آئینِ پاکستان کی شق نمبر 140-A
میں صاف طور پر لکھا ہے کہ “(1) ہر ایک صوبہ قانون کے ذریعے، مقامی حکومت
کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیار
مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردے گا۔ (2) منتخب حکومتون کے
انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا“۔
عام انتخابات کے موقع پر اپنے اپنے منشور میں “بلدیاتی انتخابات“ کرانے کا
دعوٰی تو ہر سیاسی جماعت نے کیا تھا ۔ سندھ میں جمہوریت اور عوام کی ہمدردی
کا دعوٰی کرنے والی پیپلز پارٹی اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ کی
حکومتیں آٹھ آٹھ سال سے اقتدار میں ہیں لیکن عوامی مسائل کے حل کے لئے
مقامی سطح پر سب سے زیادہ با اثر نظام‘ مقامی حکومت کا نظام‘ اپنے اپنے
صوبوں میں قائم کرنے میں دونوں جماعتیں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ لیکن
پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کی مشترکہ حکومت نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں
“بلدیاتی انتخابات“ کرانے کا چیلنج قبول کیا اور اسکے انعقادکا عوامی فیصلہ
کرکے خود کو دیگر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے ممتاز ثابت کردیا۔ جس کے لئے
ان کو نہ سراہا جانا زیادتی ہوگی۔
پاکستان جیسے حجم اور آبادی رکھنے والے ملک میں جہاں آبادی میں اضافہ بھی
تیزی سے ہو رہا ہو سب سے بڑی زیادتی تو یہی ہے کہ کوئی 45 سال قبل بنائے
گئے چار صوبوں کو نعوذ باللہ آسمانی صحیفے کا مقام دے دیا گیا ہے اور آبادی
میں تین چار گنا اضافہ ہونے کے باوجود صوبوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا
گیا۔ جسکی وجہ سے عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور
عوامی مسائل و مشکلات میں بد انتظامی اور کرپشن کے باعث روز بروز اضافہ ہو
رہا ہے اور اس پر مزید طرّہ یہ کہ اپنے اپنے منشوروں میں عوام سے تین ماہ
اور چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کا وعدہ کرنے والی بڑی جماعتیں عوامی
مشکلات حل کرنے والے نظام کو اپنانے میں خوف و وحشت کا شکار ہیں۔
ان حالات میں معمولی سی سوچ بچار رکھنے والا شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کی
ہماری سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کے مزے لوٹ کر دھن دولت جمع کرنے میں
دلچسپی رکھتی ہیں اور انکو عوامی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن
مایوسی کے اندھیروں میں خیبر پختونخواہ حکومت میں شامل دونوں جماعتوں کا
فیصلہ روشنی کی نئی کرن ہے۔ جہاں تک انتخابات میں دھاندلی کا الزام ہے تو
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری قومی تربیت کا کوئی اہتمام آج تک ریاستی
سطح پر کیا ہی نہیں گیا ہے جسکی وجہ سے ہمارے قومی مزاج میں نطم و ضبط ، ہم
آہنگی اور صبرو تحمل کا فقدان ہے۔ جسمیں پہلا قصور تو سیاسی اقتدار میں
بالا تر قوتوں کی بار بار کی مداخلتِ بیجا اور دوسرا قصور وفاق میں برسرِ
اقتدار پُرانی سیاسی جماعتوں کا رہا ہے۔ اور پھر اگر بلدیاتی انتخابات میں
لمبے لمبے وقفے نہ دئے جاتے تو اتنا فرسٹریشن نہ ہوتا جو کے پی کے الیکشن
کے موقع پر دیکھنے میں آیا۔ لیکن پھر بھی پی ٹی ائی کی قیادت نے اعتراضات
پر فوری طور پر انتخابات دوبارہ کرانے پر رضا مندی ظاہر کی ہےحالانکہ ان کے
کے منتخب شدہ کونسلروں کی تعداد تمام دوسری پارٹیوں سے زیادہ ہے باوجود اس
کے کہ پی پی پی ، اے این پی جیسی سیکولر جماعتوں نے مذہبی جماعت جے یو آئی
کا تڑکا لگا کر بہت مضبوط انتخابی اتحاد قائم کیا تھا۔
اللہ ربّ کریم سے دُعا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے ترسے ہوئے سندھ اور شدید
مسائل کے شکار صوبہ پنجاب کے عوام کی حکومتوں کو توفیق دے کہ وہ آئینِ
پاکستان کی شق 140-A کے مطابق اپنے اپنے صوبوں میں لوکل گورنمنٹ بنانے کے
لئے بلدیاتی انتخابات کا جلد از جلد انعقاد کرائیں اور اس معاملے میں
initiative لینے والی “کے پی کے“حکومت سے زیادہ اہل خود کو ثابت کریں اور
وہاں ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے یہاں
غلطیوں سے پاک الیکشن کرائیں تاکہ عوام اپنے روز مرّہ کے مسائل کے کے حل
کوئی تو راہ پائیں۔ شکریہ |