دہشت گردوں کیخلاف قومی آپریشن ضرب عضب کو ایک سال مکمل ہوگیا
(Amjad Chohdury, Rawalpindi)
ضرب عضب
گزشتہ سال جون میں شروع ہونے والے فیصلہ کن آپریشن میں افواج پاکستان نے
شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
آپریشن کے آغاز سے اب تک 3000دہشت گرد ہلاک ، 1000سے زائد ٹھکانے تباہ و
برباد کئے گئے
ضرب عضب کے دوران افواج پاکستان کے316 افسروں اور جوانوں نے جرات و بہادری
کے نئے ابواب رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، قوم ان کی قربانیوں کو
بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
رپورٹ: امجد چوہدری
۔۔۔۔
تزویراتی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پاکستان کو اپنے قیام سے ہی
اندرونی اور بیرونی سازشوں کا سامنا رہا ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان کو تو
عالمی طاقتوں نے عرصہ دراز سے اپنا اکھاڑا بنا رکھا ہے۔ ظاہر ہے اس کے براہ
راست اثرات پاکستان پر پڑے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران افغان مہاجرین کو پناہ
دینے کے بعد پاکستان کا اندرونی استحکام شدید متاثر ہوا۔ سوویت یونین کے
حصے بخرے کرنے کے بعدامریکہ جب افغانستان کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ
کروہاں سے نکلا تو القاعدہ اور طالبان نے اسے اپنا مرکز بنا لیا۔ 9/11کے
بعد جب اتحادی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے بہت سے عسکریت
پسند وں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے لی اور بتدریج ایسی
سرگرمیاں شروع کردیں جن سے پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا۔
دہشت گردوں نے مذموم کارروائیوں کے ذریعے حکومت، افواج پاکستان اور اس کے
شہریوں کو متعد د بار نشانہ بنایا۔اس سے پاکستان اندرونی طور پر عدم
استحکام کا شکار ہوا۔ عالمی سطح پر بھی ملک کا امیج خراب ہوا جس کا براہ
راست اثر ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی پڑا۔اس صورتحال میں غیرمعمولی
اقدامات کی فوری ضرورت تھی۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومت نے اقتدار
سنبھالتے ہوئے دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا تھا۔ اس حوالے سے دہشت
گردوں سے مذاکرات بھی کئے گئے تاہم وہ بے نتیجہ رہے جس کے بعد 15 جون 2014ء
کو شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔
ضرب عضب کا واضح ہدف پاکستان سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہے اور قوم
پرامید ہے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سال سے جس عفریت نے اسے بری طرح سے جکڑ رکھا
ہے ، بالآخر اس سے نجات ملنے والی ہے۔ آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے خلا ف
پاک فوج کو بہت سی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور طے شدہ منصوبے کے مطابق وہ
اپنے اہداف حاصل کرتی جارہی ہیں۔ شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن آپریشن اس
لیے بھی ناگزیر تھاکہ یہ علاقہ کافی عرصے سے دہشت گردوں کا مرکز بن چکا
تھا۔ دنیا بھر کے دہشت گرد جن میں تحریک طالبان کے علاوہ ازبک، چیچن،
ترکمانستان کے دہشت گرد شامل ہیں یہاں موجود تھے ۔ خودکش بمبار، دھماکے سے
اڑائی جانے والی گاڑیاں، بارودی سرنگیں سب یہاں تیار ہوتے تھے اور دہشت گرد
یہاں ایک مکمل کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کرکے ملک بھر میں ہونے والی
دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔شمالی وزیرستان سے اٹھنے
والی دہشت گردی کی ان سرکش موجوں نے ملک کے کونے کونے میں تباہی و بربادی
کی انتہاء کردی تھی ۔ آئے روز پاک افواج پر حملے کئے گئے۔ بھرے بازاروں میں
عام شہریوں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، نشانہ بنایا گیا۔سرکاری و
نجی املاک تباہ و برباد ہوگئیں۔ترقی کا پہیہ رک گیا۔ معیشت نیم دیوالیہ
ہوگئی اورعالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو شدید نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخواہ
اور فاٹا کے بہت سے علاقوں میں سول انتظامیہ دہشت گردوں کے سامنے بے بس نظر
آنے لگی۔ یہ علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گئے۔ انہوں نے اپنے زیر تسلط
علاقوں کو بیس کیمپ بنا کر ایک طرف مقامی آبادی پر ظلم وستم کی انتہاء کردی
تو دوسری طرف ملک کے دوسرے حصوں تک اپنی مذموم سرگرمیاں پھیلانے کا اعلان
کردیا۔ افواج پاکستان نے گوکہ ماضی میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کئے
لیکن انہیں جو کامیابیاں ملتی رہیں انہیں سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر مستقل
بنیادوں پر قائم نہ رکھا جاسکا۔ پاکستان میں نئی سیاسی قیادت کو بھی دہشت
گردوں نے یرغمال بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس پر دباؤ بڑھانے کے لیے
مختلف شہروں میں حملے کرکے ان کی ذمہ داری قبول کی ۔دہشت گردوں کی ان تمام
کارروائیوں کے باوجودنئی حکومت نے انہیں مذاکرات کا موقع دینے کااعلان کیا۔
اس دوران گو کہ دہشت گردوں نے زبانی طور پر اپنی کارروائیاں بند کرنے کا
اعلان کیا تاہم عملی طور پرایسانہ ہوسکا۔ اسلام آباد کچہری، راولپنڈی آر اے
بازار، اسلام آباد سبزی منڈی، ترنول کے قریب افواج پاکستان کے دوسینئر
افسروں پر حملہ کیا گیا۔ 9جون 2014ء کو دہشت گردوں نے جناح انٹرنیشنل ائر
پورٹ کراچی پر حملہ کیا اور اگلے ہی روز پاکستان بھر میں اسی طرز کے دہشت
گردحملوں کی دھمکی دے دی۔جس کے بعد حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات ختم
کرنے اوران کے خلاف فیصلہ کن اور بھرپور کارروائی کرنے کا اعلان کیا۔
ضرب عضب کا حتمی مقصد دہشت گردی اور دہشت گردوں کا پاک سرزمین سے مکمل
خاتمہ کرکے حکومت کی رٹ قائم کرنا ، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو مکمل طور پر
تباہ کرنا، ہتھیار نہ پھینکنے والے دہشت گردوں کا خاتمہ اور فاٹا اور ملحقہ
علاقوں میں ترقی کے نئے دور کا آغاز کرنا شامل ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف کے
مطابق آپریشن ضرب عضب کا مقصد ریاست کی رٹ قائم کرنا ہے۔ فوج یہ جنگ ملک
میں امن اور استحکام کے لیے لڑرہی ہے، فورسز کو مکمل قانونی حمایت بھی
فراہم کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم اس جنگ میں اپنے جوانوں کے
پیچھے کھڑی ہے،ریاست کی رٹ قائم ہونے تک فوج اور انٹیلی جنس ادارے دہشت
گردوں کا تعاقب جاری رکھیں گے۔پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے آپریشن
کے آغاز پر واضح کردیا تھا کہ دہشت گردوں کا پیچھا کرکے انہیں انجام تک
پہنچایا جائے گا اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے
گا۔افواج پاکستان نے آپریشن سے قبل تمام علاقے کو سیل کردیا تھا خاص طور پر
افغان سرحد پر نگرانی سخت کردی گئی تھی اور اس حوالے سے افغان حکومت اور
نیٹو کو بھی کڑی نگرانی کے لیے کہا گیاتاہم دوسری جانب ان مطالبات کو
سنجیدگی سے نہ لیاگیا۔ جس کے نتیجے میں بہت سے دہشت گرد افغانستان محفوظ
ٹھکانوں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے
پاکستان سرحد پر حملے کئے گئے۔جس پر پاکستان نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے
ہوئے واضح کیا تھا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں فرار
ہونیوالے دہشت گردوں اور افغان سرحدوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی
کارروائیاں کرنیوالے مطلوب افراد کو افغانستان کے سرحدی علاقوں باالخصوص
نورستان اور کنٹر میں سرکاری پناہ دی جارہی ہے اور پڑوسی ملک کی جانب سے یہ
طرز عمل آپریشن کے مطلوبہ مقاصد میں رکاوٹ اور نتائج پر اثرا نداز ہوسکتا
ہے۔ افغانستان کو اس بات پر آمادہ کرنا ضروری تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے
کیلئے جو سب کیلئے مشترکہ چیلنج ہے‘ باہمی تعاون ضروری ہے۔اسی چیز کے پیش
نظر وزیراعظم ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل کے ہمراہ افغانستان میں افغان
قیادت سے ملے اور انہیں آگاہ کیا کہ پاکستان دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے
خلاف کسی قسم کے امتیاز کے بغیر کارروائی کررہا ہے۔ ملاقات میں افغان قیادت
کی طرف سے بھی مثبت اشارے دیئے گئے۔
آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا تو اِ س کی تکمیل تک چار بنیادی مرحلوں کی
تصدیق کی گئی جن میں پہلے مرحلے پر شمالی وزیرستان کے علاقوں سے مقامی ،
غیر عسکری اور حکومت حامی آبادی کے انخلاء اور نقل مکانی کے ممکنہ راستوں
اور مقامات کی نشاندہی ، دوسرے مرحلے میں زمینی آپریشن اور علاقے کی
’’فزیکل سرچ‘‘ ، تیسرے مرحلے میں از سرِ نو بحالی جب کہ چوتھے اور آخری
مرحلے میں مقامی آبادی کی واپسی اور نوآباد کاری شامل ہے۔پہلے مرحلے میں
میر علی ، میران شاہ سے لاکھوں کی تعداد میں مقامی افراد نے نقل مکانی کرتے
ہوئے بنوں، لکی مروت اور ٹانک کے علاقوں کی جانب سفر شروع کیا۔مقامی آبادی
کے انخلاء کے فوراََ بعد دہشت گردوں کے خلاف دوسرے مرحلے زمینی آپریشن کا
آغازہوا۔پاک فوج نے سوات، باجوڑ، مہمند میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں
شروع کردیں۔ اس دوران پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں
پر بمباری کرکے ان کی کمرتوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاک فوج کے ز مینی
آپریشن کے بعد انہیں کلیئر کیا گیا اور دستے میران شاہ جا پہنچے۔ میران شاہ
دہشت گردوں کا شمالی وزیرستان میں سب سے بڑا مرکز تھا۔یہاں پاک فوج نے
بھرپور کارروائی کرتے ہوئے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ بہت سے گرفتار
بھی ہوئے اور متعدد نے ہتھیار بھی ڈال دیئے۔اس کے بعد افغان بارڈر کی طرف
درپہ خیل کوبھی کلیئر کیا گیا۔ میرانشاہ کے بعد ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں
کے اہم مراکز بویا اور دیگان کے علاقوں کو بھی دہشت گردوں سے پاک کروایا
گیا اور وہاں پاک فوج اپنا قبضہ مستحکم کرچکی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی
آرمیجرجنرل عاصم باجوہ کی ایک پریس بریفنگ کے مطابق ضرب عضب کے نتیجے میں
دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کیے جاچکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت
گردوں سے کلیئر کرائے گئے علاقوں کو انتظامیہ کے حوالے کررہے ہیں۔آپریشن کے
آغاز سے اب تک 3000ہزار کے قریب دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ ایک ہزار
ٹھکانے اورکمین گاہیں تباہ کی جاچکی ہیں۔ علاوہ ازیں بھاری تعداد میں
اسلحہ، ہتھیار اور سیکڑوں ٹن باروی مواد برآمد بھی برآمد کیا گیا ہے۔شمالی
وزیرستان کے علاوہ بعض دوسری ایجنسیوں میں چھوٹے موٹے گروپوں کی موجودگی کی
اطلاعات پر ان کے خلاف بھی آپریشن شروع کیا گیا۔ خیبرایجنسی میں آپریشن
''خیبرون''کے ذریعے دہشت گردوں کے ایسے ٹھکانوں کے خلاف متعدد موثر
کارروائیاں جاری ہیں اور اب تک نوے فیصد علاقہ کلیئر کروایا جا چکا ہے۔ ضرب
عضب کے دوران پاک فوج کے 316بہادر افسروں اور جوانوں نے جرات و بہادری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا جبکہ 1200کے قریب زخمی ہوئے۔ قوم کو
یقینا اپنے ان شہداء اور غازیوں کی قربانیوں پر فخر ہے۔
ضرب عضب چونکہ دہشت گردوں کے خلاف کاری ضرب ثابت ہوا ہے اس لیے ان کی طرف
سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا۔ 16دسمبر کو دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی
پبلک سکول پر حملہ کرکے بہت سے معصوم بچوں اور اساتذہ کو شہید کردیا۔ اس
ہولناک واقعے سے پاکستان تو کیا پوری دنیا کانپ اٹھی۔سانحہ پشاور کے بعد
پاکستانی قوم ایک مرتبہ پھر ملی جذبے سے اٹھی۔ اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم
پاکستان کی زیر صدارت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں انتہائی اہم فیصلے
کئے گئے جن پر فوری عملدرآمد اور ٹائم فریم پر سب نے اصرار کیا۔ اس عزم کا
اظہار کیا کہ دہشت گردی کیخلاف کمزور فیصلے کیے تو قوم مطمئن نہیں ہوگی،قوم
کو اس وقت تسلی ہو گی جب مجرموں کو سزا ملے گی۔وزیراعظم نے دہشت گردی کے
مقدمات کیلئے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتیں قائم کر نے کا
اعلان کیا۔ جن کی مدت 2سال ہوگی۔ خصوصی ٹرائل کورٹ کے قیام سے یقینا ایسے
جرائم کا ارتکاب کر نے والے عناصر بلا تاخیر اپنے انجام کو پہنچائے جاسکیں
گے۔یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ملک میں کسی طرح کی عسکری تنظیموں اور مسلح
جتھوں کی اجازت نہیں ہوگی۔ نفرتیں ابھارنیں، گردنیں کاٹنے ، انتہا پسندی
اور فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر اخبارات اور رسائل
کے خلاف موثر اور بھر کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک
میڈیا پر دہشت گردوں اور ان کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہوگی۔ دہشت
گردوں کی مالی اعانت کے تمام وسائل مکمل طورپر ختم کر دیئے جائینگے۔ کالعدم
تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے کام کر نے کی اجازت نہیں ہوگی۔سپیشل اینٹی
ٹیررازم فورس کے قیام اور انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط
اورفعال بنانے کافیصلہ بھی کیاگیا ہے ۔ مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور
اقلیتو ں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور
ضابطہ بندی ہوگی۔ بے گھر افراد کی فوری واپسی کو پہلی ترجیح رکھتے ہوئے
فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کا عمل تیز کیا جائیگا۔ دہشت گردوں
کے مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کیا جائیگا۔ انٹر نیٹ سوشل میڈیا پر
دہشت گردی کے فروغ کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ملک کے
ہر حصے میں انتہا پسندی کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائیگی۔سانحہ پشاور
کے بعد ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف قومی آپریشن کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اب
پوری قوم اور فوج متحد ہو کر ان کا صفایا کر نے پر کمر بستہ ہوچکی ہے۔دہشت
گردوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف بھرپور کارروائی اور آپریشن ضرب عضب کا
دائرہ کا ربڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب کی بار اٹھیں ہیں تو دہشت گردوں کو
انجام تک پہنچا کر چھوڑیں گئے۔ یہی قوم کے دل کی آواز ہے۔
ضرب عضب آپریشن کے دوران تقریباََ دس لاکھ افراد نے نقل مکانی کی۔جن کی
واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ آپریشن کے دائرہ کار اور اختتام کی حتمی تاریخ
نہیں دی جاسکتی تاہم جس طرح افواج پاکستان کامیابی سے بھرپور آپریشن کررہی
ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے باقی افراد
بہت جلد اپنے علاقوں میں واپس جاسکیں گے۔ افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ حکومت
اور ملک کے عوام نے عارضی طور پر نکل مکانی کرنے والے افراد (TDPs) کی خدمت
کے لئے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی مثالی ہے۔ پاک فوج نے اپنی
قیمتی جانوں کے نذرانے ساتھ ساتھ ایک ماہ کی تنخواہ کے اور ہزاروں ٹن کا
راشن بھی اپنے قبائلی بھائیوں کے لیے پیش کیا ۔ جس طرح پاک فوج کے افسر اور
جوان بے جگری سے شدت پسندوں کے خلاف صف آراہوکر اپنی جانوں کے نذرانے پیش
کئے ہیں انہیں نہ صرف شمالی وزیراستان کے باسی بلکہ تمام محب وطن پاکستانی
خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔افواج پاکستان کے شہیدوں اور غازیوں نے وطن کی
حسین وادیوں کو اپنا خون دے کر انہیں پھر سے منور اور روشن کردیا
ہے۔متاثرین کی بحالی کے لئے بھی پاک فوج کے جوان سرگرم عمل ہیں۔امید ہے کہ
اس مرحلے کی بھی کامیابی سے تکمیل ہوجائے گی۔شمالی وزیرستان کے باسی جب
اپنے گھروں کو لوٹیں گے تو انہیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ پاک فوج کے شہداء
نے ان کے کل کے لئے اپنا آج قربان کردیا ۔
شمالی وزیرستان
شمالی وزیرستان ایک مشکل پہاڑی سلسلہ ہے جو پاک افغان سرحد کا لگ بھگ گیارہ
ہزار پانچ سو پچاسی(11,585) کلومیٹر کے علاقے پر مشتمل ہے۔ اس کے شمال میں
دریائے کُرم جسے دریائے ٹوچی بھی کہا جاتا ہے جبکہ جنوبی حصّے کی بنیادوں
کو دریائے گومل کا پانی سیراب کرتا ہوا گزرتا ہے۔ انتظامی طور پر شمالی
وزیرستان ’’فاٹا‘‘ کا حصّہ ہے جس کا مجموعی رقبہ چار ہزار سات سو سات
(4,707) مربع کلومیٹرز پر محیط ہے جو کہ چار بڑی اور زرخیز وادیوں کا سنگم
بھی کہلاتا ہے جن میں’’ کُرم‘‘ وادی شمال کی رنگینوں کی امین، ’’دَور‘‘
دریائے ٹوچی کے پانیوں سے سیراب ہونے والی زمین، ’’کھِیتو‘‘ وادی کی کمین
اور’’ خِیسورا‘‘ وادی جنوب کی خوب صورتیوں سے جنم لینے والی نازنین ہے۔
بحیثیتِ مجموعی ایک پہاڑی سر زمین ہونے کے باوجود یہاں پر کھلے چٹیل
میدانوں کا مختصر سلسلہ بھی ملتا ہے جن میں میران شاہ کا شمال میں قریب
چالیس مربع میل کا وسیع علاقہ جسے ’’داندے‘‘ کہا جاتا ہے ، میر علی کے
شمالاً جنوباً لگ بھگ تیس مربع میل پر پھیلا ہواعلاقہ جسے ’’شر تالا‘‘ کہا
جاتا ہے جب کہ میران شاہ کے جنوب میں واقع قریب پچیس مربع میل کا وسیع
میدان ہے جسے ’’دتہ خیل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ماضی کے فوجی آپریشن
ضرب عضب سے قبل پاک فوج جنوبی وزیرستان، باجوڑ، مالاکنڈ سوات میں وقتا
فوقتاََ 2001ء سے 2010ء کے دوران المیزان، شیردل، زلزلہ،، راہ حق ، راہ
راست اور راہ نجات کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرچکی ہے اور ان
علاقوں میں انہیں طے شدہ اہداف اور کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں
2001-02 ---- جنوبی وزیرستان ---- آپریشن المیزان
2007 ---- باجوڑ ---- آپریشن شیر دل
2008 ----- جنوبی وزیرستان ---- آپریشن زلزلہ
2008 ---- مالاکنڈ ڈویژن ۔ سوات ---- آپریشن راہِ حق
2009 ---- مالاکنڈ ڈویڑن اور سوات ---- آپریشن راہِ راست
2010 ----- جنوبی وزیرستان ---- آپریشن راہِ نجات
مذکورہ علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کے بعد حکومتی عمل داری قائم کرنے
کے حوالے سے تمام آپریشنز کے مقررہ اہداف حاصل کئے گئے۔ ان علاقوں میں دہشت
گردوں کا قلع قمع کردیا گیا۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کی جانب سے
جاری کردہ 2009ء کی پاکستان سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2008ء میں 313 کے
مقابلے میں 2009ء میں سکیورٹی فورسز نے 596 آپریشنل حملے کئے۔ دہشت گردوں
کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور متعدد کو گرفتار کرلیا گیا۔اس کے ساتھ
ساتھ حکومت کی جانب سے متعدد کل جماعتی کانفرنسیں بھی منعقد ہوئیں جن میں
سے آخری نو ستمبر 2013 کو ہوئی۔ ان کانفرنسوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے
حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ملک میں قیامِ امن کے لیے شدت پسند
تنظیموں کے ساتھ مذاکرات بھی کریں۔حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود جب دہشت
گردوں نے اپنے مذموم مقاصد جاری رکھے تو گزشتہ سال جون 2014ء میں قومی سطح
پر اتفاق رائے کے بعد ضرب عضب کے نام سے شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں
میں فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ وقت کے ساتھ یہ پوری قوم کا آپریشن
بن چکا ہے۔ حکومت اورافواج پاکستان کو ہر شہری، ہر مکتبہ فکر کے افراد کی
مکمل حمایت حاصل ہے۔ بقول وزیراعظم میاں نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف
جنرل راحیل شریف کہ آخری دہشت گردکے خاتمے تک اسے جاری رکھا جائے گا۔
ضرب عضب نام
العضب 'نبی کریم صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کی تلوار کا نام ہے۔ عضب عربی زبان
کا لفظ ہے جس کا مطلب "تیز" یا "کاٹنے والا" ہوتا ہے۔ یہ تلوار نبی کریم
صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کو ایک صحابی نے غزوہ بدر سے قبل پیش کی تھی۔ نبی پاک
صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم نے یہ تلوار غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال کی
تھی اور بعد میں یہ تلوار صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کے پاس رہی۔ اب یہ
تلوار قاہرہ کی جامع مسجد الحسین میں موجود ہے۔ پاک فوج کی جانب سے دہشت
گردوں کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن کا نام "ضرب عضب" اسی مناسبت سے رکھا
گیاجو خوارج کی سرکوبی اور مکمل خاتمے تک جاری رکھا جائے گا۔ |
|