تیسری عالمی جنگ
(Abdul Rehman Jalalpuri , )
بیسویں صدی کا پہلا عالمی تنازعہ
کی بنیاد آسٹریا شہزادے کا قتل تھا۔ سربیا کے باشندے نے وہ قتل جون 1914ء
میں کیا۔ اس ایک قاتل کی جان لینے کی بجائے آسٹریا نے سربیا کے خلاف اعلان
جنگ کیا۔ چار دھائیوں تک یہی جنگ مختلف محاذوں پر لڑی گئی۔ ایک جانب آسٹریا
اور اس کے حامی جرمن، ھنگری، ترکی اور بلغاریہ جب کہ دوسری جانب فرانس، روس
اور برطانیہ تھے۔ جرمن فوج نے ہالینڈ ، بیلجیئم کے ممالک کو روندکر فرانس
میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ مقابلہ میں فرانسیسی جرنیل گلینی کی ہوشمندی سے
جرمن کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ چار دہائیوں تک لڑی جانے والی یہ جنگ جو جنگ عظیم
کے نام سے موسوم ہوئی اتنی خطرناک ثابت ہوئی کہ اس میں ہلاکتوں کی تعداد
تقریباً 60لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔ جولائی 1916ء کے ایک ہی دن میں 57ہزار
برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔ جرمن کے 17لاکھ اور روس کے 17لاکھ فوجی لقمہ اجل
بنے۔ انہی ہلاکتوں کی وجہ سے ’’اسپینش فلو‘‘ پھیلا جو تاریخ کی موذی ترین
وباء ’’انفلوئنزا‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہوگئے
جائیداد اور صنعتوں کا بہت خطیرنقصان ہوا۔ بالآخر 11نومبر 1918ء جرمن نے
جنگ بندی اور صلح کی درخواست کی۔ 28جون 1919ء کو معاہدہ ہوا اور جنگ تھم
گئی۔
اس ایک قتل سے شروع ہونے والی معرکہ آرائی 4سال بعد تھم تو گئی لیکن
مسلمانوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ترکی نے جرمن کا ساتھ دیا تو
انگریزوں نے عربوں کو ترک کے خلاف جنگ پر اکسایا۔ جو مسلمانوں میں قومیت پر
جنگ کی بنیاد بنی۔ ترکی کے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے اور
کئی سو سال سے قائم مسلمانوں کی عظیم خلافت ختم ہوگی۔ اس جنگ میں پوری دنیا
آگ میں جلستی نظر آئی۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا۔ دنیا نے پہلی بار
کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا اور مجموعی طور پر تقریباً 2کروڑ
انسان جان کی بازی ہار گئے۔
اغیار کے اکسانے پر مسلمان، مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہوئے اور اپنی عظیم
خلافت سے ہاتھ دھو بیٹھے مسلمان اس سے قبل بھی اغیار ہی کی وجہ سے اپنی
ناکامیوں کی جانب بڑھتے گئے لیکن کسی دور میں کوئی ایسا حل تلاش نہ کیا گیا
کہ ان پر قابو پایا جائے۔ استعماری قوتوں کی وجہ سے مسلمان آپس میں ہی دست
وگریباں ہوتے چلے گئے۔ ’’الکفر ملت واحدۃ‘‘ کے تحت مسلمانوں میں مسلم لبادہ
میں قادیانیوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ مسلمان اس کے مدمقابل ایک
نہ ہوسکے۔ راجپال نے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو للکارتے ہوئے نبی کریم
محبوب خداﷺ کی شان میں گستاخی کی۔ غازی علم الدین شہید نے اسے کیفرکردار تک
پہنچایا۔بعدازاں کفر خاموش نہ رہ سکا۔ وقفے وقفے سے مسلمانوں کے جذبہ
ایمانی کو مجروح کرتا رہا۔ ظلم اتنا بڑھ گیا کہ 2005ء میں ڈنمارک اور ناروے
کی جانب سے نبی رحمت ﷺ کے گستاخانہ کاکے شائع کیے گئے۔ پوری دنیا کے
مسلمانوں نے احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن سلسلہ تھم نہ سکا۔ امریکہ میں مصطفیؐ
کی گستاخی کرتے ہوئے فلم بنائی گئی۔ گوانتاموبے جیل میں قرآن مجید کی بے
حرمتی کی گئی۔ ٹیری جونز نے قرآن مجید کے نسخے نظر آتش کیے۔ سلمان رشدی
سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی کوئی گستاخی رسول کا مرتکب ہوتا یا تو کوئی
غازی اسے واصل جہنم کردیتا یا امریکہ اور برطانیہ اسے اپنی پناہ میں لے
لیتے اور وہ گستاخ رسول امریکہ وبرطانیہ میں آزادی کی زندگی بسر کرنے لگتے
لیکن کوئی مسلمان حکمران ان سے اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کہ شاتم رسول کو
ان کے حوالے کیا جائے بلکہ ان کے کہنے پر عافیہ صدیقی جیسی محب وطن کو ان
درندون کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔
چند روز قبل فرانس کے ایک جریدے نے کفر کی عادت کو دھراتے ہوئے آزادی اظہار
رائے کی آڑ میں گستاخانہ خاکے بنا کر مسلمانوں کے جذبہ ایمان کو مجروح کرنے
کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں دن دیہاڑے اس جریدہ کے دفتر پر حملہ کرکے
17لوگ قتل کردے گئے ۔لاکھوں فرانسیسوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور
مسلمانوں نے ان قاتلوں کے اس عمل کو سراہا کہ ’’گستاخ رسول کی ایک سزا سر
تن سے جدا‘‘لیکن فرانس اس جریدے کو روکنے کی بجائے اس کی حمایت کرتا ہے اور
فرانسیسی صدر فرانسوااولاند یہ بیان دیتا ہے کہ ہلاکتوں کے بعد رسالے نے ’’نیاجنم‘‘
لیا ہے جس کے بعد پوری دنیا کے مسلم سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان اور ترک
وزرائے اعظموں کے ساتھ ساتھ پوپ نے بھی ان خاکوں کی مذمت کی ہے۔
بیسویں صدی کے انہی سالوں میں ایک قتل کیا گیا جس کا نقصان ناقابل تلافی
ہوا۔ ابھی فرانس میں سترہ لوگ مارے گئے جس کے بعد فرانس اپنی غلطی کو ماننے
کی بجائے غلطی دھرا رہاہے۔ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو آزما رہا ہے گرمارہا
ہے۔کیا فرانس غلطی تسلیم نہ کرکے دنیا کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش تو نہیں
کررہا؟ فرانس دنیا میں تیسری عالمی جنگ تو نہیں چاہتا کہ مسلمانوں کو پہلے
کی طرح نقصان پہنچایا جائے۔ایک قتل سے عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ یہاں ایمان
کو قتل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔فرانسیسی اس وقت کو نہ بولیں جب جرمن نے
اس کی سرحد کو عبور کیا تھا۔ اگرمغرب کی طرف سے گستاخی رسولﷺ کا یہ سلسلہ
ختم نہ ہوا تو دور نہیں جب دنیا تیسری عالمی جنگ دیکھے گی۔ آزادی رائے کی
آڑ میں کسی مذہب کو توہین کی اجازت کوئی مذہب یا معاشرہ نہیں دیتا۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پہلے مسلم ممالک میں کفر کی جانب سے آگ برسائی
گئی۔ عراق، لیبیا اور افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ فلسطین
میں معصوم لوگوں سے جینے کا حق چھینا گیا۔ شام وعراق میں اغیار کی پیداکردہ
داعش اور پاکستان میں نام نہاد طالبان سے قتل عام کروایا گیا۔ برما میں
زندہ مسلمانوں کو جلایا گیا، کشمیر میں کئی دہائیوں سے انسان حقوق کی
دھجیاں اڑائی جارہی ہیں لیکن کسی جگہ نہ مسلمان ایک ہوئے نہ اقوام متحدہ نے
اس حوالے سے کوئی نوٹس لیا۔ لیکن ایک نقطہ جس پر تمام مسلمان اپنے اختلافات
بھلا کر متحد ہوجاتے ہیں وہ عشق رسول ﷺ ہے۔ کوئی بھی مسلمان کسی طور اپنے
محبوب نبی کی توہین برداشت نہیں کرتا۔
اس موقع پر تمام مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ جس ذات کے صدقے یہ حکمرانی ملی
، دنیا کی یہ آسائشیں ملیں، دنیا میں عزت ومقام ملا ان کے گستاخ کے خلاف
عالمی عدالتوں میں کیس چلایا جائے۔ اقوام متحدہ کے سامنے آواز کو بلند کیا
جائے۔ ان کو عبرت ناک سزا دلوائی جائے۔ کوئی ایسا قانون بنایا جائے کہ کوئی
بھی شخص کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین کرے اسے المناک سزا دی جائے تاکہ
کوئی اور ایسی جسارت نہ کرسکے۔ اور آزادی اظہار رائے صرف مسلمانوں کے خلاف
ہی کیوں جائز ہے دنیا کے غیر مسلموں کے لیے جائز نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو
کہیں غازی علم الدین شہید نظرآئے گا تو کہیں غازی عامر چیمہ ان گستاخوں کو
واصل جہنم کرتا نظر آئے گا۔ کیونکہ اگر محبت رسول نہیں تو کچھ بھی
نہیں۔شاعر نے کیا خوب کہا
نماز اچھی، روزہ اچھا، حج اچھا، زکوۃ اچھی
مگر باوجود اس کے میں مسلمان ہونہیں سکتا
جب تک نہ کٹ مروں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہونہیں سکتا |
|