گلگت بلتستان کے انتخابات میں ن لیگ کی تاریخی فتح میں حافظ حفیظ الرحمان اہم کردار

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی24عام نشستوں کے لئے 8جون کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگئی اور پیپلزپارٹی کو خطے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہ صرف بدترین شکست کا سامنا رہا بلکہ پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی طرح گلگت بلتستان میں عملاً پارلیمان میں پیپلزپارٹی کا وجود ختم ہوگیاہے۔ انتخابات فوج کی نگرانی میں انتہائی پرامن انداز میں ہوئے اور تادم تحریر (10جون کی صبح تک) کسی بھی طبقے یا حلقے کی جانب سے کوئی بڑی شکایت تاحال سامنے نہیں آئی ہے اور تمام ہی سیاسی اور مذہبی قوتوں نے نتائج تسلیم کرلئے ہیں، اگرچہ دیامر کے دو حلقوں میں امیدواروں کے حامیوں کے مابین تصادم سے صرف 6پولنگ اسٹیشنوں میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے تاہم حکومتی مشینری کے استعمال یا کسی سرکاری قوت کے دباؤ اور مداخلت کی کوئی شکایت نہیں ہے۔ گلگت بلتستان میں پرامن اور شفاف انتخابات نہ صرف بہت بڑی کامیابی ہے بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں اور سیاسی قوتوں کیلئے بہترین مثال بھی ہے ۔ووٹ کاسٹنگ کی شرح بھی مختلف حلقوں میں 35سے 70فیصد تک رہی جو پاکستان کے دیگر علاقوں کے لئے بہترین مثال ہے۔غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ(ن) کو 14،مجلس وحدت مسلمین ، اسلامی تحریک پاکستان اور تحریک انصاف کو دو دو، جمعیت علماء اسلام ، پیپلزپارٹی اوربالا ورستان نیشنل فرنٹ(آزاد حیثیت میں) کو ایک ایک نشست ملی ہے ،جبکہ ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا ہے ۔

گلگت بلتستان میں مجموعی پر 8جون کو 10ویں اورجماعتی بنیادوں پر پانچویں انتخابات ہوئے،ماضی جماعتی ہوں یا غیر جماعتی تمام انتخابات میں پیپلزپارٹی ایک مضبوط جماعت کے طور پر خطے میں نمائندگی کرتی رہی ہے لیکن اس بار ایسا لگتاہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970میں خطے میں جس پارٹی کی بنیاد رکھی تھی وہ پارٹی عملاً دفن ہوچکی ہے،جو کام فوجی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف شدید خوائش اور کوشش کے باوجود 20سامیں بھی نہ کرسکے وہ کام پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ نے صرف 5سال میں کردکھایا ۔ 8جون کے انتخابات میں عوام نے پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ مایوس کن کارکردگی کا اتنا سخت احتساب کیا کہ سابق وزیر اعلی سید مہدی شاہ نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ انتخابی دوڑ میں دوسری پوزیشن بھی حاصل نہ کرسکے اور ان کے وزراء ،مشیر، معاونین ، ارکان اسمبلی اور ارکان کونسل کو بھی بری طرح شکست ہوئی اور تمام اتحادی بھی ناکام ہوگئے ۔2009کی اسمبلی کی جو3ارکان دوبارہ کامیاب ہوئے ان میں سے دو کا تعلق مسلم لیگ (ن) ،ایک کا جمعیت علماء اسلام اور ایک قوم پرست رہنماء نوازخان ناجی ہیں۔ انتخابات میں 17جماعتوں نے حصہ لیا اور 16جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے خلاف متحدتھیں ۔ تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین نے پہلی بار قسمت آزامائی کی اور دو دو نشستیں ملیں ،جو ان کی توقع سے بہت کم تھیں۔ دونوں جماعتوں کا خیال تھاکہ انہیں مجموعی طور پر 10سے زائد نشستیں مل جائیں گی اورپیپلزپارٹی کے حصے میں 5یا زائد نشستیں آئیں گی اس طرح ہم ملکر حکومت سازی کریں گے ،لیکن ایسا نہیں ہوسکا،اب تینوں کی مجموعی نشستیں 5پانچ ہیں ۔14نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن ) واضح طور پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں(ان میں سے دونشستوں حاجی جانباز خان اور حیدر خان کا معاملہ کلی طور پر واضح نہیں ہے) ہے،ایک آزاد امیدوار کی بھی ن لیگ میں شمولیت کا امکان ہے ،جبکہ خواتین کی 4اور ٹیکنوکریٹ کی 2نشستیں ملنے کے بعد 33رکنی ایوان میں مسلم لیگ (ن) کی مجموعی تعداد 20ہوجائے گی ۔

انتخابات میں جس طرح پیپلزپارٹی کو بدترین شکست کا سامنا رہا اسی طرح جمعیت علماء اسلام کی کارکردگی بھی بدترین رہی ،اس جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، جمعیت علماء اسلام کی ایک نشست جماعتی کارکردگی کی بجائے امیدوار کی زاتی کوشش کا نتیجہ ہے ،جبکہ حلقہ نمبر 17سے رحمت خالق کا میاب ہوتے ہیں تو یہ بھی ان کی اپنی زاتی محنت کا نتیجہ ہوگا ۔

جہاں تک مسلم لیگ(ن) کی کامیابی تعلق ہے اس کا پہلا سبب مسلم لیگ (ن) کے صوبائی چیف آرگنائزر حافظ حفیظ الرحمن کی بہترین حکمت عملی اور تقریباً سوا دہائی سے خطے کے لئے بہترین خدمات اور کارکردگی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو3 نشستیں پیپلزپارٹی،مجلس وحدت مسلمین ، اسلامی تحریک پاکستان کے بعض رہنماؤں ،سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضااور فیصل رضا عابدی کے متنازعہ بیانات اور انتہائی جارحانہ رویے کی وجہ سے ملی۔ الیکشن سے48گھنٹے قبل تک ’’جی بی ایل اے حلقہ نمبر1گلگت ،جی بی ایل اے حلقہ نمبر15چلاس اورجی بی ایل اے حلقہ نمبر24گانچھے‘‘ میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی یقینی نظر آرہی تھی اولذکر اور آخر الذکردونوں حلقوں میں پیپلزپارٹی کو اس کا اپنا مذہبی اور حلقہ نمبر15میں قبائلی متعصبانہ رویہ لے ڈوبا، اگرمتعصبانہ و جارحانہ رویہ نہ ہوتاتوان نشستوں سے مسلم لیگ(ن)کی کامیابی نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن تھی ۔انتخابی عمل میں شریک16اور آزاد حیثیت میں حصہ لینے والی دو جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سربراہ حافظ حفیظ الرحمن کو ناکام بنانے کے لئے جس سخت ردعمل اور اتحاد کا مظاہرہ کیا، عوام نے پھر پور جواب دیتے ہوئے نہ صرف حافظ حفیظ الرحمن کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا بلکہ مسلم لیگ( ن) کواسی بناپر اضافی نشستیں بھی دیں۔ ن لیگ کی کامیابی کا تیسرا سبب مرکز میں (ن) لیگ کی حکومت کی موجود گی بھی ہے،مگر ایسی نشستوں کی تعداد 3سے4ہی ہیں ۔ حافظ حفیظ الرحمن کا دعویٰ ہے کہ انہیں ناکام بنانے کیلئے نہ صر ف پاکستان کے مختلف علاقوں کا سرمایہ اورشخصیات سرگرم ہوئی بلکہ بعض پڑوسی ممالک نے بھی بالواسطہ مداخلت کرنے کی کوشش کی لیکن عوام نے انہیں مسترد کردیا۔انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو تین اہم رہنماوں کی شکست کا دھچکا بھی لگاہے جن میں حاجی اکبر تابان ، غلام محمد ،سلطان مدد شامل ہیں ۔حاجی اکبر تابان تحریک انصاف کے راجہ جلال کے مقابلے میں صرف ایک ووٹ سے ہارے ہیں اور اعلان کیا ہے کہ وہ الیکشن ٹربیونل میں جائیں گے۔مسلم لیگ(ن) نے ضلع گلگت ،ضلع استور اور ضلع گانچھے سے کلین سوئپ کیا ،جبکہ سکردوکی6میں سے دو ، ضلع دیامر کی4میں سے 3نشستیں اور ضلع ہنزہ نگر کی 3میں سے ایک نشست ملی،جبکہ ضلع غذر سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی نشست نہیں ملی ۔ضلع استورسے 1999ء کے بعد پہلی بار دونوں نشستیں مسلم لیگ (ن) کے رانا فرمان علی اور برکت جمیل کامیاب ہوئے ۔ رانا فرمان علی طویل عرصے سے پارٹی سے منسلک اور پارٹی کے ضلعی صدر بھی ہیں ۔

انتخابی عمل پر امن انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچ چکاہے اب مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں کیلئے حکومت سازی کا عمل مکمل کرنا ہے ، حافظ حفیظ الرحمن کے مطابق مسلم لیگ (ن) مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کے نام پر مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجائے تنہا حکومت سازی کرے گی تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ عددی اعتبار سے (ن) لیگ کے پاس واضح اکثریت ہے لیکن بعض رہنماؤں کی خواہش ہے کہ اسلامی تحریک اور جمعیت علماء اسلام کو حکومت میں شامل کیا جائے ۔ ن لیگ اور اسلامی تحریک ماضی میں گلگت بلتستان میں 1999سے2004تک بھی اتحادی حکومت کرتی رہی ہیں اور ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے دو ارکان نے اپنی سیاست کا آغٖاز ہی اسلامی تحریک(کالعدم تحریک جعفریہ) سے کیاہے،جبکہ جمعیت علماء اسلام مرکز میں ن لیگ کی اتحادی جماعت ہے ۔

بہترین انتخابی حکمت عملی،پارٹی کے لئے سوا دہائی سے قربانی ،بہترین قائدانہ صلاحیتوں، مشکل وقت میں پارٹی سے وفاداری ،فوجی آمر کے دور میں خطے میں پارٹی کے وجود کو برقرار رکھنے اور کارکردگی کی وجہ سے حافظ حفیظ الرحمن ہی وزیر اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہیں ، تاہم بعض قوتیں میر غضنفر علی خان ، فدا محمد ناشاد اور حاجی جانباز خان کوبھی امیدوار بنانے کے لئے سرگرم ہیں ،اب وزیر اعظم نواز شریف کی صلاحیتوں امتحان ہے کہ وہ معیا ر کو دیکھتے ہیں یا پسند نا پسند کو؟ یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر حفیظ الرحمن کے سوا کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنانے کی کوشش کی گئی تون لیگ میں واضح بغاوت ہو گی ۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک بڑا امتحان خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی مخصوص نشستوں پر امیدواروں کی نامزدگی ہے۔مقامی گورنر کا انتخاب بھی مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک اہم مرحلہ ہے اگرچہ گورنر کے کئی امیدوار قانون ساز اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں یا پھر ناکام ہوئے لیکن اس کے باوجود نصف درجن کے قریب رہنماء اب بھی امیدوار ہیں،اس لئے سنجیدگی کی ضرورت ہے ،حکومت سازی میں تمام مذہبی ،لسانی اور علاقائی اکائیوں کو میرٹ اور پارٹی کارکردگی کی بنیاد پر مناسب نمائندگی ملنی چاہئے،کیونکہ مسلم لیگ(ن) بالخصوص حافظ حفیظ الرحمان کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے ۔
 
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.