مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے دو سال اور چیلنجز

وزیراعظم نواز شریف مئی 2013ء میں اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی اقتصادی و معاشی صورت حال سنوارنے کے لیے مسلسل کو ششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کی جہد مسلسل کی بدولت آج ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ان کی حکومت کے میگا پراجیکٹس میں46بلین ڈالر کا پاک چین راہداری معاشی منصوبہ سرفہرست ہے جس سے پاکستان کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک دفعہ اس منصوبے پر عملددرآمد ہوگیا تو چاروں صوبوں میں ترقی کی رفتارانقلابی شکل اختیار کرلے گی۔علاوہ ازیں راولپنڈی اسلام آبادمیٹرو بس منصوبہ بھی حکومت کی نیک نامی میں اضافہ کا باعث بنا ہے ۔ روزانہ ہزاروں لوگ میٹرو بس سے سفر کرتے ہیں جن سے ان کے سفری اخراجات میں کمی کے ساتھ ان کے وقت کی بھی بچت ہوئی ہے۔اگر حکومت کو ’’لندن پلان‘‘کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو ملک کہیں آگے نکل چکا ہوتا۔وزیراعظم نے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی بھر پور حمایت سے پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے جو عالمی سازش ایجنڈے پر کام کررہی تھیں اسلام آباد میں کئی مہینے دھرنا دے کر سیاسی بحران پیدا کیا اور ملک کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کی۔چار ماہ کے سیاسی خلفشار کے دوران ملک کا بہت بڑا اقتصادی نقصان ہوا۔چینی صدر کا دورہ منسوخ ہونے سے سفارتی حلقوں میں پاکستان میں سلامتی کی صورت حال پر چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ تاہم حکومت نے اس عر صے کے دوران استقامت کا مظاہرہ کیا اور کوئی ایسا سخت قدم نہیں اٹھایا جس سے معاملہ مزید بگڑ جائے۔یہ بات بھی مد نظر رہے کہ جب نواز حکومت نے اقتدار سنبھالا تو معیشت تباہ حال اور ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا تھا جس سے نہ صرف صنعتی ترقی کی رفتار بہت سست ہوگئی تھی بلکہ بے روزگاری بھی بڑھ گئی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اذیت میں مبتلا تھے۔معاشی نمو تین فی صدسے نیچے گر چکی تھی۔افراط زر کی شرح دس فی صد سے تجاوز کرگئی تھی،شرح سود بہت بلند سطح پر جاپہنچی تھی،بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 8.8فی صد کے برابر ہوچکا تھا۔سرمایہ کاریوں کا گراف تنزلی کا شکار تھا۔زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہورہے تھے اور ملک آئی ایم ایف کے سابقہ قرضوں کے باعث ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھا۔پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے توانائی بحران پر قابو پانے کو اولین ترجیح دی اور 500 بلین روپے کے سرکلر قرضے کو چکانے میں کوئی تاخیر نہیں کی جو بجلی کی کم پیداوار کا بڑا سبب تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سسٹم میں 1700 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوگیا اور لوڈ شیڈنگ کی صورت حال کا فی حد تک بہتر ہوگئی۔حکومت نے بجلی کی مستقبل کی ضرورتیں پوری کرنے کی غرض سے بجلی کی پیداوار ی صلاحیت بڑھانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ گڈانی میں انرجی پارک کے قیام پر کام شروع ہوچکا ہے جہاں کوئلے سے 6600میگاواٹ بجلی پیداکی جائے گی اس مقصد کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پر کشش ترغیبات دی گئی ہیں۔ چین نے اگلے پانچ برسوں کے دوران بجلی کے شعبہ میں 6 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں جوہری پاور پلانٹ کاسنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ چین اس پاور پلانٹ کے لیے فنی و مالی معاونت فراہم کرے گا اور اس سے 2017 تک 2200 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔تیل سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹوں کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹوں میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ تیل پراٹھنے والے اخراجات کم کیے جاسکیں اور لوگوں کو سستی بجلی فراہم کی جاسکے۔اس کے علاوہ بہاولپور میں دنیا کا سب سے بڑا سولر پاور اسٹیشن قائم کیا گیا جو یقینا بہت جلد توانائی میں اپنا حصہ ڈالے گا۔

حکومت نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دلانے کے لیے زبردست کاوشیں کیں جو کامیابی سے ہم کنار ہوئیں۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کو GSPکا درجہ ملنے سے اس کی یورپی ملکوں میں ٹیکسٹائل برآمدات بڑھ کر دو بلین امریکی ڈالر کے برابر ہوجائیں گی۔ حکومت نے افراط زر کی شرح پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں اس کے نتیجہ میں افراط زر کی شرح 9فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے اور شرح نمو بڑھ کر4.4فیصد ہوگئی ہے جو اس سے پہلے 3 فیصد تھی۔برآمدات میں 2.73فیصد اور بیرونی ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم میں 13.7فی صد اضافہ ہوا ہے۔روپے کی قدرمیں مسلسل کمی کا رجحان رک گیا ہے مالیاتی وصولیاں 2226 بلین روپے تک جاپہنچی ہیں جو پہلے 1946بلین روپے تھیں۔ اس طرح ان میں16.44فیصد اضافہ ہوا ہے۔بجٹ خسارے کو 8.8فی صد سے کم کر کے 5.5فیصد تک لایا گیا ہے۔تجارتی خسارے میں 2.55فیصد کمی ہوئی ہے ان کامیابیوں کی تصدیق آئی ایم ایف اور عالمی بنک بھی کرچکا ہے۔ حکومت نے کامیابی کے ساتھ دوبلین ڈالر کے یورو بانڈ اری کیے ہیں۔3Gاور4Gکی ریڈیو سپیکٹرم کی نیلامی ہوئی جس سے ایک سوبیس بلین روپے کا ہدف حاصل کیا گیا گزشتہ حکومت نے یہ ہدف 79 بلین روپے مقرر کیا تھا۔عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک جو مالی امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے ہیں ،نے سات سال بعد پاکستان میں اپنی معمول کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردی ہیں جو حکومتی پالیسیوں پر ان کے اعتماد کی مظہر ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات بھی بڑے روشن ہیں اور پاکستان میں توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے لیے بعض امریکی کمپنیوں سے بات چیت چل رہی ہے۔

حکومت کو دہشت گردی کے واقعات کابھی سامنا رہا لیکن مؤثرحکومتی اقدامات کے باعث ان واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔دہشت گردی کے کل 368واقعات ہوئے جن میں سیکورٹی فورسز کی جوابی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ ان واقعات میں 851 شہری اور 320 سیکورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے جب کہ 2647 دہشت گرد مارے گئے۔ 2000سے زائد افراد زخمی ہوئے۔دہشت گردی کے واقعات میں سفاک ترین آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ تھا جس میں 132 بچوں سمیت 142 افراد کو شہید کردیا گیا۔اگرچہ پاکستان ائیر فورس شمالی وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں جہاں کہیں ضرورت پڑتی ہے تحریک طالبا ن پاکستان کے خفیہ ٹھکانوں اور دوسرے اہداف کو نشانہ بناتی رہی ہے لیکن باقاعدہ حملوں کا آغاز کراچی ائیر پور ٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد کیا گیا جس کو ضرب عضب کا نام دیا گیا۔ 15 جون سے شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے جن کو آئی ڈی پیز کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے صلاح مشورے سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مزاکرات کا عمل بھی شروع کیا تھا لیکن مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے مسلسل واقعات اور ان کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث یہ مذاکرات ختم کرنے پڑے۔

آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبر میں زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور 90 فی صد علاقے دہشت گردی سے پاک کردیے گئے ہیں اور اب بے گھر افراد کی ان کی گھروں کو واپسی کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ ملکی تاریخ میں پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کا واقعہ ایک ایسا موڑ تھا جس نے پوری قوم کو دہشت گردوں کے خلاف متحد کر دیا تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک صف میں کھڑی ہوگئیں اور وزیر اعظم کا پورا ساتھ دیا۔ وزیرعظم نوازشریف نے ماضی کی طرح تمام پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کی ایک میٹنگ بلائی تاکہ دہشت گردی کی کاروائیوں کا مناسب جواب دیا جاسکے۔وزیراعظم نے افغان صدر سے اس معاملے پر بات کی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف فورا کابل پہنچے اور اس بارے میں ثبوت پیش کیے کہ حملہ آوروں کا تعلق افغان سرزمین سے تھا۔افغان صدر اور ایساف(ISAF)کمانڈر دونوں نے پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور افغان سرزمین پر موجود تحر یک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے خاتمہ کا عزم کیا۔اسی دوران صوبہ کنٹر میں ڈرون حملے اور زمینی کارروائیاں کی گئیں جن میں 21 دہشت گرد مارے گئے۔ کابل جانے سے پہلے جنرل راحیل شریف نے امریکہ کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کی افواج کے مابین تعلقات اور تعاون کو نئی جہت دی اور آپریشن ضرب عضب کے بارے میں امریکیوں کی غلط فہمیاں دور کیں۔وزیر اعظم نے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی تجدید نو کی۔جس کے بعدافغان صدر نے پاکستا ن کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف مل جل کر جنگ لڑنے اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کا عہد کیا۔ ایساف کمانڈر اور افغان آرمی چیف نے بھی 23 دسمبر کو اسلام آباد کا دورہ کیا اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کے امور پر بات چیت کی۔افغانستان اور امریکہ کی طرف سے یقین دہانی پر ضرب عضب میں شدت پیدا ہوئی جس کے خاطر خوا نتائج برآمد ہوئے۔دریں اثنا حکومت ،فوجی و سیاسی قائدین نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایک ایکشن پلان پر اتفاق کیا ہے جس پر کامیابی سے عمل درآمد جاری ہے یہ اس ایکشن پلان کا ثمر ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اورقتل و غارت رک گئی ہے اور معمول کی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔شدید گرمی سے میں لوڈشیڈنگ جاری ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس میں وہ شدت نہیں جو سابقہ دور حکومت میں تھی۔ حکومت نے اس سلسلے میں جو منصوبے شروع کئے ہیں ان کے ثمرات جلد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ شیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی استحکام آیا ہے بلکہ زرعی پیداوار میں اضافہ کی بدولت کئی اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ملک میں امن و امان کی مجموعی صورت حال پہلے سے بہت بہتر ہے۔ خودکش حملے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ملک کے حساس علاقوں میں دہشت گردوں کا چن چن کر صفایا کر دیا گیا ہے۔ڈکیتی،چوری،راہزنی کی وارداتوں میں کمی ہوئی ہے۔تاہم ابھی بھی بہت سے شعبوں میں بہتری لانے کی وسیع گنجائش موجود ہے جس پر موجودہ حکومت توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ملک دشمنوں کو حکومت کی یہ کامیابیاں ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لیے وہ شازشوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں لیکن عوام ان کی چالیں سمجھ چکے ہیں وہ ان شازشوں کا کبھی حصہ نہیں بنیں گے بلکہ ملکی تعمیر و ترقی میں حکومت کا ساتھ دینے کو ترجیح دیں گے کیونکہ اس میں ان کی اور آنے والی نسلوں کی بھلائی ہے۔

Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.