کے علاوہ دہشت گردی کے حوالے
سے لکھتا رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایگزیکٹ ، میڈیا چینل اور جعلی ڈگریوں کے
حوالے سے اس نے اس اسکینڈل کو بڑھا چڑھا کر ، نمک مرچ لگا کر پیش کردیا ہو۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہمارے تحقیقاتی ادارے ہر ایک سے انصاف اور قانون
کے مطابق معاملا کریں گے جس کے نتیجے میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے
گا۔(28مئی2015، مصنف سے برائے راست رابطے کے لیے ای
میل:[email protected]) |
|