ہم سب کا پاکستان

 مملکتِ پاکستان کے بنانے میں جو وجوہات شامل تھیں ان میں ایک سب سے اہم وجہ یہ تھی کی ایسی سلطنت ہو جس میں نا تو کسی ذات کا راج ہو نہ کسی مذہب کا نہ کسی فرقہ کا بلکہ سب کے سب آزاد ہوں اسی لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیوں کی وہ داستان رقم کی جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی ہے مملکتِ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے بنانے اور جس کی تعمیر میں تمام مذاہب و مسالک کے لوگوں نے حصہ لیا اور بانی پاکستان محمد علی جناح کا بھی یہی منشاء تھا جس کا اظہار قائد اعظم محمد علی جناح نے 21 نومبر1946 کو رائٹر کے نمائندے کو انٹر ویو کے دوران کیا آپ فرماتے ہیں ۔

’’ اگر آپ لوگ باہمی تعاون سے کام کریں ماضی کو بھول جائیں اور گزشتہ راصلوٰۃ پر عمل کریں تو یقینا کا میاب ہوں گے اگر آپ مل جل کر اس جذبے کے تحت کام کریں کہ ہر شخص خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو ماضی میں آپ کے تعلقات ایک دوسرے سے خواہ کیسے ہی رہے ہوں اس کا رنگ ، نسل،مذہب کچھ ہی ہو اولاً،ثانیاً، آخراً اسی مملکت کا شہری ہے اس کے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں مساوی و یکساں ہیں تو ہم بے حد ترقی کر جائیں گے۔ ہمیں اس جذبہ کے تحت کام شروع کردینا چاہیے پھر رفتہ رفتہ اکثریت و اقلیت کے مسلمان اور فرقہ اور ہندو فرقہ کے تمام اختلافات مٹ جائیں گے ‘‘

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی مشہورِ عالم تقریر جو آپ نے 11 اگست1947 میں مجلس دستورساز کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کے موقعہ پر کی تھی آپ نے اس تقریر میں پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کیسا ہوگا میں اس تقریر کا کچھ حصہ لکھتا ہوں کہ آپ کیسا پاکستان چاہتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں۔

’’ اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہیے۔خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب اگر آپ نے تعاون اور اشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں اکثریت اوراقلیت ، صوبہ پرستی اور فرقہ بنددی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔

ہندوستان کی آزادی کے سلسلہ میں اصل رکاوٹ یہی تھی اگر یہ نا ہوتیں تو ہم کبھی کے آزاد ہو گئے ہوتے۔ اگر یہ الائشیں نہ ہو تیں تو چالیس کروڑ افراد کو کوئی زیادہ دیر تک غلام نہ رکھ سکتا تھا ۔

یورپ خود کو مہذب کہتا ہے لیکن وہاں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک خوب لڑتے ہیں وہاں کی بعض ریاستوں میں آج بھی افتراق موجود ہے مگر ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہو رہی ہے یہاں ایک فرقے یا دوسرے فرقہ میں کوئی تمیز نا ہوگی ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں ۔ آپ آزاد ہے آپ اس لئے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا پاکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادتگاہ میں جائیں آپ کا تعلق کسی مذہب کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کا مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں میرا حیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور آپ یہ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہ رہے کا اور مسلمان مسلمان نہ رہے گا مذہبی مفہوم میں نہیں کیوں کہ یہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں اس مملکت میں اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے۔‘‘

اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا آج پاکستان میں موجود تمام مسالک و مذاہب والے کیا سنی کیا شیعہ کیا احمدی کیا ہندو کیا عیسائی کیا سکھ اپنی مساجد و امام بارگاہوں اپنے مندروں اور اپنے گرجہ گھروں اور اپنے گردواروں میں جانے میں آزاد ہیں؟۔ اگر ہمارا ضمیر ہمیں نہیں میں جواب دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے مملکتِ پاکستان کو بنانے کے مقاصد کو نا سمجھا اور اس کی ناقدری کی ہے ۔ قائد اعظم تو ہم کو مذہب اور فرقہ بندی سے نکالنا چاہتے تھے مگر ہم دن بدن تقسیم ہو رہے ہیں قائد اعظم نے تو یورپ کو مذہبی منافرت میں بطور مثال پیش کیا تھا مگر آجکا یورپ تو فرقہ پرستی کی آگ سے نکل چکا ہے اور ہم اپنے ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکتے ہی جا رہے ہیں اور ہم نے غیر مسلموں کو حقوق کیا دینے تھے اپنوں میں سے ہی غیر مسلم بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

کہتے ہیں کہ کوئی آدمی پاکستان کا جھنڈا بنا رہا تھا کسی نے اس سے پوچھا کی بھائی آپ نے جو جھنڈا بنایا ہے اس میں سفید رنگ کیوں ہے اور سبز رنگ کیوں ہے تو جھنڈا بنانے والے نے کہا کہ سفید سے مراد غیر مسلم ہے اور سبز سے مراد مسلمان ہیں اس آدمی نے جھنڈا بنانے والے سے کہا بھائی بہت سارے غیر مسلم تو اب پاکستان چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جا چکے ہیں اس سفید حصے کو کم کر دو پرچم بنانے والے نے کہا ہاں واقعہ ہی بہت سارے غیر مسلم تو اب دوسرے ممالک جا چکے ہیں مگر ہم نے اس تعداد کو مسلمانوں میں سے غیر مسلم بنا بنا کر پورا کر لیا ہے اگر ہم تمام حکمران و عوام قائد اعظم کی اس تقریر کو اپنا نصب ولعین بنا لیتے تو آج ہمارے ملک امن کا گہوارہ بنا ہوتا اور یہ دھرتی ماں کے جیسے ہوتی اور ہر شہری سے پیار کرتی مگر ہم نے اپنے آپ کو ذات، مسلک و مذاہب میں تقسیم کر لے اس ماں جیسی دھرتی کو سوتیلی ماں جیسا بنا دیا ہے ۔ جو کسی ایک فرقہ یا ایک مسلک کے لوگوں کے ساتھ تو سگی ماں جیسی ہے جبکہ دوسرے مسلک و فرقہ کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرتی ہے جبکہ پاکستان بنانے اور اس کی تعمیر و ترقی میں تمام مسالک و مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ تھے خدا تعالیٰ ہمیں مسالک و مذاہب صوبہ پرستی ذات پات کی تمیز کو پسِ پشت ڈال کر آگے بڑھنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔ آمین
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 30784 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.