اب تو ہمارا دھرم یہی جل جانا اس کے ساتھ
(Usman Ahsan, Liverpool UK)
جہالت کبھی بانجھ نہیں ہوتی
پرندے جس درخت پر آشیانہ بناتے ہیں انھیں اس درخت سے محبت ہوجاتی ہے ۔ جنگل
میں ایک درخت کو آگ لگ گئی اور وہ جلنے لگا پرندے اڑنے کی بجائے درخت پر
بیٹھے رہے ۔ قریب سے ایک عقلمند شخص گذرا ماجرا دیکھ کر پرندوں کو نصحیت
کرتے ہوے کہنے لگا ارے پر تمھارے ساتھ ہیں جان بچاؤ اور اڑ جاؤ ۔ پرندوں نے
کہا اس درخت کے میوے ہم نے کھائے آشیانہ اس پر بنایا اور پتے اسکے گندے کیے
۔ آج اس پر مشکل وقت آن پڑا ہے اور تو کہتا ہے کہ ہم اڑ جائیں ، ایسا
ناممکن ہے وفا کا تقاضہ یہی ہے اسکے ساتھ ہی جل جائیں ۔
آگ لگی اس درخت کو جلنے لگے سب پاتھ
ارے اڑو اڑو پنچھیو جب پنکھ تمھارے ساتھ
میوہ کھایا اس درخت کا برباد کیے سب پاتھ
اب تو ہمارا دھرم یہی جل جانا اس کے ساتھ
الله نہ کرے وطن عزیز پر کوئی مشکل ترین لمحہ آئے کیونکہ خدانخواستہ ایسا
وقت آیا تو سب سے پہلے وہی اشرافیہ اس ملک سے فرار ہوگی جنھوں نے اس گلشن
کے میوہ جات و ثمرات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسکے امن و سکون کو اپنے
مفادات کی خاطر برباد کیا ۔ پرندوں سے وفا کی توقع کیجاسکتی ہے مگر ان
انسان نما بھیڑیوں سے کسی خیر کی امید کرنا نادانی و حماقت ہے ۔ انکے پاس
جو کچھ ہے پاکستان کی بدولت ہے مگر یہ اتنے کم ظرف ہیں کہ پاکستان کو ہی
کھوکھلا کرنے کے در پہ ہیں ۔ جب تک جہلا بیوقوف ذہنی غلام موجود ہیں یہ
چہرے و روپ بدل بدل کر حکمرآنی کرتے رہیں گے ۔ کبھی بھٹو کبھی بینظیر ،
کبھی زرداری اور آنے والے وقت میں بلاول کے روپ میں جلوہ گر ہوکر جادوگری
فرمائیں گے اور منشور ہوگا بناؤ بناؤ مال بناؤ ۔ دوسری جانب شریفوں کے ہاں
بھی اگلی نسل تیار ہوچکی ہے ۔ یہ دونوں پارٹیاں ایک ہوچکی ہیں ، الیکشن
لڑتے جدا جدا ہیں پر مال کھانے کو یک جان ہیں ۔ ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف
کرپشن کے کیسز بنانے میں اربوں روپیہ انھوں نے خرچ کیا مگر آج وہ تمام کیسز
ایک ایک کرکے ختم کیے جارہے ہیں - عوام ہے کہ سمجھ ہی نہیں پارہی کہ یہ ایک
ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ اسکی وجہ ہے کہ جہالت کبھی بانجھ نہیں ہوتی بلکہ اور
جہالت کو جنم دیتی ہے اور جہالت کو دور کرنے کا کوئی پروگرام بھی نہیں ان
لٹیروں نے بنایا ۔ اور کبھی بنائیں گے بھی نہیں کیونکہ انکی ترجیحات میٹرو
بس سڑکیں اور پل ہیں اور انکا ویژن ایک کنسٹرکشن ٹھیکدار سے زیادہ کا نہیں
ہے ۔ اور خاندان شریفیہ سے باہر انھیں قابلیت بھی دکھائی نہیں دیتی شائد
دور کی نظر بھی انکی کمزور ہے ۔ جمہوریت ہو یا آمریت اشرافیہ کے تو وارے
نیارے ہی ہوتے ہیں رہی بات عوام کی تو نہ جمہوریت انھیں کچھ دے سکی اور نہ
ہی آمریت بلکہ آمریت میں پھر بھی کچھ سانس بحال تھا مگر اس پھپے کٹن
جمہوریت نے تو سانس بند کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے تاکہ
سونجیاں ہو جاون گلیاں وچ مرزا یار پھرے ۔ پنچاب پر رنجیت سنگھ کے دور
حکومت میں کسی شخص نے غربت کیوجہ سے بیٹیاں قتل نہیں کیں تھیں مگر میٹرو
سنگھ کے طویل دور حکومت میں لوگ غربت سے تنگ آکر اپنے بچے قتل کررہے ہیں ۔
کیا میٹرو خادم اعلی سے پوچھ نہیں ہوگی اس دنیا میں تو جج خرید لیتے ہو جی
آئی ٹی اپنی پسند کی لے لیتے ہو رپورٹیں دبا لیتے ہو بتاؤ روز محشر کیا کرو
گے جب تمھارا سارا وجود تمھارے خلاف گواہ بن جائے گا ۔ لیکن شائد یہ اس
گمان میں ہیں کہ انھوں نے مرنا ہی نہیں مگر موت ایک اٹل حقیقت اور نہ
جھٹلائے جانے والا سچ ہے ۔ پاکستانی وہ بدنصیب قوم ہے جسے انصاف روز محشر
سے پہلے ملتا ہوا نظر نہیں آتا جسٹس کانہ جس طرح جوڈیشل سسٹم کی ماں بہن
ایک کرکے گیا ہے اسے درست کرنے کے لئیے بھی عمر نوح درکار ہے ۔ جہالت کبھی
بانجھ نہیں ہوتی بلکہ کثیر الاولاد ہوتی ہے ۔ |
|