اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنانِ بہشت ! میرے دامن میں
ایسا کچھ نہیں ہے ، جو میں تمھاری نذر کر سکوں ۔ سوائے چند الفاظ کے ۔ میں
کوئی سیاست دان نہیں ، جو بیان بازیاں کروں ۔ کوئی سکہ بند شاعر نہیں جو
قافیوں پر قافیے ملا کر تمھارے لیے کوئی مرثیہ نظم کروں ۔ فقیہ ِ وقت نہیں
کہ فتوے رقم کروں ۔ واعظ ِ شہر نہیں کہ تمھاری مدح میں وعظ کر کے خلقت کا
دل لبھا سکوں ۔ میں ایک چھوٹا سا قلم کار ہوں۔ سو میری آج کی تحریر کے سارے
الفاظ تمھارے لیے وقف ہیں ۔ اسے تم میرے دل کی آواز کہو یا اپنے لیے خراج ِ
عقیدت ۔ یہ تم پر انحصار کرتا ہے ۔
اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنانِ بہشت ! 21 جون بروز اتوار کو تمھاری
تعداد محض سترہ تھی ۔ تمھاری اس طرح کی تاءسف ناک اموات پر کسی کے کانوں پر
جوں تک نہ رینگی۔ 22 جون بروز پیر تک تعداد 132 تک جا پہنچی ۔ پھر بھی سب
چپ سادھے بیٹھے رہے ۔ جیسے تمھاری موت ، کسی انسان کی نہیں ، جانور کی موت
ہو ۔ 23 جون بروز منگل تک تعداد بڑھتے بڑھتے 261 تک جا پہنچی ۔ اب سیاست
دانوں کی طرف سے جارح بیان بازی اور الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ وفاق
، صوبائی حکومت کو کوسنے لگا اور صوبائی حکومت وفاق اور کے ۔ الیکٹرک دونوں
کو ۔ مگر عملی میدان اب بھی خالی رہا ۔ کوئی اس میدان میں اترنے کو تیار
نہیں تھا ۔ 24 جون بروز بدھ کو غضب ہو گیا ۔ تمھاری تعداد 784 ہو گئی ۔
اپوزیشن کو تم پر رحم آیا ۔ سو اس نے جمعۃ المبارک کو یوم ِ سوگ منانے کا
اعلان کر دیا ۔ خیر سے اب بھی عملی میدان خالی رہا ۔ احتجاج ، بیان بازی
اور یوم ِ سوگ ۔۔۔ میرے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کے دامن میں تمھارے
لیے بس یہ تین ہی چیزیں تھیں اور ہیں ۔ اگر پہلے سے ہی ہر ایک عملی میدان
میں اتر کر اپنے اپنے کام سر انجام دیتا تو تمھاری تعدا د 784 تک کیوں کر
پہنچتی ؟ 25 جون بروز جمعرات تک تمھاری تعداد میں 238 کا اضافہ ہوا ۔ یوں
تمھاری تعداد 1022 ہو گئی ۔ یعنی عملی میدان اب بھی خالی ۔آج کا اخبا ر
بتاتا ہے کہ تمھاری تعداد 1131 ہوگئی ہے ۔ لیکن حکم ران اب بھی بیان بازی
میں لگے ہوئے ہیں ۔ کیا اس سے بڑا بھی کوئی ظلم ہوگا ؟
اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنانِ بہشت ! جب میں انسانیت کا اپنوں کے
ہاتھوں یوں قتل ِ عام دیکھتا ہوں تو بے ساختہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق
ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ یاد آجاتے ہیں ۔ انھوں نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر
میرے دور ِ حکومت میں دریائے نیل کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو
قیامت کے دن مجھ سے اس کتے کی موت کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔بلا شبہہ
انھوں نے اپنے اس قول کے ذریعے انداز ِ جہاں بانی کا ایک سنہری اصول طے کر
دیا ۔ آنے والے حکم رانوں کو سمجھا دیا کہ اچھا بادشاہ وہ ہوتا ہے ، جو
انسان کیا ، جان ور کی موت کو بھی اپنے لیے قابل ِ گرفت سمجھتا ہے۔ مگر
یہاں انسانوں کے انسان مر رہے ہیں ۔ کوئی بھونچال نہیں آیا ۔ کسی نے
استعفٰی نہیں دیا ۔ کسی نے اقتدا ر نہیں چھوڑا ۔ کوئی کرسی سے نہیں اٹھا ۔
کسی نے یہ نہیں سوچا کہ قیامت کے دن تمھاری موت کے بارے میں اگر احکم
الحاکمین نے پوچھ لیا تو کیا جواب دے گا ۔ سب مزے لے لے کر بیان بازی میں
مصروف ہیں ۔ تمھاری ہلاکت نے تو اہل ِ اقتدا کی سیاست کے وارے نیارے کر دیے
۔ اب تمھاری ہلاکتوں پر خوب سیاست ہوگی ۔ تم نے جان دے کر بھی ان کا بھلا
کر دیا ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمھاری ہلاکتوں کے مسئلے کو اپنی سیاست کے
لیے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنان ِ بہشت !تمھاری زخموں کے اندمال کے لیے
کسی سیاست دان ، کسی حکم ران ، کسی مذہبی عالم ، کسی این جی او، کسی خیراتی
ادارے کے پاس مرہم نہیں ہے ۔ سوائے ایدھی اور چھیپا کے رضا کاروں کے ۔ جب
تم بستر ِ مرگ پر آخری سانسیں لے رہے تھے تو حکام ِ بالا میں سے کسی کو
توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنا اے سی کا کمرہ چھوڑ کر تمھارے پاس آتا ۔ تمھیں
دلاسا دیتا ۔ نہیں نہیں ۔۔ نرم و گداز عادت اور جسم کے مالک یہ نمائندگان ِ
ملک کیوں کر 45 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں باہر نکلتے ۔ جب درجہ ِ حرارت
ذرا تھما تو کچھ لوگ آئے اور بیان بازیاں کرتے ہوئے فی الفور چلے گئے کہ
کہیں درجہ ِ حرارت بڑھ نہ جائے ۔ در اصل آج کل کچھ سیاسی جماعتوں پر افتاد
آن پڑی ہے ۔انھیں تم سے زیادہ اپنی پارٹیوں کا دفاع عزیز ہے ۔ وہ تم سے
زیادہ اپنی پارٹیوں کو مقدم رکھتے ہیں ۔ان کے پاس اپنی پارٹیوں کے دفاع کے
لیے تو وقت ہے ۔ مگر تمھارے لیے بالکل نہیں ہے ۔
اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنان ِ بہشت ! تمھاری تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔
جو تمھاری موت کے حقیقی ذمہ دار ہیں وہ ضرور بالضرور اپنے انجام کو پہنچیں
گے ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ جہاں رحمان و رحیم ہے ، وہاں وہ وہ منصف ِ حقیقی
بھی ہے ۔ |