ماہ رمضان سے قبل گورئمنٹ نے رمضان کی آمد کی تیاریاں
شروع کی جس میں سستے رمضان بازار سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظام تو وہاں پر
پانی و بجلی کے وزیروں نے بھی عوام کو خوشخبری کی نوید دی کے سحر وافطار
میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگئی۔ کبھی عابد شیر علی میڈیا پر آتے اور
کہتے کے عوام کو سحر وافطا ر میں بجلی مہیا کی جائے گئی تاکہ اس بابرکت
مہینے میں وہ رحمتیں سمیٹ سکیں۔ اسطرح خواجہ آصف صاحب بھی آئے اور انہوں نے
بھی اس بات کی تصدیق کی کے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا ۔18تاریخ
کو عوام نماز تراویح کے لیے مساجد میں پہنچے تو مساجد میں پانی کا نہ ہونا
پایا مطلب رمضان کی رات ملک کے مختلف شہریوں میں بجلی غائب ہوگئی۔ ساری رات
بجلی نہ آئی ۔ لوگ سحری کے لیے اُٹھے تولائٹ آف لوگ آدھی رات کو سڑکوں پر
نکل آئے اور مشتعل ہوگئے جب میں رات گئے 2:30بجے کے قریب آفس سے گھر واپس
آیا تو لوگوں کا کافی ہجوم نظر آیا دیکھا تو محلے کا نرانسفارمر رضا الہی
سے جواب دہ گیا تھا ۔ لیسکو ملازمین کا ایک بندہ ٹرانسفارمر کے قریب کھڑا
تھا باقی عوام نے اُسے گھیر رکھا تھا اور گالی گلوچ بھی جاری تھی۔ خیر رات
کی بجلی غائب تھی صبح8بجے پنکھے چلے۔ یہ ابتر صورتحال میرے محلے کی ہی نہیں
بلکہ پورے پاکستان کی ہی چکی تھی ایک ہی رات میں ایسی کرنی ہوئی کہ ملک سے
بجلی کی روح پرواز کر گئی۔ سوال یہاں یہ جنم لیتا ہے کہ کچھ گھنٹے قبل
خواجہ صاحب نے سٹیٹ منٹ بھرے دھرلے سے دی کہ بجلی میسر ہو گی وہ بھی سحر و
افطار میں مگر شاید انہوں نے سال بتانا گوارہ نہیں سمجھا کہ کس رمضان میں
میسر ہوگی آخر بجلی کہاں چلی گئی ؟؟ پہلے 4روزے تو عوام نے ان بجلی کے وزیر
وں کو اپنی عبادات میں خوب یاد رکھا ! سیالکوٹ، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، جہلم
، گجرات ،ملتان صوابی، فیصل آباد،سرگودھا ،چنیوٹ لاہور،قصور پشاور، کراچی
حیدرآباد میں بجلی کی ایسی بندش ہوئی کہ وزیروں کے وعدے وفا نہ ہو سکے ۔
ناراض سورج نے بھی خوب آگ برسائی جس سے کراچی میں 400کے قریب ہلاکتیں
ہوگئیں۔ یہ کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہر رمضان میں ایسا ہی کہا جاتا ہے
کہ بجلی سحر وافطار میں نہیں جائے گی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ بالکل نہیں
آئے گی۔ بجلی ہو گی تو بند ہو گی نہ!پشاور میں کفن پہن کر احتجاج ہوا3روز
دھرنا بھی دیا گیا مگر بجلی والے ایسے روٹھے کہ بس۔صوابی میں گرڈاسٹیشن کو
آگ لگا دی گی لاہور میں پپیکو روڈ فیروزپور روڈ بلاک کینال روڈ بلاک کر
ددیئے گئے مگر سب کچھ بے سود رہا۔ عابد شیر علی صاحب غصہ کھا کر میڈیا کے
ہتھے چڑھے تو اپنا نمبر ہی اناؤنس کر دیا کہ جسکو مسئلہ ہو وہ کال کرئے
حتیٰ کہ ایس ایم ایس بھی کرئے تو اسکا کام ہو جائے گا300866111نمبر جب
لوگوں نے شکایات کے لیے ملایا تو نمبر بند عوام کو مامو بنایا گیا اور یہ
بھی کہا کہ چند سیاسی جماعتوں نے واویلا مچا رکھا ہے ۔ اور خواجہ صاحب کہتے
ہیں کہ جبری لوڈشیڈنگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ ان نام
نہاد لیڈروں کو کیا معلوم کے عوام کے کیا سائل ہیں یہ تو صرف بیانات دینے
کے ماہر ہیں عملی کام کوئی نہیں اگر عملی کام ہے تو وہ صرف سڑکیں بنانے کا
اور کوئی کام نہیں انکو یا لیپ ٹاپ تقسیم کروالو۔ مختصر یہ کہ ان لوگوں نے
لوہا بیچنے ہے اپنا اس لیے انکا دھیان بجلی پر نہیں صرف سڑکیں بنانے کی طرف
ہے۔ اچھی بات ہے سڑکیں بناؤ آپ مگر سڑکوں سے ضروری بجلی ہے ۔ ماہر معاشیات
ڈاکٹر رابنز کہتے ہیں کہ انسانی خواہشات لاتعداد ہیں مگر سب سے پہلے وسائل
کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ کام کیا جائے جسکی اشد ضرورت ہے۔ اشد ضرورت عوام کو
بجلی کی ہے ان سڑکوں کی نہیں ہے ! سال2015۔2014 میں لوڈشیڈنگ کے جن کو مٹھی
بند کرنے کے لیے 32ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا مگر 15ارب خرچ کیا گیا جو
کہ48فیصد بنتا ہے۔ میاں صاحب باقی کا بجٹ بھی کوئی تختی لگا کہ پوری کر
دینا تھا چلو آنے والے سالوں میں کہیں بتی لب ای جائے!شہری علاقوں میں 14سے
16گھنٹے جبکہ دیہاتی ایریاز میں 20سے 22گھنٹے کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ نے عوام
کی ناک میں د م کر کھا ہے۔ اگر لائن ٹرپ کر جائے تو عوام کو بونس بھی ملتا
ہے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں ۔ ملک میں کل 150کے قریب چھوٹے بڑئے
ڈیم موجود ہیں مگر پھر بھی بجلی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ملک میں اس وقت6ہزار
میگاواٹ شاٹ فال کا سامنا ہے جبکہ مجموعی ضرورت2000میگا واٹ کے قریب
ہے۔تربیلا ڈیم دنیا کا سب سے بڑا دیم ہے جو پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاھیت
رکھتا ہے اسطرح بلوچستان میں میرانی ڈیم جو دریائے دشت پر بنایا گیا اسکی
پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت588690کیوبک ہیکٹرومیٹر ہے اور اسکا پلس پواینٹ
یہ ہے کہ فلڈسٹاک کی بھی صلاحیت رکھتا ہے مگر ہر سال سیلاب سے ملک پانی کی
نظر ہو جاتا ہے جس سے نہ تو بجلی بنتی ہے اور نہ فصلیں سیراب بلکہ تباہی کا
باعث بنتا ہے۔اکیسویں صدی میں بجلی کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے
مگر پاکستان ایک ایسے جسم کی مانند ہے جسکی ریڑھ کی ہد ی ہے ہی نہیں ۔ ورلڈ
کمیشن آن ڈیم کی رپورٹ کے مطابق چائنہ میں کل 22ہزار 410چھوٹے بڑے ڈیم ہیں
اربا ب اختیار کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر ملک میں ڈیم بنائے نہ کہ
سڑکیں اور واپڈا کو وقت سے قبل ادائیگیاں کی جائیں تاکہ یہ جو ایک دم سے
بجلی کا مصنوعی بحران شروع ہوتا ہے اس سے بچا جاسکے۔ |