مودی حسینہ اور ہم

اجڈ اور گنوار لوگ تھے اور ویسے ہی ان کے سردار۔لڑائی مار کٹائی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔بکری کھیت میں اگا گنا چباتی تو وہ حریف کے بندے چبا جاتے۔سوائے لڑائی مار کٹائی،ڈانگ سوٹے کے انہیں کوئی فن نہ آتا تھا نہ کبھی انہوں نے اس کے حصول کی کوشش کی تھی۔کارِحیات کبھی رکا ہے نہ رکے گا۔سو ان بستیوں میں بھی اسی دھوم دھڑکے اور زورو شور سے جاری تھا۔روز جنازے اٹھتے لیکن مجال ہے جو کوئی عورت بال کھولے، بین ڈالے۔الٹا ڈھول پیٹ پیٹ کے مردے دفنائے جاتے۔مہذب دنیا بھلے ہی اسے وحشت اور درندگی کہے اور سمجھے ان کے نزدیک یہی زندگی تھی۔مردانگی کے ساتھ جینا اور ہنستے ہوئے موت کو گلے لگانا۔سر کے پچھلے حصے پہ چوٹ بزدلی خیال کی جاتی۔حریف پہ بھی لازم تھاکہ سامنے سے وار کرے لیکن محبت اور جنگ میں وہاں بھی سب کچھ جائز تھا ۔اکثر بزدلی کی تہمت کے ساتھ مرتے اور ان کی آنے والی نسلیں اس داغ کو دھونے کے لئے بڑھ چڑھ کے غارت گری کیا کرتیں۔

زندگی یونہی چلی جا رہی تھی۔ایکشن اور تھرل سے بھرپور۔ایک قبیلے کا سردار بیمارپڑ گیا۔یوں تو بیماروں کا علاج وید کیا کرتا تھا لیکن اب کے روگ ایسا تھا کہ وید سنیاسی اور آس پاس کے حکیموں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے۔مجبوراََ مریض کو شہر کے سرکاری شفا خانے روانہ کر دیا ۔بابا ہوش میں ہوتا تو شاید کسی میں یہ فیصلہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی لیکن تکلیف کی شدت نے بابے کی چھاپ تلک سب چھین لی تھی اور وہ بے بسی کی تصویر بنا یا تو چیخیں مارتا تھا یا کبھی درد سے آرام کا وقفہ آتا تو ٹک ٹک تیمارداروں کی شکلیں دیکھا کرتا۔بابا ہسپتال پہنچا تو فوری آپریشن کا فیصلہ ہوا۔بابا نیم بے ہوش تو پہلے ہی تھابس تھوڑا سا کلوروفارم اسے اس دنیا میں لے گیا جہاں بندہ ہر رنج والم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ہوش آیا تو بابے نے لش پش وردیوں میں ملبوس ڈاکٹر اور نرسیں دیکھیں تو اسے لگا جیسے وہ جنت میں آ گیا ہو۔سردار گدھوں کا بھی ہو تو بھی اس میں کچھ خاندانی وجاہت تو ہوتی ہی ہے تبھی تو اسے منصب عطا ہوتا ہے۔بابا تو انسانوں کے ایک قبیلے کا سردار تھا وہ انسان جسے اﷲ کریم نے احسن تقویم کا تاج پہنارکھا ہے یہ الگ بات کہ حضرتِ انسان اسے بوجھ سمجھ کے اتار پھینکے اور اسفل السافلین کی قطار میں جا کھڑا ہو۔نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نے اپنے ایک پوتے کو جو لڑائی بھڑائی میں تو ماٹھا تھا لیکن گاؤں کا ماسٹر جس کی ذہانت کی بڑی تعریفیں کیا کرتا۔اسے شہر کے سکول میں داخل کروانے کا فیصلہ کر لیا۔وہ اسے ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا۔

قبیلے میں پہنچ کے بابے نے پڑھاکو پوتے کو تیار کیا اور اپنی جیپ میں بٹھا کے ایک بورڈنگ سکول کے پرنسپل کے دفتر جا اترا۔پرنسپل بابے کا تام جھام اور ہیئت دیکھ کے داخلے سے منکر ہوا توبابا جو ابھی تک بزعم خود شرافت کی مجسم تصویر تھا کی سرداری عود کر آئی۔اس نے پرنسپل کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اتنا کہا۔ بچہ تمہارے حوالے ہے اسے ڈاکٹر بنانا ہے۔اگر یہ ڈاکٹر نہ بنا تو تمہیں ڈاکٹر کی ضرورت نہیں رہے گی۔بن گیا تو جو مانگو گے ملے گا چرن بھی ساتھ چھوؤں گا۔جان ہر جاندار کو پیاری ہوتی ہے پرنسپل کو بھی تھی۔اس نے ساری توجہ چھوٹے سردار پہ مرکوز کی ۔چھوٹا سردار خود بھی ذہین تھا۔انہی مشترکہ کاوشوں کے سبب نتائج بھی خوب آنے لگے۔قصہ کوتاہ ایک دن چھوٹا سردار ڈاکٹر بن گیا۔پرنسپل ہی کے مشورے پہ اعلیٰ تعلیم کے لئے چھوٹا سردار امریکہ روانہ کر دیا گیا۔ایک دن چھوٹا سردار بڑا ڈاکٹر بن کے دادا کے چرن چھو رہا تھا اور دادا اسی پرانے بورڈنگ سکول کے پرنسپل کے۔جسے اس جشن میں بطورِ خاص مدعو کیا گیا تھا۔

جشن اختتام پذیر ہوا تو دادا نے پوتے کو اگلے دن سے گاؤں میں دکان کھولنے کا حکم دیا۔ڈاکٹر نے سنا تو کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔گاؤں میں اور وہ بھی دکان لیکن دادا کی طاقت اور جبروت کا اسے اندازہ تھا۔مرتا کیا نہ کرتا اگلے دن ایک اچھی سی عمارت دیکھ کے اس نے کام شروع کر دیا۔مریض آنے لگے حتیٰ کہ دوسرے قبیلے کے بھی۔وہ سب کو دیکھتا۔دوا دیتا اور سب کے ساتھ مساوی سکول کرتا۔ قبیلے کی جنگ میں جو مریض اس کے پاس پہلے پہنچتا اس کا علاج پہلے ہوتا خواہ اس کا تعلق مخالف قبیلے ہی سے کیوں نہ ہو۔ماحول بدلنے لگا تھا۔دونوں قبیلوں کے عام لوگ ڈاکٹر کی اصول پسندی اور مہارت کی وجہ سے اسے دیوتا ماننے لگے تھے۔دادا بھی پوتے کی شہرت سے بہت خوش تھا اور اسے بھی امید ہو چلی تھی کہ ایک دن اس کا پوتا علاقے کا تاجور ہوگا۔دوسری طرف لیکن حریف سردار کچھ اور سوچ رہا تھا۔اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر یہ سلسلہ مزید کچھ عرصہ چلتا رہا تو ڈاکٹر اس کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لے گا۔ہر دل عزیز چھوٹا سردار اپنی حفاظت سے لاپرواہ رہا تھا۔ دادا جو بندے اس کی حفاظت کے لئے ساتھ لگاتا وہ انہیں بھی بھگا دیا کرتا۔لاکھ سمجھایا گیا کہ بغل میں دشمن ہو تو سارے کام قدرت پہ نہیں چھوڑے جاتے،خود بھی ہاتھ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں۔امن کی آشائیں اور فاختائیں طاقت کے توازن پہ پرواز کرتی ہیں۔جس کی لاٹھی ہو بھینس اسی کا حکم بجا لاتی ہے لیکن ڈاکٹر تو پڑھا لکھا اصول پسند آدمی تھا اس نے مان کے نہ دیا۔اسے جانوروں کے معاشرے میں اپنی اصول پسندی کا بڑا زعم تھا۔

اسی زعم میں ایک دن وہ گھر سے کلینک پہنچا تو کلینک ہی کے اندر چھپے حریفوں نے اسے خاک و خون میں نہلا دیا۔دادا پوتے کی لاش کے سرہانے کھڑا سوچ رہا تھا کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی۔کیا اس کے من میں چھپی امن کی خواہش غلطی تھی۔ کیا اسے پوتے کے اصولوں کا احترام کرنا چاہئیے تھا یا زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھنا چاہئیے تھا۔کیا اسے دوسرے قبیلے کے لوگوں کو اپنے پوتے تک رسائی دینا چاہئیے تھی۔کیا دشمن پہ یوں اعتبار کرنا چاہئیے ،دشمن بھی ایسا جو ہر روز آپ کے بندے مارے۔آپ کے گھر کو آگ لگا کے سر عام اس کا اعتراف کرے۔اسے محسوس ہوا کہ اس سے کچھ بھول ہو گئی تھی۔

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے کندھے سے کندھا ملا پاکستان توڑنے کا اعتراف کرتے نریندرا مودی کو دیکھ اور سن کے مجھے لگا کہ کہیں ہم بھی تو کوئی غلطی تو نہیں کر رہے۔کالا باغ ڈیم تو کب کا قتل ہوا جس سے ملک میں روشنی اور خوش حالی اکٹھی آتی۔کیا اب ہمیں معاشی راہداری کے منصوبے سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔مودی پہ نواز شریف کی ساڑھیاں تو اثر انداز نہ ہو پائیں ۔اب تو صرف چرن چھونا باقی ہیں لیکن کیا اس کے بعدہمیں سانپ کاٹنا بند کر دے گا۔بھولا بڑا خبیث ہے ۔میرا مضمون بھی پڑھ رہا ہے اور منہ ہی منہ میں یہ شعر بھی گنگنا رہا ہے۔
جس شان سے جو مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی کوئی بات نہیں
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267919 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More