ہر وفاقی اور صوبائی بجٹ پر
اظہار خیال کے اور تنقیدی جائزہ لیتے وقت جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو تمام
دانشور ان بالآخر یہی کہتے ہیں کہ بجٹ الفاظ اور تحریروں کا گورکھ دھندا
ہوتا ہے ۔جس کا اصل مقصد یک وقتی تقاضا پورا کرنا ،ایک رسم ادا کرنا اور
کسی حد تک حکومتی ترجیحات اور سوچ کی سمت کا اظہار کرنا ہوتا ہے ۔لیکن در
حقیقت اصل بات یہ ہے کہ دنیا کی وہ اقوام آج ہم جنہیں ترقی یافتہ قرار دیتے
ہیں انھوں نے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی اور پیش بندی سے عمل پیرا ہو کر اپنی
اپنی اقوام کو ترقی کی منازل سے ہمکنار کیا ہے ۔بجٹ کسی حکومت کی منصوبہ
بندیوں اور دور اندیشیوں کا آئینہ ہوتا ہے ۔اسے صرف الفاظ کا گورکھ دھندا
نہیں کہنا چاہیئے بلکہ اس میں حکومت کی طرف سے عوام کی بہتری کیلئے بہتری
کی ترجیحات کی تعریف کرنی چاہیئے اور نا عاقبت اندیشی اور من مانی کے
طریقوں پر اپنا نقطۂ نظر بیان کرنا چاہیئے ۔کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ
طوطی کی آواز نگار خانے میں اتنی وقعت نہیں رکھتی مگر اﷲ کے نبی ؐ کی حدیث
ہے کہ تم نیک اور اچھی بات کرتے رہو خواہ اس کی قدر کرنے والا ایک بھی باقی
نہ رہے ۔
آج جبکہ موجودہ حکومت نے بے شمار بحرانوں سے خود کو نکالا ہے ،کسی جگہ سینہ
زوری اور کسی جگہ قانونی طریقوں سے خود کو تحفظ اور دوسروں کو پچھاڑا ہے
۔قطع نظر اس بات کہ کہ زیادتی پر کون اور مظلوم کون ہے مگر حکومت نے حاکموں
والے رویے اور طاقتوں کا استعمال کر کے اپنی حکومتی گاڑی کو رواں دواں کر
لیا ہے ۔ایسے حالات میں کہ جب غیر ملکی سرمایہ داران کا اعتماد بھی حکومت
نے حاصل کر لیا ہے ۔سپورٹر کے دل کی حرکت کو بھی رواں دواں کر لیا ہے اور
اس حد تک کامیاب نظر آنے لگے ہیں کہ بعض ترقیاتی منصوبے لوگوں کو متاثر بھی
کرنے لگے ہیں جیسے میٹرو بس وغیرہ حالانکہ یہ سب ترقیاتی کم اور انتخابی
مقبولیت کے منصوبے زیادہ ہیں جبکہ ملک میں ایک عام آدمی کیلئے امن عامہ
،قانون ،انصاف ،صحت ،تعلیم ،انتطامیہ اور پولیس کے معاملات بالکل تسلی بخش
نہ ہیں ،ایسے حالات میں موجودہ بجٹ ایسا ہے کہ بجٹ پیش کرنے والے از خود
بیان کر رہے ہیں کہ اس بجٹ سبب اگلے سال چھ سات تک فیصد مہنگائی بڑھنے کا
امکان ہے جبکہ مہنگائی تو حکومتی ترجیحات کا اندازہ لگا کر بجٹ سے قبل ہی
بڑھ چکی ہے اور رمضان المبارک کا استقبال انتظامیہ کی حسب روایت غیر مثالی
کارکردگی سے شروع ہو چکا ہے ۔یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ معیشت کا کوئی
بھی ہدف پورا نہیں ہو سکا ۔اگر دیکھا جائے تو برآمدات پہلے کی نسبت کم ہوئی
ہیں اور تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے ۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس میں کسان ایک
عرصہ سے سڑکوں پر ہیں ۔گزشتہ ماہ چاول کی فصل میں کسانوں کو خاصا خسارہ ہوا
اور پھر رہی سہی کسر گندم کی فصل میں پوری ہوگئی ۔اب پھر چاول کی فصل کاشت
ہونے جا رہی ہے ۔حالیہ بجٹ میں زراعت کے شعبے کو عملی طور پر یکسر فراموش
اور نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔کھادیں ،کیڑے اور جڑی بوٹی مار ادویات و دیگر
زراعی اشیائے ضروریہ کو سستا نہیں کیا گیا ۔کیونکہ در اصل ان سب کے مینو
فیکچرز ،ڈیلرز اور مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے نما ئندگان ہیں جنہیں اتنا تو
پتہ ہے کہ بجلی ،گیس اور تیل کی قیمتوں کو کم نہیں کرنا بلکہ بڑھانا ہے
اتنا نہیں پتہ کہ زرعی ضروریات کو سستا نہ کرنے سے اور تیل وغیرہ کی قیمتوں
کو بڑھانے سے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو گا جس سے واردات ،بے راہ روی
،دھوکا ،فراڈ ،بدنیتی اور چوری ،ڈاکہ اورراہزنی عروج پر چلی جائے گی ۔جبکہ
اس بجٹ میں صنعتی ترقی کے لیے بھی کوئی حکومتی ایجنڈا موجود نہیں ہے
پاکستان اگر زرعت اور صنعت میں مسلسل کمزور ہو رہا ہے تو بالآخر اس ملک کے
یہ دونوں اہم شعبے جب کام کرنا چھوڑ دیں گے تو حکومتوں کو ضرورت کیا رہے گی
کہ ہر چیز غیروں اور بیرون ملک سے درآمد کرکے بالآخر خدانخواستہ پاک و ہند
والا زمانہ واپس آجائے گا ۔جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھروسے پر سارا ملک یورپ
کے پاس چلا گیا تھا ۔اس دور میں بھی مسلمان مغل حکمرانوں کے ساتھ غداری کے
نتائج مہلک ثابت ہوئے تھے اور ٹیپو سلطان جیسے سپوت اپنے منافق اور غدار
لوگوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے تھے اور اس طرح مسلمانوں کے نقصانات ہوئے
۔آج اگر اس خطۂ پاک کو ترقی کی طرف گامزن رکھنا ہے تو حکومت کو اپنے اس بجٹ
بارے سوچنا ہوگا ۔۔یہ بجٹ تو بتاتا ہے کہ ریٹیلرز اور امپپورٹرز پر سیلز
ٹیکس لگے گا اور اس طریقے سے اہداف پورے کئے جائیں گے ۔مگر یہ نہیں بتاتا
کہ عوام الناس سے کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ سے مختلف مدّات میں ٹیکس
وصول کئے جائیں گے اور پھر FBR کا عملہ کہ جس پر بے شمار خرچ اٹھتا ہے اور
وہ خزانے سے زیادہ اپنے پیٹوں کو بھرتے ہیں ،اس عملے میں بھی تخفیف کی جائے
گی ۔ریلوے اور اوقاف کی اراضیوں کی بندر بانٹ پر کوئی عملی پالیسی یا اقدام
کا تذکرہ نہیں ہے ۔
ابھی تو بجٹ کا اعلان ہوا ہے لہذا پورے حالات سامنے نہیں آئے مگر جب فنانس
ایکٹ جاری ہوگا تو پھر دیگر حقائق سامنے آئیں گے اور تب کوئی حتمی تبصرہ
کیا جاسکے گا ۔ابھی تو اس بجٹ سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ
حکومت ٹیکس وصولی کے نیٹ ورک اور مال کو جس حد تک وسیع کر رہی ہے اس سے
لگتا ہے کہ عوام کو ریلیف کم اور ہر کسی کو ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ اٹھانا
پڑے گا ۔سوال یہ ہے کہ حالیہ بجٹ سے عام آدمی کو کتنا نفع ہوا ہے اور قوم
کا کیا سنوارا گیا ہے تو یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اس بجٹ سے قوم مایوس ہوئی
ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بے ڈھنگی اور من مانی پر مبنی مک مکاؤ
اور ڈنگ ٹپاؤ کی حکومت نے عوام کو اس حد تک پریشان کر دیا ہے کہ وہ وقت آنے
والا ہے کہ جب عوم سیاسی پناہ کی بجائے سیاست سے پناہ مانگنے پر مجبور ہو
جائیں گے ۔
|