ایگزیکٹ ، الخیر ،کافی ہاؤس اور کمشنر

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیاۃ الصحابہ ؓ میں لکھتے ہیں کہ انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے مجھ سے پوچھا جب تم کسی شہر کا محاصرہ کرتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟میں نے کہا ہم شہر کی طرف کھال کی مضبوط ڈھال دے کر کسی آدمی کو بھیجتے ہیں ۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا ذرا یہ بتاؤ اگر شہر والے اسے پتھر ماریں تو اس کا کیا بنے گا ؟میں نے کہا وہ تو قتل ہو جائے گا ۔عمر ؓ نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہو گی کہ تم لوگ ایک ایسے مسلمان کی جان ضائع کر کے ایسا شہر فتح کر لو جس میں چار ہزار جنگجو جوان ہوں ۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں ایک مسلمان کو کافروں کے ہاتھ سے چھڑالوں یہ مجھے سارے جزیرہ العرب (کے مل جانے )سے زیادہ محبوب ہے ۔

حضرت ابو الحسن ؓ بیعت عقبہ میں بھی شریک ہوئے تھے اور جنگ بدر میں بھی ۔وہ فرماتے ہیں ہم لوگ حضور ؐ کے پاس بیٹھے تھے ایک آدمی کھڑا ہو کر کہیں چلا گیا اور اپنی جوتیاں وہاں ہی بھول گیا ۔ایک آدمی نے وہ جوتیاں اٹھا کر اپنے نیچے رکھ لیں وہ آدمی واپس آ کر کہنے لگا میری جوتیاں (کہاں ہیں ؟)لوگوں نے کہا ہم نے تو نہیں دیکھیں (تھوڑی دیر وہ پریشان ہو کر ڈھونڈتا رہا )پھر اس کے بعد جس آدمی نے چھپائی تھیں اس نے کہا جوتیاں یہ ہیں ۔اس پر حضور ؐ نے فرمایا مومن کو پریشان کرنے کا کیا جواب دو گے ؟اس آدمی نے کہا میں نے مذا ق میں چھپائی تھیں ۔حضور ؐ نے دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا مومن کو پریشان کرنے کا کیا جواب دو گے ؟حضرت عامر بن ربیعہ ؓ فرماتے ہیں ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی جوتی لے کر مذاق میں غائب کر دی کسی نے اس اس کا تذکرہ حضور ؐ سے کیا آپ ؐ نے فرمایا کسی مسلمان کو پریشان مت کرو کیونکہ مسلمان کو پریشان کرنا بہت بڑا ظلم ہے ۔

قارئین ! آج کے کالم کی تین چار حصے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ مختصراً دل کی بات آپ کے سامنے رکھ دیں۔قومی میڈیا پر چند ماہ سے بول میڈیا گروپ کے حوالے سے بہت ر نگین اور سنگین قسم کی باتیں ورکنگ جرنلسٹس اور عوام الناس تک پہنچ رہی تھیں۔شعیب شیخ ایک ایسی شخصیت کے طور پر ابھر رہے تھے کہ جو اربوں ڈالرز اثاثہ جات کے مالک سمجھے جا رہے تھے ان کے بارے میں سرگوشیوں میں یہ باتیں پورے پاکستان میں زیر بحث رہتی تھیں کہ ایک انتہائی غریب گھرانے میں جنم لینے والا یہ نوجوان کس طریقے سے آئی ٹی کی دنیا کا شہنشاہ بن کر یکدم سامنے آیا اور اس کے پیچھے کون کون سے ہاتھ ہو سکتے ہیں۔ شعیب شیخ کے بارے میں مختلف انکشافات اس وقت ہونا شروع ہوئے جب انھوں نے پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ’’بول ‘‘ کے نام سے شروع کر نے کا اعلان کیا ۔ اتفاق سے حامد میرپر قاتلانہ حملے کے بعد جب جیو میڈیا گروپ کی طرف سے آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی کے بارے میں کچھ غیر محتاط رپورٹنگ کی گئی تو جیو میڈیا گروپ زیر عتاب آ گیا۔ سونے پر سہاگہ ڈاکٹر شائستہ لودھی نے مارننگ شو کر نے کے دوران جب ایک غیر محتاط پروگرام کیا تو جیو میڈیا گروپ مزید پریشر میں آگیا انھی دنوں بول میڈیا گروپ کو جیو میڈیا کے کنگ کامران خان نے بحیثیت سربراہ جوائن کر لیا ۔افتخار احمد بارش کا اگلا قطرہ ثابت ہوئے اور اس کے بعد بول میڈیا گروپ نے جیو سے لے کر پاکستان کے تمام میڈیا ہاوسز سے سینکڑوں کی تعداد میں ورکنگ جرنلسٹس ، ٹیکنیکل ٹیم اور ہر طرح کے پروفیشنلز دگنی ،تگنی یا اس سے بھی زیادہ تنخواہیں دے کر ہائر کر لیے۔یہ صورتحال تمام میڈیا ہاوسز کے لیے حیران کر دینے والی تھی کہ آخر بول میڈیا گروپ کے پا س ایسی کون سی جادو کی چھڑی ، چراغ والا جن یا سونے کا انڈہ دینے والی ـــ’’مرغیاں‘‘ ہیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے چینل شروع ہونے سے پہلے ہی اتنی بڑی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔چند سنجیدہ ٹی وی اینکرز سے راقم کی گفتگو بھی اس حوالے سے ہوتی رہی اور ان دوستوں کا یہ کہنا تھا کہ ان کی سمجھ سے بھی یہ تمام کھیل بالاتر ہے۔اچانک میڈیا پر بول چینل کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کو فنانس کرنے والی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کے متعلق یہ خبریں بریک ہونا شروع ہوئیں کہ شعیب شیخ اور ایگزیکٹ کی تمام ٹیم پوری دنیا میں جعلی ڈگریاں فروخت کرنے کا دھندہ کرتی ہے اس خبر کے سامنے آتے ہی بول میڈیاگروپ کے ستائے ہوئے میڈیا ہاوسز نے سب سے پہلے تو بغلیں بجائیں اور پھر اس کے بعد ایگزیکٹ اور بول میڈیا گروپ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی ۔ مشکل وقت میں جیو گروپ کو چھوڑنے والے کامران خان ایک مرتبہ پھر روایت برقرار رکھتے ہوئے بول میڈیا گروپ کو گڈ بائے کر گئے۔اور ان کے متعلق سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر شدید ترین تنقیدی بحث کی گئی کہ کامران خان 2000سے زائد ورکنگ جرنلسٹس کے خاندانوں کے لیے تباہی کا پیغام بن کر سامنے آئے ہیں اور انہیں ان دوہزار سے زائد صحافیوں کے ساتھ ہی رہنا چاہیے تھا جو بظاہر شدید طوفانوں میں گھرے ہوئے بول میڈیا گروپ کے جہاز میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اختلافات کی آندھیوں اور طوفانوں کے سمندر میں غرق ہونے کو ہیں۔ خیر کامران خان نے اخلاقی حرکت کی یا غیر اخلاقی حرکت یہ وہ جانتے ہوں گے یا ان کا ضمیر جانتا ہو گا۔ہمیں اس وقت غرض دو ہزار سے زائد ورکنگ جرنلسٹس کے خاندانوں کے ساتھ ہے اور اسی طرح ایگزیکٹ گروپ سے وابستہ ان آئی ٹی پروفیشنلز کے ساتھ ہے کہ جن کی تعلیم اور عقل کو غلط طریقے سے استعمال کیا گیا اگر ایگزیکٹ پر لگائے جانے والے الزامات درست ہیں اور اگر یہ الزامات ہی غلط ہیں تو پھر ریاست بہت بڑی گناہ گارہے کہ جس نے ماہانہ ایک ارب ڈالر کی ’’کمائی کرنے والے کماؤ پتر‘‘ کو الزامات کا نشانہ بنا کر عبرت کا نشان بنا دیا۔ ابھی تک آنکھ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے۔اگلے کالم میں ہم چند مزید حقائق آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ یہاں بقول چچا غالب کہتے چلیں۔
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ ،قبلہ ء حاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ،اک اور شخص پر
آخر ،ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد،اے فلک !دل ِحسرت پرست کی
ہاں ،کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط ہے ،کس رو سیاہ کو؟
اک گو نہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے
ہے رنگِ لالہ وگل و نسریں جداجدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بیخودی
رو سوئے قبلہ وقت ِ مناجات چاہیے
یعنی ،بہ حسبِ گردشِ پیمانہ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مے ذات چاہیے
نشوونما ہے اصل سے ،غالب ! فروغ کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے ،جو بات چاہیے

قارئین اب چند باتیں ہم ’’ الخیر یونیورسٹی ،کافی ہاؤس اور کمشنر میرپور ڈویژن راجہ امجد پرویز علی خان ‘‘ کے متعلق کرتے چلیں ۔

الخیر یونیورسٹی کے متعلق تو ہر کوئی جانتا ہے کہ آزادکشمیر میں آج سے تقریباً پچیس سال پہلے یہ یونیورسٹی پرائیویٹ سیکٹر میں قائم کی گئی ہم آپ کو خود تک پہنچنے والی اطلاعات پہنچائے دیتے ہیں ڈاکٹر امتیاز اقدس گورائیہ الخیر یونیورسٹی کے مالک بھی ہیں اور وائس چانسلر بھی ہیں ۔آپ نے بزنس میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے اس وقت نیشنل اکیڈیمک کونسل اسلام آباد جیسا اہم اور اچھی شہرت رکھنے والا ادارہ الخیر یونیورسٹی کے ساتھ اشتراک کر کے تعلیم کے شعبے میں کام شروع کر چکا ہے ۔نیشنل اکیڈیمک کونسل اسلام آباد کے چیئرمین پروفیسر سردار عامر عباسی اور شعبہ تعلیم کے پی ایچ ڈی سکالر ڈاکٹر شفیق کاکا خیل سے بھی ہماری تفصیلی ملاقاتیں ہو چکی ہیں الخیر یونیورسٹی میرپور میں اپنا ادارہ بہتر اندا ز میں تعلیم کے میدان میں لوگوں کے سامنے لانا چاہتی ہے الخیر یونیورسٹی کا مرکز کیمپس اس وقت بھمبر میں موجود ہے اور ان لوگوں کی خواہش ہے کہ میرپور میں بھی چند شعبے قائم کیے جائیں ۔

اس سیاق و سباق کو بیان کرنے کا ایک خاص مقصد ہے آج سے چند روز قبل ہمیں کمشنر میرپور ڈویژن راجہ امجد پرویز علی خان نے اچانک اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے کہا کہ ’’ آپ پڑھے لکھے اور ذوق رکھنے والے انسان ہیں اور میری خواہش ہے کہ آپ ہماری آفیسرز کلب کی تنظیم میں شامل ہو کر ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے ایک ادارہ تشکیل دیں اور میرپور کی ثقافت ،شاعری ،موسیقی اور شخصیات کے حوالے سے کام کریں ‘‘ کمشنر میرپور راجہ امجد پرویز علی خان کی اس خواہش کا ذکر ہم نے الخیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر امتیاز اقدس گورائیہ اور نیشنل اکیڈیمک کونسل کے ذمہ داران پروفیسر عامر عباسی اور ڈاکٹر میاں شفیق کاکا خیل سے کیا انہوں نے اس تمام مشق کو ایک مثبت ایکٹیویٹی قرار دیتے ہوئے اسے سپانسر کرنے کا اعلان کر دیا ۔کمشنر راجہ امجد پرویز علی خان کی خواہش پر آفیسر ز کلب میں ’’ میرپور کافی ہاؤس ‘‘ تشکیل دیا گیا جس کے پیٹرن انچیف راجہ امجد پرویز علی خان ،سرپرست پروفیسر ارشد عادل راٹھور ،صدر ڈاکٹر سی ایم حنیف ،جنرل سیکرٹری راقم الحروف ،سینئر نائب صدر ڈاکٹر امجد محمود ،نائب صدر اول ڈاکٹر ریاست علی چوہدری ،نائب صدر دوم سٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان ایف ایم 93چوہدری محمد شکیل ،جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر طاہر محمود اور کوآرڈینٹر پرنسپل گورنمنٹ کلیال کالج پروفیسر صغیر آسی قرار پائے ۔ہم نے دو معروف مزاحیہ شعراء پروفیسر خالد مسعود اور پروفیسر سرفراز شاہد سے رابطہ کیا قصبہ مختصر میرپور کافی ہاؤس آفیسرز کلب کے زیر اہتمام یہ مزاحیہ مشاعرہ رواں ہفتے منعقد ہوا جس سے سینکڑوں کی تعداد میں بچے خواتین و حضرات محظوظ ہوئے ۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کمشنر میرپور ڈویژن راجہ امجد پرویز علی خان نے کہا کہ الخیر یونیورسٹی آزادکشمیر کے وائس چانسلر ڈاکٹر امتیاز اقدس گورائیہ ،نیشنل اکیڈیمک کونسل اسلام آباد کے چیئرمین پروفیسر سردار عامر عباسی نے جس طریقے سے میرپور میں ادبی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے انتظامیہ کا ساتھ دینے کا عملی ثبوت دیا ہے اس پر انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کسی بھی علاقے کی ثقافت ،شاعری ،موسیقی اور مختلف معاشرتی قدروں کو فروغ دینے کے لیے جو ادارے کام کرتے ہیں وہ کسی بھی مملکت کے لیے سب سے بڑا اثاثہ ہوتے ہیں ۔ آفیسرز کلب میرپور کی ادبی وثقافتی تنظیم ’’میرپور کافی ہاوس‘‘ نے میرپور کی سرزمین پر بین الاقوامی شہرت یافتہ مزاحیہ شعراء پروفیسر خالد مسعود اور پروفیسر سرفراز شاہد کو بلوا کر انتہائی کامیاب مشاعرہ کروایا ہے اور اہل میرپور نے بہت بڑی تعدا د میں اس مزاحیہ مشاعرے میں شرکت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ رومی کشمیر میاں محمد بخشؒ کی سرزمین کے رہنے والے نہ صرف اچھے میزبان ہیں بلکہ بہترین ادبی ذوق کے مالک بھی ہیں۔مزاحیہ مشاعرے کی کامیابی میں صدر میرپور کافی ہاوس ڈاکٹر سی ایم حنیف ، پروفیسر ارشد راٹھور، ڈاکٹر امجد محمود، ڈاکٹر طاہر محمود، ڈاکٹر ریاست علی چوہدری اور تمام ٹیم کے علاوہ الخیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر امتیاز اقدس گوارئیہ اور پروفیسر عامر سمیت تمام منتظمین کو دلی مبارکباد پیش کرتاہوں۔آفیسرز کلب میرپور کی ادبی وثقافتی تنظیم میرپور کافی ہاوس کی مجلس مشاعرہ میں مہمان شعراء خالد مسعود اور سرفراز شاہد نے دو گھنٹے تک اہل میرپور کے سامنے اپنا کلام پیش کیا۔سینکڑوں کی تعداد میں خواتین وحضرات نے مزاحیہ مشاعرے میں شرکت کی اور شعراء کو زبردست داد دی۔تقریب میں ڈویژنل ڈائریکٹر کالجز پروفیسر طاہر نور، چیئرمین تعلیمی بورڈ چوہدری ظہیر ، اے ڈی سی جی فاروق اکرم ،سابق کمشنر راجہ فضل الرحمن، سابق ڈپٹی کمشنر چوہدری ارشد، اسٹیشن ڈائریکٹر ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر چوہدری شکیل ، سابق صدر کشمیر پریس کلب میرپور سید عابد حسین شاہ، سابق جنرل سیکرٹری سجاد جرال،جنرل سیکرٹری پریس کلب شجاع عزیز جرال، سینئر صحافی سردار عابد ، سینئر صحافی ظہیر اعظم جرال ، صدر کشمیر بلڈ بینک محمد عظیم خان ، ڈاکٹر عبدالحمید خواجہ کے علاوہ دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔مشاعرے کی تقریب میں مقامی شعراء لالہ فاروق، پروفیسرعابد حسین عابد، پروفیسر صغیر آسی پرنسپل گورنمنٹ کالج کلیال، محمد آفاق کے علاوہ دیگر نے بھی کلام پیش کیا۔ تقریب کے دوران شرکاء تالیاں بجابجا کر داد دیتے رہے۔ شرکاء تقریب کو مشروبات اور اشیائے خوردونوش دینے کا سلسلہ اختتام تک جاری رہا۔

قارئین آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ وہی علم فائدہ مند ہے کہ جس سے مخلوق خدا سے فیض یاب ہو جس علم کے نتیجے میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی جیسے شہر قبرستان بن جائیں اس علم کو ہر گز علم ِنا فع نہیں کہا جا سکتا ۔آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
وکیل نے ایک جیب کترے کا مقدمہ اتنی محنت سے لڑا کہ مجرم جیب کترے کو رہا کروا لیا
جیب کترے نے شکریہ ادا کرتے ہوئے وکیل صاحب سے فیس پوچھی
وکیل صاحب نے جب بل پیش کیا تو جیب کترے نے بل دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا
’’ وکیل صاحب آپ بھول رہے ہیں جیب کترا میں ہوں آپ نہیں ‘‘

قارئین سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے اس زہریلے موسم میں خرد کام نہیں کرتی کہ کس پر یقین کریں اور کس کو دھوکہ باز جانیں ۔ایگزیکٹ کی کہانی ابھی سامنے آنی ہے لیکن ہمیں میرپور کافی ہاؤس ،الخیر یونیورسٹی ،کمشنر میرپور کو سلام پیش کرنا ہے کہ جنہوں نے مٹتی ہوئی قدروں اور روایتوں کو زندہ کرنے کی ایک عملی کوشش تو کی ہے ۔اندھیرا دور ہو نہ ہو یہی بہت ہے کہ کسی نے چراغ تو جلایا ہے ۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 332991 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More