راولپنڈی، ضمنی انتخاب یاد ھوبی پٹکا

جمہوری معاشروں میں قومی انتخابات کے بعد وقتاً فوقتاً ہونے والے ضمنی انتخابات ایک ایسا معمول ہیں جنہیں انہیں ملکی سیاسی صورتحال کا عکس قرار دیا جاتا ہے۔ یہ عوامی رائے ماپنے کا ایسا پیمانہ ہوتے ہیں جس کے تحت مختلف حکومتی و غیر حکومتی جماعتیں مقبولیت کا اندازہ کر کے اپنی پالیسیوں کو جاری رکھتی یا تبدیل کرتی ہیں۔ راولپنڈی میں ہونے والے انتخاب سے قبل صوبہ سرحد کے بیشتر علاقوں سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں بھی ضمنی انتخاب ہوئے، جن میں حکومتی اور غیر حکومتی جماعتوں نے مختلف اوقات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم 23فروری کو قومی اسمبلی کے حلقے این اے55راولپنڈی6 میں ہونے والے انتخابات اپنی نہاد میں ایک نیا تجربہ ثابت ہوئے۔ان ضمنی انتخابات کو چارٹر آف ڈیموکریسی کی حمایت و مخالفت کے عوامی فورم سے تعبیر کیا گیا، این آر او کے حامیوں اور اس کے مخالفین کا امتحان بھی مانا گیا۔

پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ، اور ق لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار شیخ رشید اور مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک کا جائزہ بھی تسلیم کیا گیا۔ لیکن ایک نکتہ جو ہر سطح پر نظر انداز کیا گیا وہ یہ تھا کہ یہ الیکشن دراصل صوبائی و وفاقی حکومتی مشینریوں کا مقابلہ تھا جس میں کامیابی صوبائی انتظامیہ کو ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد اسی طرح کا ایک میدان 10مارچ کو لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے123سمیت جھنگ میں بھی سجنے والا ہے جو راولپنڈی کے قریب ہونے کے باوجود شاید اتنی اہمیت حاصل نہ کر پائے جتنی اس حلقے کے انتخابات کو نصیب ہوئی ہے۔

راولپنڈی کے مذکورہ حلقے میں ہونے والا انتخابی دنگل، انتخابی میدان سے زیادہ سازشوں، کہہ مکرنیوں اور دھوبی پٹکوں کی مانند لڑا گیا۔ جس میں کامیابی غیر سرکاری نتائج کے مطابق ن لیگ کے حمایت یافتہ شکیل اعوان کو حاصل ہوئی اگرچہ مخالف امیدواروں نے بھی خاطر خواہ ووٹ لئے لیکن ہر مقابلے میں فاتح کوئی ایک ہی ہوتا ہے کہ اصول کے تحت کامیاب قرار پانے والا ہی مقدر کا سکندر قرار دیا گیا۔

3لاکھ33ہزار928رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جن کے لئے اڑھائی سو پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے تھے۔ شکیل اعوان 73ہزار766جب کہ مد مقابل شیخ رشید نے 46ہزار22ووٹ حاصل کئے۔ دیگر امیدواروں میں سے جماعت اسلامی کے ڈاکٹر کمال نے ٣ہزار سے زائد اور پاکستان تحریک انصاف کے اعجاز خان جازی نے بھی اتنے ہی ووٹ حاصل کئے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے لال حویلی کے قریب، جمات اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر محمد کمال نے کشمیر روڈ ، ن لیگ کے شکیل اعوان نے لیاقت باغ کے قریبی اسٹیشن پر اپنے ووٹ کاسٹ کئے۔ پولنگ کے آغاز سے قبل موسلا دھار بارش کی وجہ سے راولپنڈی کے نشیبی علاقے زیر آب آنے اور موسم کی خنکی کی وجہ سے اول وقت میں ٹرن آﺅٹ کم رہا،جو تمام تر کوششوں کے باوجود آخر تک اتنا نہیں ہو سکا جس کی امید کی جا رہی تھی۔

ووٹوں کے فرق اور عددی گنتی سے قطع نظر مذکورہ انتخاب نے یہ واضح کر دیا کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو باہمی مفاہمت، قومی اتفاق رائے، وسیع تر قومی مفاد اور ان سے ملتے جلتے دعوے کرنے والوں نے سب سے پہلے اپنے مفاد کا نعرہ سچ کر دکھایا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ماتحت ملازمین کو ہر دو جانب سے دباﺅ ڈال کر اپنے اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے تیار کیا جاتا رہا،انتخاب سے قبل اور اس کے دوران شیخ رشید سمیت دیگر امیدواروں کی جانب سے ن لیگ کی صوبائی حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے، پولنگ کے دوران دوپہر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ انہوں نے ذاتی طور پر ایک نائب تحصیلدار کو جعلی ووٹ ڈالتے ہوئے پکڑا جسے بعد میں انتظامیہ چھڑا کر لے گئی۔

انتخابات سے قبل یہ اسکینڈل بھی سامنے آیا ہے کہ شیخ رشید نے اپنی شکست کے خوف اور دعوؤں کی ناکامی کے بعد عوامی جذبات کاسامنا کرنے سے بچنے کے لئے بیرون ملک جانے کی تیاری مکمل کر لی تھی۔ ن لیگ کی جانب سے ان کے ہوائی ٹکٹ کی کاپیاں بھی عوام میں تقسیم کئے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں جب کہ اسی طرح کے الزامات شیخ رشید کی جانب سے ن لیگ پر بھی لگائے گئے۔

ن لیگی امیدوار کے انتخاب جیتنے کے بعد ان کے حامیوں کی جانب سے مری روڈ اور اطراف کے علاقے میں شدید فائرنگ بھی کی گئی جس سے گھروں میں رہائش پزیر بچے اور خواتین سہمے رہے۔اپنی” کارکردگی“ دکھانے میں مشہور پنڈی پولیس اپنے سامنے قانون کی درگت بنتے دیکھ کر خاموش رہی، یہ وزیر اعلیٰ کا رعب ودبدبہ تھا یا چوہدری نثار کا خوف۔ قانون کے محافظوں کی یہ چشم پوشی ایک بار پھر دوہرے معیارات کا ثبوت پیش کر گئی۔

شیخ رشید نے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج سامنے آنے کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ہار جیت الیکشن کا حصہ ہے، میں ہار کر بھی جیت گیا جب کہ جیتنے والے شرمندہ ہیں، الیکشن کمیشن میں کسی قسم کا اعتراض داخل نہیں کرواﺅں گا، شکست کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی ہار گیا لیکن پنجاب حکومت جیت گئی، الیکشن سے قبل اور ان کے دوران حکومت کی جانب سے حامیوں کو ڈرانے دھمکانے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جتنے بھی کمزور لوگ تھے انہیں تھانوں میں لے جا کر توڑا گیا۔ گاڑیاں پکڑ لی گئیں، لیکن اس کے نتیجے میں عوام چوکیداروں کے بھیس میں سیاست میں گھسنے والے چوروں کو پہچان جائے گی۔ دیگر سیاستدانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ این اے 55کے انتخابات سے سبق حاصل کریں۔

شیخ رشید نے انتخابات ہارنے کے بعد جن خیالات کا اظہار کیا ہے کچھ ایسی ہی باتیں اس وقت مخالف امیدواروں کی جانب سے کی گئی تھیں جب مشرف دور میں وہ بیک وقت دو نشستیں جیتے تھے۔

مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف نے عوام سے خطاب کے دوران راولپنڈی کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقابلہ شیخ رشید سے نہیں بلکہ علی بابا اور چالیس چوروں کا تھا، اگرچہ انہوں نے اپنے آپ کو علی بابا کہہ کر ایوان صدر کے مکین اور ان کے قریبی ساتھیوں کو چالیس چور کہنے یا شیخ رشید اور ان کے حمایتیوں پر پھبتی کسنے جیسی واضح بات تو نہیں کی لیکن سمجھنے والوں کے لئے یہ بھی بڑی بات قرار دی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کی ہار کے ساتھ ہی بے وفائی کی سیاست کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ن لیگ کے ترجمان نے ذیادہ کھل کر بات کی ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں شکست شیخ رشید کو نہیں بلکہ صدر زرداری اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ہوئی ہے۔

ان انتخابات پر نہایت جچا تلا تبصرہ ایک بھارتی ٹی وی نے بھی کیا۔ رپورٹ کے مطابق ”انتخابات میں ایک ایسا امیدوار کامیاب ہوا ہے جس کو راولپنڈی کے عوام اتنا نہیں جانتے جتنا پرویز مشرف کے قریبی دوست اور ان کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد الگ سے اڑان بھرنے والے شیخ رشید کو جانتے ہیں۔ شیخ رشید کو اپنی شکست کا اندازہ منگل کی صبح ہی ہو گیا تھا اس لئے انہوں نے روایتی سیاستدان کی طرح شکست کا شور مچانا شروع کر دیا۔“بھارتی ٹی وی کے مطابق شیخ رشید کی شکست میں سب سے زیادہ ہاتھ پی پی کے مخصوص گروپ کی حمایت کا تھا حالانکہ شیخ رشید کی حمایت میں پیپلز پارٹی نے دوغلی پالیسی اپنائے رکھی تھی۔

این اے 55کے انتخابات کی ایک اور خاص بات تمام تر کوششوں اور امیدواروں کی جانب سے چلائی جانے والی بھرپور انتخابی مہمات کے بعد سامنے آنے والا ٹرن آﺅٹ تھا۔ ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے مطابق پولنگ کی شرح کل تعداد کا 39.5فیصد رہی۔ جسے بڑی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ ووٹ ڈالنے کا یہی تناسب 2008ءکے عام انتخابات میں بھی رہا تھا جب اس حلقے سے شیخ رشید کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید ہاشمی تھے۔76ہزار9سو80ووٹ لے کرکامیانی حاصل کرنے والے جاوید ہاشمی جنہیں بعد میں بوجوہ سائیڈ لائن لگا دیا گیا تھا چونکہ دو نشستوں سے جیتے تھے اس لئے ان کی جانب سے یہ نشست خالی کرنے کے بعد یہاں سے ن لیگ ہی کے حاجی پرویز خان کامیاب قرار ہائے تھے،انہوں نے 25ہزار2سو37ووٹ حاصل کئے تھے۔پولنگ کی شرح اس موقع پر11.8فیصد رہی تھی۔

تمام تر کوششوں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ہر ممکن واضح مداخلت کے باوجود عوام کی جانب سے سیاسی نعروں پر لبیک نہ کہنا مختلف عوامل کی وجہ سے ہو سکتا ہے لیکن سب سے بڑی اور سامنے کی وجہ یہ ہے کہ عام فرد موجودہ سیاسی نظام سے نالاں اور اپنی مشکلات کا خاتمہ نہ ہونے پر پریشان ہے۔ وہ جمہوری حکومت کے دور میں بھی ویسے ہی مسائل کا شکار ہے جس طرح کی شکایتیں اسے آمریت سے تھیں۔ بلکہ اب شاید مہنگائی اور امن و امان کی صورتحال اس وقت سے زیادہ خراب ہو گئی ہے جب آمر اپنے فیصلے مسلط کیا کرتا تھا۔

اگرچہ یہ جمہوریت کی تردید اور آمریت کی توثیق کی کوئی دلیل نہیں لیکن بھرے پیٹوں، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر تبصرہ کرنے والوں سے ہٹ کر کچی آبادیوں، پیلے اسکولوں اور دواﺅں سے محروم طبی مراکز کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے پر مجبور فرد کا یہ شکوہ بجا ہے کہ اسکے دن کب پھریں گے، اور پھریں گے بھی یا نہیں۔ نظام سیاست کے ماہرین کے مطابق اس صورتحال کا اکلوتا اور آزمودہ حل ایک ایسا انقلاب ہے جو ابتداءسے اختتام تک ظلم کی ہردیوار گرا کر نیا سویرا طلوع کرنے کا سبب بنے۔لیکن معاملہ کیا اسی پر بس ہو جائے گا یا کچھ مزید بھی کرنا ہو گا؟،ہم بھی سوچتے ہیں، آپ بھی سوچیں، مگر جاننے کی کوشش شرط ہے۔
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 31875 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More