جمہوریت زندہ باد

پنجاب میں پیٹرول بحران ایک بار پھر سراٹھا رہا ہے جیسے اس سال جنوری میں بدترین بحران پیدا ہوا تھا۔با خبرذرائع کے مطابق جنوبی پنجاب خصوصا لاہور، گوجرانوالہ ،راولپنڈی، اسلام آباد، اٹک اور گردونواح میں پیٹرول کی سپلائی میں ۴۰ فیصد کمی واقع ہو گئی ہے جسکی وجہ سے پیٹرول پمپوں پر لمبی لمبی گاڑیوں کی قطاریں ایک بار پھر دیکھائی دینے لگی ہیں اور پیٹرول کمپنیوں کی کارکردگی سوالیہ نشان بننے لگی ہے۔

دوسری جانب پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے بھی حکومت پر کرائیوں میں اضافے کے لئے ہڑتالوں اور گاڑیوں کی دستیابی میں کمی کر کے حکومت پر دباوء بڑھانا شروع کردیا ہے جسکی وجہ سے گرمیوں کے شدید موسم میں دوپہر کے اوقات میں شہریوں خصوصا خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور جو ٹرانسپورٹ دستیاب ہوتی ہے وہ یا تو منزل مقصود کی سواری بٹھاتے ہیں یا پھر مقررکردہ کرائے سے دوگنا وصول کرتے ہیں۔ اوپر سے سونے پہ سہاگہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ۵۔۷ فیصداضافہ کیا ہے جو کہ آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہے۔ بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ بجلی کی کھپت میں اضافے اور سبسڈی ختم کیے جانے کے بعد اگر فیول ایڈجسمنٹ میں صارفین کو کوئی ریلیف ملتا ہے تو حکومت بجلی کی قیمت میں اضافہ کردیتی ہے۔ماہ مئی کے موصولہ بجلی کے بلوں میں اچانک اضافے نے صارفین کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں۔

اسی طرح حکومت نے سی این جی پمپوں کے ساتھ بھی آنکھ مچولی شروع کر رکھی ہے۔پہلے حکومت نے سی این جی پمپوں کو ۱۲ لاکھ ایڈوانس ادائیگی کے بعدسی این جی پمپ کھولنے کی اجازت دی مگر ایک ہفتے بعد ہی دوبارہ بند کر دیے گئے۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا آغازکر دیا گیا۔رمضان کی آمد سے قبل ہی پھلوں، سبزیوں اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ان حالات میں گنجی نہائے گی کیااور نچوڑے گی کیا۔

حکومت کی پیٹرول بحران کے حوالے سے پہلے بھی سبکی ہو چکی ہے۔ اگر اس بار وزارت پیٹرول نے نااہلی دیکھائی اور حکومت نے غلط منصوبہ بندی کی تو عوام ایک بار بھر لائینوں میں لگ کر موجودہ حکومت کو بد دعاوں سے نوازیں گے۔ نہ جانے کب تک یہ حکومت ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے کام چلائے گی۔ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سراٹھا لیتاہے۔حکومت عوام کے حقیقی اور بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے صرف ان پراجیکٹوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جن میں زیادہ سے زیادہ مال پانی بنتا ہو جیسے کہ میڑو پراجیکٹ۔ حکومت نے میٹرو بنانے میں ۴۰ ارب جھونک دیے اگر یہی پیسہ بجلی بحران کوصیح معنوں میں دور کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا تو آج ملک میں اندھیروں کا بسیرا نہ ہوتا۔ اور ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو جاتا۔اگر اسی پیسے سے پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن اور ادویات کی فراہمی پر لگا دیے جاتے تو واقعی ملک کی تقدیر بدل جاتی۔فاقے کرنے والے غریبوں کو میٹرو میں سفر کرنے سے کیا لینا دینااسے تو صرف دو وقت کی روٹی سے غرض ہے۔ وحشی کو سکون سے کیا مطلب؟اہل قلم کا کا م ہی یہی ہے کہ وہ حکومت وقت کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجوڑتے رہیں اور حکومت کی خامیوں کی نشان دہی کرتے رہیں تاکہ اصلاح احوال ممکن ہو سکے۔

حال ہی میں پروفیسرو جاہت اشرف قاضی کی کتاب( میرا کیمبل پور)نظروں سے گزری جس میں پروفیسر صاحب نے پرانی یادوں کو رقم کرتے ہوئے (کیمبل پور) اٹک سٹی کے حوالے سے کئی واقعات کو بڑی دلچسی سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں حکیم تائب رضوی کے کچھ اشعار دیے ہیں جو قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ـ
جن کی یادوں کے چراغاں سے روشن شب غم
وہی احباب، وہی دوست ہیں سب کیمبل پور
دل وہاں رہتا ہے گو جسم یہاں ہے میرا
دن یہاں مرا گزرتا ہے تو شب کیمبل پور
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 151203 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.