الحمداﷲ۔۔پاکستان کے تمام مسائل ختم ہو گئے

 کسی بھی چینل کی خبریں اور ٹاک شوز دیکھیں یا کثیر الاشاعت خبار کا خبروں والا صفحہ دیکھیں تو ایسا محسوس ہو گا کہ جیسے ملک کے تمام مسائل حل ہو چکے بس ایک ہی مسئلہ ملک میں پیدا ہوگیا جس سے خدانہ خواستہ ملک کی سلامتی خطرے میں پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے اور وہ ہے ایگزٹ کا مسئلہ کہ برسوں سے سافٹ ویئر کے حوالے سے کام کرنے والی یہ کمپنی ملک کے تمام ان اداروں کی جو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایک ایسا کاروبار کررہی تھی جس کی آمدنی سیلاب کی طرح آرہی تھی ۔ایگزیٹ کے جرائم میں وہ تمام ادارے برابر کے شریک ہیں جن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر کاروبار کرنے والے کی آمدنی کا سراغ نہ لگاسکے۔

1990میں ملازمت مستعفی ہو کر میں نے پاکستان چوک کی ایک مارکیٹ میں دکان لے کر پرنٹنگ پریس لگایا،چند دنوں بعد مارکیٹ کے ساتھی دکاندار نے کہاکہ آپ سو روپئے دے دیجئے گا شاپس ایکٹ والے کو دینا ہے اسے ہر سال ہم مارکیٹ کے تمام دکانداران دوسو روپئے فی کس کے حساب سے دیتے ہیں آپ کی دکان چونکہ چھوٹی ہے اس لیے آپ سو روپے دے دیں ۔اس وقت اخبار کی تازہ ملازمت چھوڑی کچھ اس کا نشہ اور کچھ ہلکے بھلکے تقوے کا بخار، میں نے اس کو پیسے تو نہیں دیے بلکہ اس سے کہا اس انسپکٹر سے کہو مجھ سے مل لے ۔وہ انسپکٹر تو ملنے نہیں آیا کچھ دن بعد مجھے کورٹ کے تین نوٹس موصول ہوئے جس میں رواں ماہ کی تین تاریخوں کی نشاندہی کی ان ان دنوں میں آپ کی دکان رات دس بجے تک کھلی رہی اس لیے آپ فلاں تاریخ کو عدالت میں حاضر ہوں ،اس وقت خیال ہوا کہ اگر سو روپے دے کر جان چھڑا لیتے یہ مصیبت تو نہ آتی ،اس زمانے میں جمعہ کی ہفتہ وار چھٹی ہوتی تھی جمعرات کا دن کورٹ میں حاضر ہونے کا تھا،کاروباری مصروفیت میں بھول گئے ،وکلاء سے بات کی کم سے کم فیس دوہزار سن کر ہوش اڑ گئے ،بہر حال ایک دوست کے ذریعے سے کچھ کم پیسوں یعن ایک ہزار تک میں معاملہ نمٹ گیا ،میں نے یہ مثال اس لیے دیا کہ ہمارے ہر ادارے چاہے وہ شاپس ایکٹ والے ہوں پراپرٹی تیکس ڈیپارٹمنٹ ہو ،انکم ٹیکس کا محکمہ ہو اگر آپ نے دکان پہ کوئی بورڈ لگادیا بلدیہ کے شعبہ اشتہار والے عقاب جیسی نظریں رکھتے ہیں ۔آپ کسی کاروبار کا آغازکر کے دیکھیں کلائنٹ بعد میں آئیں گے ان اداروں کے لوگ پہلے آجائیں گے ۔

حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسا کاروبار جس کے ملک ہر بڑے شہر میں جدید قسم کے دفاتر ہوں پوری دنیا میں جس کی گونج ہو بھاری پیکجز پر ملک کے ذہین لوگوں کو اپنے یہاں ملازمت دی ہو اس کاروبار سے ہمارے متعلقہ ادارے ناواقف ہوں الطاف حسین صاحب کا یہ بیان بالکل ٹھیک ہے کہ ایگزیٹ کے حوالے سے کیا ہماری ایجنسیاں سو رہی تھیں ۔اور اب جا کے بڑے بڑے راز افشاء ہو رہے ہیں۔اصل احتساب تو پھر ان اداروں کا ہی ہونا چاہیے جن کی ناک کے نیچے ایسا ادارہ کام کررہا تھا جو پوری دنیا کو بے وقوف بنارہا تھا ویسے تو پاکستان پوری دنیا کے لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسا ڈراؤنا ملک بن چکا ہے جہاں سے وہ کسی بھی قسم کی عجوبہ واقعات ،حادثات کی خبروں کے لیے تیار رہتے ہیں ،جعلی ڈگری کا نٹ ورک تو امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے جہاں سے ترقی پذیر ممالک کے لوگ اپنی من پسند ڈگریاں منہ مانگے داموں میں خریدتے ہیں ۔ان بڑے ممالک کی یونیورسٹیوں کے خلاف کوئی کارروائی اس لیے نہیں ہوتی کہ چھوٹے ممالک ،یا یوں سمجھیں کہ ترقی پذیر ممالک میں کوئی نیویارک ٹائم جیسا اخبار نہیں ہوتا جو اس فراڈ کے کاروبار کو طشت ازبام کرسکے۔پاکستان میں جوشخص یہ کام کررہا تھا وہ کافی عرصے امریکا ہی میں رہا ہے کوئی بعید نہیں کے اس ذہین شخص نے وہیں سے سب کچھ سیکھا ہو اور پھر پاکستان ایسے ملک میں جہاں ہر قسم کے فراڈ کا کام بہت آسانی سے ہو سکتا ہے اس شخص نے اپنی ذہانت اور پیسہ استعما ل کر کے اتنے منضبط انداز میں جعلی ڈگری کے کاروبار کو پھیلایا کہ پوری دنیا کے لوگوں کو عام یا فلمی زبان میں ماموں(بیوقوف) بنادیا ۔جعلی ڈگریوں کی کاروباری مافیا نے جب یہ دیکھا کہ اس سے ان کی دکانداری پر اثر پڑسکتا ہے تو انھوں نے موثر میڈیا اورترقی یافتہ ملک ہونے کے ناطے چودھراہٹ استعمال کرکے اپنے راستے کا کانٹا ہٹانے کی کوشش کی ہو۔

اس طرز استدلا ل سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ایگزیٹ کے جعلی ڈگری کے کاروبار کو پاکیزگی کا جامہ پہنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ہمارے وہ بینکنگ جس میں سود کا کاروبار ہوتا ہے اسلامی نکتہ نظر سے ہرام ہے ہم نہ ملک میں اور نہ باہر اس کی حمایت کرتے ہیں لیکن جب ایک پاکستانی آئی ایچ عابدی نے بی سی سی آئی بینک کے ذریعے مغربی طرز بینکاری کی زبان میں ان کو چیلنج کیا اور ان ہی کے میدان میں جاکر انقلاب برپا کیا پوری دنیا کے یہودی ساہوکاروں پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی ۔ایک صاحب نے بتایا کہ امریکا کے ایک سابق وزیر خزانہ جو آئی ایچ عابدی کے پڑوس میں رہتے تھے ان کی وزارت کا جب آخری دن تھا اور وہ اپنے دفتر سے نکلے تو سامنے ایک کار کھڑی تھی جس میں آئی ایچ عابدی تھے انھوں نے ان وزیر صاحب کو اپنے ساتھ بٹھایا اور بی سی سی آئی کے دفتر لاکر پورے امریکا کی بی سی سی آئی کا صدر بنادیا اور کہا کہ تنخواہ آپ اپنی مرضی سے طے کریں گے۔اسی طرح مغربی جرمنی میں جس دن بی سی سی آئی کی شاخ کا افتتاح ہونے والا تھا اسٹاک مارکیٹ اور بینکنگ کے شعبے پر لرزہ طاری تھا ۔یہی کام اگر کسی بڑے ملک کا کوئی بینکار کرتا تو اس سے مغربی ساہو کار مک مکا کر لیتے لیکن ایک چھوٹے وہ بھی مسلمان ملک کے بینکار کو یہ ہمت کیسے ہوئی کہ وہ پوری دنیا کی معشیت کو اپنے چنگل میں دبوچ کر رکھنے والے یہودی ساہو کاروں کو چیلنج کرے ۔چنانچہ جیسا ہوتا رہا ہے وہی ہوا یہودی سازشی ذہنوں نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت بی سی سی آئی پر بین الاقوامی ڈرگ مافیاکی بلیک منی کو وہائٹ کرنے کا الزام لگایا پاکستان سمیت کئی ممالک میں مقدمات قائم ہوئے بی سی سی آئی کا ناقابل معافی جرم یہ بھی تھا آمدنی کا ایک بڑا حصہ اسلام کی ترویج و اشاعت مساجد کی تعمیر اور دیگر دینی مقاصد کے لیے مختص تھا گو کہ یہ مالکان کا اپنا تصور دین تھا جس پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن مغرب کو یہ کیسے گوارہ ہو سکتا تھا اکہ ان کے ملکوں سے کمائی ہوئی دولت سے اسلام کے فروغ کے حوالے سے کوئی کام کیا جائے اس لیے جھوٹے مقدمات کی بھرمار آئی ایچ عابدی کی گرتی ہوئی صحت نے بی سی سی آئی کو پنپنے کا موقع نہیں دیا ۔

ایگزیٹ کا قصور کیا تھا یہی نا کہ پوری دنیا سے دولت کما کر اپنے ملک میں لارہا تھا اور پھر اسی ملک میں خرچ کررہا تھا ۔یہاں تو ایسے سیاستدانوں کی کھیپ موجود ہے جنھوں نے کمیشن سے، بھتوں سے ،پلاٹوں سے ،( ھکومت میں رہ کر پوری زمین کو اپنی میراث سمجھ کر سستے داموں فروخت کرنا)دولت کما کر باہر کے ملکوں میں جمع کیا ہوا ہے آج اگر ہمارے سیاستدان حضرات اپنی رقوم پاکستانی بینکوں میں رکھنے کا فیصلہ کر لیں اس سے بھی پاکستان کی معاشی صورتحال بہت بہتر ہو سکتی ہے ایگزیٹ نے جعلی ڈگری کے کاروبار سے جو اربوں روپے کمائے وہ ملک میں ہی آئے تھے ۔لیکن صرف ایسا نہیں ہے کہ ساری دولت جعلی ڈگریوں ہی کی ہواس کمپنی کا پنا سافٹ وئیر کا بڑا منظم کاروبار تھااس سے بھی بہت کچھ دولت کمائی ہو گی لیکن چونکہ ناجائز کاروبار کا بہت زیادہ پروپیگنڈا ہوا ہے اس لیے اس نام کے ساتھ فراڈ کا لفظ نتھی ہو گیا ۔

ایگزیٹ کا یک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے کمپیوٹر اور سافٹ وئیر کے شعبوں میں ملک کے ذہین افراد کو اچھے پیکج دے کر اپنے یہاں ملازمت دی یہ الگ بات ہے ان ذہین لوگوں کی ذہانت کو غلط رخ پر لے جاکر غلط کاموں کے لیے استعمال کیاگیا۔لیکن یہ تو ہوا کے اس سے برین ڈرین کا سلسلہ رک گیاتھا،کل ہم ان ذہین لوگوں کوخیر کے کاموں میں استعمال کر سکتے ہے ۔بول چینل کا یک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے تمام چینلز پراپنے بولنے سے پہلے ایسی گھبراہٹ طاری کردی کہ وہ سب ایک صفحے پر آگئے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.