سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزاد
بلوچستان سے کیا مراد ہے ؟ ۔ کیا ایسا بلوچستان جس میں صوبائی خود مختاری
ہو ، یا وہ بلوچستان جس میں مکمل آزادی کے نام پر آزاد مملکت کی تمام بھاگ
دوڑ بلوچوں اور براہیوں کے ہاتھوں میں قرار دیتے ہوں ؟ ۔ خدا نخواستہ اگر
مملکت پاکستان ہر طرح کی عملیات اور اقدامات کے باوجود آزاد بلوچستان کے
قیام میں ناکام ہوجاتی ہے تو کیا کسی علیحدگی پسند کے پاس یہ فارمولا ہے کہ
بلوچستان کے منقسم قبائل پر مشتمل ، پشتونوں اور بلوچوں ک کو پورے بلوچستان
پر بلا شرکت غیرے بالادستی کو قبول کرالیں گے ؟ ۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں
مینگل صاحب اور مجیب الرحمن کے چھ نکات کا موازنہ کرنا ہی نہیں چاہئے اور
مجیب کے چھ نکات کو مینگل کی نشان دہی کے چھ مسائل سے مقابل قرار دیکر
بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے قیاس آرائیاں کرنا مجموعی طور پر بے وقوفانہ
سوچ کی غمازی ہے ۔گو کہ مینگل سردار کی جانب سے چھ اسباب کے سدباب کی نشان
دہی سے کسی باشعور کو انکار نہیں اور بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے
ازالے کیلئے اِن نکات پر عمل درآمد کو ممکن بنانا ، حکومت کی بنیادی ترجیح
ہونی چاہیے تھی لیکن مبالغہ آرائیوں پر مشتمل پوائنٹ اسکورنگ کے سیاسی
بیانات سے اصل حقائق کو پس پشت ڈال کر ہم بلوچستان میں رہنے والے پشتونوں و
بلوچوں سمیت دیگر قبائل کے عوم کی حق تلفی اور انھیں احساس محرومی میں
مبتلا کرکے دانستہ بھیانک غلطی کر رہے ہیں۔لاپتہ لوگوں کی بازیابی سمیت
بلوچستان میں لاقانونیت اور بعض اداروں کی جانب سے حد سے تجاوز کرنا نئی
بات نہیں ہے لیکن ہم نے کبھی تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے
۔
بلوچستان کے حقوق پر ہمیں یکطرفہ صورتحال پر واویلا کرکے سیاسی پوائنٹ
اسکورنگ کرنے کے بجائے اس بات کو مکمل طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ مشرقی
پاکستان میں بنگلہ دیش بننے کے محرکات میں سب سے اہم عنصر بنگلہ دیش کی
اکثریت پر مشتمل ایک قوم کا وجود تھا جبکہ بلوچستان میں صورتحال اس سے
بالکل بر عکس ہے بلکہ بلوچوں،براہیوں اور دیگر قبائل کے مابین زبردست
اختلافات موجود ہیں۔ 18ستمبر 2006ء میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے
احتجاج کے طور پر نیشنل گرئینڈ الائنز کے نام سے قائم کردہ ایک نئی سیاسی
جماعت میں حکومت مخالف تمام سیاسی پارٹیاں صادق شہید پارک ، کوئٹہ میں شریک
ہوئے ۔ جس میں بلوچ ، براہوہی اور پشتون رہنماؤں کے علاوہ پنجاب کے راجہ
فضل حق اور عمران خان نے بھی شمولیت کی تھی۔ اس لئے بلوچستان میں جب بھی بد
امنی کے حوالے سے میڈیا ، اخبارات اور جلسوں میں تذکرے کئے جاتے ہیں تو یہ
سمجھ میں نہیں آتا کہ بلوچستان کے پشتونوں ، بلوچوں و دیگر قبائلیوں کو کس
نظرئیے کے تحت نظر اندازکیا جا رہا ہے۔جبکہ افغانستان میں رہنے والے بلوچوں
کو کبھی کسی پشتون نے پریشان تک نہیں کیا۔یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ نواب
بگٹی کی ہلاکت کے بعد فوجی ، نیم فوجی اہلکاروں اور غیر بلوچ افراد کو دستی
بموں ، دہماکوں ، ٹارگٹ کلنگ نیز حساس تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے
مقاصد کی پشت پناہی میں کس کا ہاتھ ملوث ہے ؟۔
کتاب "دی بلوچ ـ"میں برٹش بلوچستان میں بلوچوں اور براہیوں کی 1666ء سے
حالات درج ہیں۔1931ء کے جدول کے مطابق جدول ص 139میں درج بلوچوں اور
براہیوں کی آبادی کی تفصیلات یوں ہے۔بلوچ 226041، براہوی ،152588جبکہ 1931
ء ہی میں افغان قبیلے غلزئی کی آبادی جنوب مشرقی افغانستان میں دس لاکھ
تھی۔کتاب "مشرقی افغانستان کے خانہ بدوش قبائل" کے مصنف کیپٹن جے۔اے کے
مطابق بلوچوں کے چند بڑے قبائل کی تعداد یوں ہے ۔مری ،238834، افشانی,5220،
بگٹی31321، رند، 26361 مکران، 19458جبکہ اولف کیرو اپنی کتاب "دی پٹھان"میں
کاسی اور شنواری کو "مکران"قبیلے کا بھائی بتاتا ہے ،اقوام
دشتی،گبول،گوپانگ ، گرد،مستوئی عرصہ درازسے بلوچوں میں ضم یا شامل ہونے کے
باعث بلوچ کہلائے۔رئیسانی قبیلہ ، افغان قوم سپین ترین کی شاخ ہے جبکہ لاسی
قم ، برا ہوی ہیں نہ بلوچ ، براہوی اور بلوچ بذات خود الگ اقوام ہیں جیسا
کہ "پیکولین"نے 1931ء کے جدول ص63میں الگ حیثیت متعین کی ہے۔قدیم تاریخ میں
بلوچستان کے بجائے بلوچی کے نام سے بلوچ کا ذکر ملتا ہے ۔
لفظ"بلوچستانـ"تاریخ میں پہلی مرتبہ1879ء میں روشناس کرایا گیا ۔لفظ بلوچ
کی طرح قدیم تواریخ میں سیوستان کے علاوہ مکران یا کیچ کے نام تو مل جاتے
لیکن لفظ بلوچستان تاریخ میں درج نہیں ہے۔
مرحوم نواب اکبر بگٹی آکسفورڈ یونیورسٹی کے اعلی تعلیم یافتہ اور نہایت
صاحب مطالعہ شخصیت تھے ، بلوچستان کی لاکھوں کی بلوچ آبادی میں چند لوگ ہی
مرحوم نواب بگٹی کی طرح صاحب مطالعہ ہونگے۔ان سوالات کے جوابات کوئی دینے
کو تیار نہیں کہ بلوچستان کے 47فیصد کیثر آبادی کو کیوں نظرانداز کیا جارہا
ہے اور کیا بلوچستان میں رہنے والے دشتی،گبول،گوپانگ ، گرد،مستوئی، کاسی،
شنواری، مری ، مینگل ، رند ، افشانی،بگٹی، مکرانی اور براہوی آپس میں اس
قدر متحد ہیں کہ ان کا متفقہ لیڈر ایک ہی ہے جبکہ اس کے برعکس براہوی اور
بلوچوں کی آپس میں زبردست ٹھنی ہوئی ہے۔مری قبیلہ کی اکثریت فراری اور
مُجادلوں میں محو ہیں ، بگٹی قبیلہ منتشر و منقسم ہے۔رند ، رئیسانی ، ڈومکی
اور بگٹیوں میں طویل عرصہ سے کشت و خون جاری ہے ۔ کئی دیگر بلوچ اور براہوی
قبائل آپس میں الجھے ہوئے ہیں ۔ سول نا فرمانی کیلئے تمام قبائل میں اتفاق
رائے ناگزیر ہے لیکن تاریخی حقیقت ہے کہ ایسا کبھی ممکن نہیں ہوسکتا اور
سوائے خانہ جنگی اور خوں ریزی کے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔کیونکہ
بلوچستان میں رہنے والے قبائل ہی آپس میں متفق ہونے ے بجائے باہم دست و
گریباں ہیں اور ایسا کون مائی کا لال ہے جو یہ گارنٹی دے کہ پشتون
،خوامخواہ علاقے میں بدامنی ، اپنی قوم کے گلے کاٹے جانے ، محنت کشوں کان
کنوں کے قتل پر علیحدگی پسندوں کا ساتھ دینے کے لئے ایسے علحیدگی پسندوں کا
ساتھ دیگا جو خود آپس میں متفق نہیں ہیں۔
یہ امر سو فیصد طے شدہ ہے کہ خانہ جنگی صرف بلوچ قبائل تک محدود ہوگی ،
بلوچ قوم کو ہی نقصان پہنچے گااور تباہ کاریاں صرف بلوچ قو م کا ہی مقدر
بنے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام بلوچ قبائل ایک سیاسی پلیٹ فارم بنا
لیں ، الیکشن میں مشترکہ حصہلیا کریں ،اپنی سول حکومت قائم کرکے صوبے سے
ناپسندیدہ عناصر کے خلاف پابندی عائد کرادیں۔سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں ۔
ایسے لوگوں کے لئے میدان مت چھوڑیں جو آپ کی نمائندگی نہیں کرتے ۔میدان
خالی چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کیوں آنے دیتے ہیں جو بلوچستان سے مخلص نہیں
ہیں۔ اگر عوام آپ پر اعتماد کرتی ہے تو سیاسی طور پر بلوچستان پر قبضہ
کرلیں ۔ جب عوام آپ کو ووٹ ہی دینے کے لئے نہیں نکل سکتی تو علیحدگی کی کسی
تحریک میں قربانی کیا دے گی ۔ پہلے اپنے آپ کو پشتونوں ، بلوچوں و دیگر
قبائلیوں کو خود کو بلوچستان کا متفقہ نمائندہ ثابت کرنا ہوگا۔
لاپتہ افراد سنگین مسئلہ ہے جس کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں کیا جا
سکتا۔لیکن اس کی تمام ترذمے داری صرف سیکورٹی اداروں پر ڈال دینا بھی
دانشمندی نہیں ہوگی۔جس کی مثال کراچی ہے جہاں رینجرز کی موجودگی کے باوجود
متحارب گروپوں کی باہمی چپقلش سے جتنے بے گناہ روز مارے جاتے ہیں ۔ اغوا
ہوتے ہیں ، اتنے پورے پاکستان میں کہیں نہیں ہوتا ۔تو کیا کراچی کا واحد حل
پاکستان سے علیحدگی ہوگا یا سیاسی طور پر یہاں کے باشندوں کو قومی دھارے کے
ساتھ لیکر چلنا ۔کراچی میں بلوچ اقلیت میں ہیں ، سندھی اقلیت میں ہیں تو
کیا اُن کاکہنا ما ن لیا جائے ؟ کہ اردو بولنے والا میئر نہیں بن سکتا
کیونکہ وہ اردو بولتا ہے، تو ایسا ہی کچھ بلوچستان میں ہے کہ وہاں بلوچستان
کے حقیقی نمائندوں بنا کر ریاستی اداروں اور مملکت کو بدنام کرنے کے لئے
ملک توڑنے کی سازش کی جا رہی ہے جس میں غیر محسوس طور پر میڈیا ملوث ہوتا
جا رہا ہے ۔جس کے نتائج یقینی طور پر اچھے نہیں نکلیں گے ۔بلوچستان کے
پشتونوں اور بلوچوں کے ان قبائل کو اعتماد لیں جنھیں مخصوص قبائل کی بنا ء
پر بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت نطر انداز کیا جا رہا ہے ۔ اگرپشتونوں ،
بلوچوں و دیگر قبائلیوں کے احساس محرومی کو نظر انداز کئے جانے کا سلسلہ
ختم نہیں ہوا تو پھر یہ ممکن ہے کہ افغانستان سے منسلک افغان ، اپنے پشتون
بھائیوں کے لئے براہ راست ملوث ہو جائیں۔ یا پھر اسی طرح بھارتی ایجنسی
اپنی مذموم کاروائیوں کو جاری رکھتے ہوئے قومی اداروں کی بد نامی کا سبب
بنتی رہے گی۔پا ک چائنا اقتصادی راہدری صرف ایک سڑک کا نام نہیں ہے ، بلکہ
پاکستان کے تمام صوبوں کی ترقی کا ایک منصوبہ ہے جس پر سب سے زیادہ حق
بلوچستان کا ہے ۔ |