کیا ہندستان پر فاشزم مسلط کرنے کی تیاری ہے؟

کارپوریٹ صنعتکاروں،بین الاقوامی سرمایہ اور مسٹرمودی کی خطرناک قربت!

تاریخ گواہ ہے کہ ہٹلر نے ۱۹۴۱ میں ٖصرف۳۵ دنوں میں پولینڈ کو ۴۴ دنوں میں فرانس کوشکست فاش دے دیا تھا۔نیدر لینڈ اور ڈنمارک جیسے ممالک پہلے شکار ہو چکے تھے۔۲۲ جون ۱۹۴۱ کو روس پر حملہ کرنے سے قبل ہٹلر نے کہا تھا……’ ہمیں روسی فوج کو تہس نہس کرنے،لینن گراد، ماسکو اور کاکیسسپر قبضہ کرنے سے زیادہ کچھ کرنا ہے۔ ہمیں زمین سے اس ملک کا نام و نشان مٹاناہے اور وہاں کے عوام کو موت کی نیند سلا دینا ہے۔‘ لیکن خدا نے فرعونیت اور تکبر کو کبھی پسند نہیں کیا۔۱۹۴۵-۱۹۴۱ کے درمیان ۴ سالوں تک روسی عوام نے فاشزم کے خلاف تاریخی جنگ لڑی ساڑھے پانچ کروڑ انسانوں نے اپنی جانیں نچھاور کر دیں ،۹۰۷ ہٹلری ٹکریوں کا صفایا کر دیا۔سوویت فوجیں۱۴۱۸ دنوں تک ۳۰۰۰ سے۶۲۰۰ کیلو میٹر کی سرحد میں فاشزم کے خلاف خونی جدوجہد کرتی رہیں۔۱۹۳۳میں جرمنی میں اقتدارپر قبضہ کرنے کے بعدہٹلر نے مزدور طبقہ کو ختم کرنے اورکمیونسٹوں کا صفایا کرنیکا منصوبہ تیار کرلیا تھا۔ہٹلر نے بڑی چالاکی سے ۱۹۳۶ میں ’ کمنٹرن مخالف گٹھجوڑبنایا جسمیں پہلے جاپان اور جرمنی شامل تھا بعد میں ہنگری،اسپین،بلغاریہ،فن لینڈ، چیکو سلا واکیا،کروشیااور نانکنگ کی کٹھپتلی سرکاریں بھی اس فوجی گٹھجوڑ میں شامل ہو گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا ،ہٹلر کو شکست فاش ہوئی۔

ہٹلر ہو یا موسولنی آج بھی تاریخ میں نفرت کی علامت ہیں۔

۹ مئی ۱۹۴۵ کوفاشزم کو شکست فاش ملی اوراب ۷۰ سال کے بعد ہندوستان پرفاشزم مسلط کرنے کی تیاری(؟) کی جا رہی ہے۔ سرمایا دارانہ نظام نے اپنے پیترے بدلنے شروع کر دیے ہیں اور ایک زمانے سے بین الا قوامی ازم کا خواب دکھاتے ہوے ،ا قتصادی اداری کرن،فری بازار معاشی نظام اور نجی کرن کے ایسے دور کا آغاز کیا ہے جس نے کارپوریٹ سامراجیت کا خطرناک چہرہ اختیار کر لیا ہے۔ دنیا کوامریکی داداگری کا شکار بنانے کے لیے ایک نیا polarisationکی کوشش جاری ہے جسکے کئی نمونے گذشتہ تین دہائیوں میں دیکھنے کو مل چکے ہیں۔کارپوریٹ صنعتی سرمایہ اور بین الاقوامی سرمایہ کی ملی بھگت سے ملکی اور غیر ملکی کارپوریٹ نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر مصیبت کے بادل برسانا شروع کر دیا ہے۔ اسی ملی بھگت نے دنیا کو ایک بار پھر فاشزم کے دروازے پر لا کھڑا کیا ہے تاکہ دنیاپر اسکا سیاسی اور معاشی داداگری قائم ہو سکے۔ان مقاصد کے لیے جنگ اور کشیدگی تھوپے جا رہے ہیں،ماحولیات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔غورطلب ہے کہ ہٹلر نے خود کو قومی سوشلسٹ باور کرایا تھا،جسکا انجام دنیا کو بھگتنا پڑا تھا۔اس پس منظر میں ہم ملک کے حالات کا جائزہ لیں بھیانک تصویر سامنے آجاتی ہے۔

مودی حکومت بننے کے بعد دنگائی شاہ نے ایک خبر کی اشاعت روکنے کے میڈیا کو دھمکی دی اور میڈیا کو جھکنے پر مجبور ہونا پڑا۔حکومت کے نصف درجن وزراء اقلیتوں کے خلاف زہر اگل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے کوشاں رہے۔آر ایس ایس کا کورج آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن سے کرایا گیا۔

وزیر اعظم جس تیزی کے ساتھ غیر ممالک کے دورے کر رہے ہیں اسکا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ وہ ملک کی نمائندگی کرتے ہیں یا اپنے ہم سفر کارپوریٹ دوستوں کو غیر ملکی کارپوریٹروں کے مابین رابطہ کرانے کے مشن کو اولیت دیتے ہیں۔ تھیلی شاہوں کو ساتھ لے جانے حزب اختلاف نے مسٹرمودی پر کافی نشانہ سادھا ہے۔یہ انکی مجبوری بھی ہے کیونکہ جن تھیلی شاہوں کی مدد سے وہ اس منصب پر فائض ہوئے ہیں انکی خدمت تو وہ کریں گے ہی!

فرقہ پرستی کے خلاف زندگی بھر جنگ کرنے والی مرحومہ سبھدرا جوشی کہا کرتی تھیں کہ ہندستان میں فاشزم فرقہ وارانہ تشدد کے رتھ پر سوار ہوکر آئے گا۔ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کو نفرت کا نشانہ بنایا تو ہندوستان میں ہٹلر نوازمسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔فرقہ وارانہ موضوع پر مسٹر مودی کے حالیہ بیان پر بغل بجانے کی ضرورت نہیں ہے۔مسٹر مودی اور راج ناتھ سنگھ کا بیان آئنی مجبوری ہے۔ان عہدوں پر فائض رہنماں ایسے ہی بیانات دینے کے لیے مجبور ہیں۔دلچسپ خبر یہ ہے کہ انٹر نٹ پر گوگل پر جرائم پیشہ لوگوں کی فہرست میں مسٹر مودی کا نام فہرست میں دسویں نمبر پر آج بھی موجود ہے۔سنگھ پریوار کے لوگ صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار سے انکا کوئی رشتہ نہیں رہتا ہے۔فاسسٹ جھوٹ ،مکاری کواپنا ہتھیار بناتے ہیں اورعوام کو ورغلانے،سبز باغ دکھانے اورجھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔

مودی حکومت نے ایک سال مکمل کر لیا ۔ایک سال میں بھاجپا ممبر پارلیامنٹ اور چند وزراء کھلے عام مسلمانوں کو زلیل و رسوا کرتے رہے ،کھلے عام نفرت کی کھیتی کرتے رہے۔رام زادے اور حرامزادہ کی بکواس سے لیکر مسلمانوں سے گائے کا گوشت کھانے کے لیے پاکستان جانے کی وکالت کرنے والے مودی حکومت کے وزراء تھے۔انکے خلاف کیا کاروائی کی گئی؟ بد زبان گری راج سنگھ آج بھی مودی حکومت میں وزیر کی حیثیت سے برقرار ہیں۔

بال ٹھاکرے کھلے عام ہٹلر کے طرفدار تھے۔گجرات میں 2500مسلمان قتل کیے گیے،مگر اسوقت کے وزیر اعلیٰ کی زبان سے لفظ ’ افسوس‘ کبھی نہیں سنا گیا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی وکالت کے بعد ہی ونئے کٹیار کا بیان آیا کہ آرڈیننس لاکر رام منڈر بنانے کا مشورہ دے ڈالا۔ہندستان میں کاپوریٹ صنعتکاروں انٹرنشنل سرمایا کاروں اور حکومت کے مابین پکائی جا رہی کھچڑی کی کامیابی کے لیے لازمی ہے کہ ملک میں نفرت کی کھیتی کو فروغ دیا جائے۔ میڈیا محدود دائرے میں ہی مودی حکومت پر اعتراض کریگی۔طلباء کی ایک تنظیم نے مودی حکومت اعتراض کیا تو اس تنظیم پر پابندی لگا دی۔ہندستان جیسے جمہوری ملک اس طرح کا آمرانہ فیصلہ نہ صرف شرمناک ہے بلکہ آمریت کی جانب بڑھنے والا قدم ہے۔

میڈیا اس بات کی کوشش ضرور کریگی کہ مودی اور آرایس ایس کے مابین ایک فرضی اختلاف کی کہانی سناسنا کر عوام کو ورغلانے کی کوشش کرے گی۔جس طرح سے اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں سے مسٹر مودی کی ناراضگی کی فرضی رپورٹیں نشر کرائی گئیں۔آر ایس ایس ہو یا سنگھ پریوار کے دوسرے ممبران ہر حال میں ملک میں نراجیت پھیلانا چاہیں گے۔ ایک سال میں ملی ناکامی کا اثر صرف عوام کو صبر کی تلقین کرنے سے کم نہیں ہو جائے گا۔آسمان چھوتی گرانی،عوام پر بڑھتا ٹیکسوں کا بوجھ،ٹرین کا مہنگا ہوتا سفراور دہلی میں گورنر کی مدد سے کیجریوال کو ناکام بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ سنگھ پریوار کیا اس ملک کو فاشزم کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے؟ ہمیں اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے․
Reyaz Azimabadi
About the Author: Reyaz Azimabadi Read More Articles by Reyaz Azimabadi: 6 Articles with 3944 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.