کراچی گرمی سے موت کا شکارافراد
کی تعداد 1100سے تجاوئز کر گئی- اخبارات کی سرخیاں۔ حتمی عداد معلوم نہیں ،
اس سے بہت ذیادہ اموات ہوئی ہیں، یہ بہت بڑا نمبر ہے ، کیا آپ آسانی سے ان
بے گناہوں کی موت بھلا سکتے ہیں۔ نہیں, بالکل بھی نہیں۔ ان اموات کا کون
کون ذمہ دار ہے، کیا ہم صرف اس کو اللہ پاک کی مرضی قرار دیں ۔ روزہ میں
شہید کی موت قرار دیں۔ کیا ہم اسطرح اپنی جان چھڑا سکتے ہیں۔ نہیں نہیں،
ہرگز نہیں۔ ایک گہرا کرب ہے میرے اس "نہیں" کہنے میں ہے۔ اسے آپ بھی محسوس
کر سکتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہوں تھے ، جو یوں انتقال کر گئے ۔ یہ مزدور تھے،
یومیہ اجرت والے تھے۔ کھولی جگہ میں کام کرنے والے تھے۔ ضروری کام سے جانے
والے تھے۔ وہ لوگ تھے جنھیں ٹھنڈا سایہ نہ ملا۔ جنھیں پانی نہ ملا ۔ جنھیں
ٹھنڈی ہوا نہ ملی۔ مریض اور بیمار لوگ تھے - یہ غریب بوڑھے ، بچے، عورت ،
مردتھے جو ناگہانی موت مارے گئے۔ ان اموات کا ذمہ دار کون ہے۔
1۔ انتظامیہ
2- کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ
3۔ کے- الیکٹرک
4۔ بلدیہ کراچی
5- ہمارے شوشل ادارے۔
6۔ ہسپتال اور ڈسپینسریاں
7۔ ڈراسٹک مینجمٹ بورڈ
کراچی انتظامیہ نے کبھی پینے کے پانی کو ہر جگہ پہچانے کی کوئی سچی کوشش
نہیں کی۔ نہ درخت لگائے۔ نہ سائبان بنائے۔ نہ بس اسٹاپ بنائے نا بنوائے -
یہ اتنی بڑی بڑی ٹراسپورٹرز کی تنظیمیں ہیں- کبھی ان سے کہا کہ بس اسٹاپ
بناوء ۔ پانی کا بندوبست کرو۔ نہیں، پر کیوں نہیں۔یہ کمیشنر ، ڈپٹی
کمیشنرز، یہ اسسیٹینٹ کمیشنرز، یہ مختار کار ز یہ سب کیا کر رہے تھے یہ
کیوں نہیں صورت حال کو سنبھال سکے - ان سب نے کیا اقدام کیئے ، ان اموات کے
یہ ذمہ دار کیوں نہیں۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ٹینکر مافیا کو جنم دیا ہے۔ جو کراچی کا
پانی کراچی والوں کو ہی فروخت کر رہی - اس کا اسٹاف مصنوعی پانی کی قلت
پیدا کر رہا ہے۔ اور بہانے بازی کر رہا ہے۔ پانی کی لائن وال بند کر دیتے
ہیں۔ پیسے لیتے ہیں پھر بڑے نخرے سے کچھ عرصہ کے کھولتے ہیں پھر بندکر دیتے
ہیں پھر پیسہ لیتے ۔ پہلے عام لوگ جگہ جگہ از خود ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگا
دیتے تھے۔ مگر اب ان کے پاس خود پانی ہے اور نا بجلی ہے۔یہ لوگ خود پانی
بجلی کہ لیئے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ اتنا پانی کراچی واٹربورڈ کے پاس ہے
کہ وہ سب کو پانی پلا سکتاہے۔ پھر کیوں پانی کے لیئے لوگ بلبلا رہے ہیں ۔
واٹر بورڈ کے لوگ کس کس طرح حیلے بہانے لوگوں کے جائز کام کو ٹالتے ہیں اور
پیسہ بٹورتےہیں ، یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انتظامیہ کیوں سوئی ہوئی
ہے۔لگتا ہے وہ بھی شریک ہے۔ کیا صرف میٹنگ سے مسائل حل ہوتے ہیں۔اکثر بجلی
فیل ہونے پر یہ پانی کی سپلائی بند کردیتے ہیں ۔ آج تک یہ اپنے الیکٹرک
جرنیٹر نہیں لگا سکے۔ پہلے بھی تو ہر پمپینگ اسٹیشن پر ڈیزل انجن چلا کر
پانی سپلائی کیا جاتا تھا ۔ اب کیوں نہیں، یہ الیکٹرک جرنیٹر لگاتے۔ یہ خود
ساختہ خرابی ہے چنانچہ واٹربورڈ کے لوگ بھی ان اموات کا ذمہ دار ہیں جس میں
انتظامیہ برابر کی شریک ہے۔
سیوریج کے بارے میں کچھ کہنا ابھی بے کار ہے ۔
کے الیکٹرک کی اپنی دنیا ہے ۔ ان کے پاس ایسی پاور ہے اپنی ہر بات منوالیتے
ہیں ۔کے الیکٹرک مختلف نام سے اور بے نام سے لوڈ شیڈینگ کر رہی ہے۔ یعنی
1. شیڈاولڈ لوڈ شیڈینگ-
2. غیر اعلانیہ لوڈ شیڈینگ۔
3. مرمت کے نام پر لوڈشیڈینگ۔
4. لینک ڈراپ ہونے کے نام پر لوڈ شیڈینگ۔
5. بریک ڈاون وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ شیڈولڈ لوڈشیڈنگ تو بجلی کی کمی کا سارا حساب لگا کر شیڈول
کیا جاتاہے ، پھر باقی لوڈ شیڈینگ کس نام پر ہو رہی ہے اور اس کی بچت بجلی
کہاں جا رہی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈینگ میں کیوں کمی نہیں آ رہی۔ کوئی ان سے
پوچھ سکتا ہے کہ بجلی نہیں ہے تو یہ نئے کنیکشن کیوں دے رہی ہے۔
اگر اس کے پاس بجلی نہیں ہے تو یہ صنعت کاروں پر یہ شرط کیوں لگا رہی ہے کہ
وہ خود پاور جرنیٹ نا کر ے بلکہ کے الیکٹرک کی بجلی ہی استعمال کرے ۔ کے
الیکڑک ڈیولیپمنٹ کے نام پر تانبا کے تاروں کو الیمونیم کے تاروں سے بدل
رہی ہے اور تانبا کے کروڑوں روپے کما رہی ہے۔اس ہی طرح زمین فروخت کا
معاملہ ہے۔
کے الیکٹرک اپنے پاور جنریٹینگ پلانٹ کیوں نہیں چلارہی ۔
کے الیکٹرک کے لگائے ہوئے میٹرکیوں فاسٹ ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔
علاوہ ازیں کے الیکٹرک نے مختلف علاقوں میں PMT کے ساتھ Breaker لگا دیئے
ہیں ، جب بجلی لوڈشیڈینگ کے بعد آتی ہے تو یہ بریکر مسلسل ٹریپ ہو کر بجلی
بند کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوڈ شیڈینگ سے بڑا عذاب ہے۔ لوگوں کا قیمتی سامان جل
جاتا ہے۔ کیا کےالیکٹرک اس کی ذمہ دار نہیں- جو شخص کے الیکٹرک کو مکمل بل
ادا کر رہا ہے ۔ اس کو کس بات کی سزا ددی جا رہی ہے ۔پوش علاقوں میں بجلی
نہیں جاتی ، غریب آبادیوں میں ہی لوڈ شیڈینگ کیوں ہے۔ غریب آبادیوں میں
لوڈشیڈینگ ہی لوڈ شیڈینگ ہے۔
کے الیکٹرک لوگوں کے حقیقی مسائل حل نہیں کر رہی۔ کے الیکٹڑک کا اسٹاف خود
سائل سےکہہ رہا ہے کہ آپ کا مسلہ درست ہے مگر میں نے اس کو صحیح کر دیا تو
مجھے سرپلس پول میں ڈال دیا جائے گا۔
کے الیکٹرک نےاپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ، جس کہ باعث کراچی میں بے شمار
ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ لوگ گھروں میں مر گئے۔ سڑکوں پر مر گئے ۔ ہسپتالوں میں
مر گئے۔ اس کی ذمہ دار کے الیکٹرک نہیں تو کون ہے۔
انتظامیہ کیوں دوسری الیکٹرک کمپنیوں کو کام کر نے کی اجازت نہیں دیتی۔
کیوں ایک کمپنی کی اجارا داری ہے۔
کیوں مسابقت کی اجازت نہیں۔ کیوں اس پرائیوٹ کمپنی کا پولیس اسٹیشن ہے۔
مضافاتی علاقوں میں خاص طور پر بجلی کے بےشمار کونڈے نظر آتے ہیں ، کے
الیکٹرک کیوں ان کنڈوں کو نہیں ہٹاتی، صحیح یہ ہے کہ یہ کونڈے کے الیکٹرک
کی مر ضی سے ہی لگتے ہیں ۔ ماہانہ لیا جاتا ہے۔کے الیکٹرک کو نا ٹیکس ادا
کرنا پڑ تا ہے اور کوئی خرچ ساری بجلی لائن لاسس میں ڈال کر بجلی کی قیمت
بجلی کا بل دینے والوں پر ڈال دیتے یا حکومت سے پیسہ وصول کر لیتے ہیں۔
کے الیکٹرک سندھ الیکٹریکل ایکٹ کی جتنی خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ اس سے پہلے
کبھی نہیں ہوئی۔ چیف انسپکٹر کراچی ریجن سورہا ہے۔ کے الیکٹرک جب معاہدے
میں کیئے گئے، وعدے پورے نا کر سکی تو اس کا مزید کام کرنے کا کیا جواز ہے۔
کیوں حکومت نے اس کمپنی کو اتنی چھوٹ دی ہوئی ہے۔جو لوگ فلیٹوں میں رہتے
ہیں وہ بجلی کے بغیر ایک گھنٹہ بھی نہیں رہ سکتے ۔ سخت گرمی میں بجلی بند
کر کے لوگوں کو مارنے کی ذمہ داری کےالیکٹرک پر ہے۔
بلدیہ کراچی کا کمال یہ ہے ۔ تنخواہیں ہیں ملازم نہیں۔ جو ملازم ہیں ان کی
تنخواہیں نہیں۔ صفائی والوں کے لیئے اس کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ گندگی کی بھر
مار ہے ۔ ہر طرف گندگی ہی گندگی ہے۔ مشینری بے کار پڑی ہے۔ بلدیہ کا کوئی
کام کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ بلدیہ نے کمائی کے مختلف ذریعے بنائے ہوئے ہیں،
اور کرتی کچھ نہیں۔ بلدیہ بتائے 1200 افراد گرمی سے چل بسے ، بلدیہ نے
انھیں بچانے کے لیئے کیا کام کیا- صرف بیان بازی اس کا بھی معلوم نہیں بیان
بازی بھی کی یا نہیں کی یا نہیں ۔ بلدیہ اس کی کتنی ذمہ دار ہے، شاید اسے
خود بھی معلوم نہیں۔
شوشل ادارے - ایدھی ایمولنس سروس۔ یہ چھیپا ایمبولینس سروس - امن فانڈیشن
اور دوسری ایمبولینس سروسس ۔ یہ خدمت خلق ، یہ الخدمت یہ دوسرے ادارے کیا
کر رہے تھے ۔ کیا ٹھنڈا پانی اور نمکول ٹائپ کا کوئی شربت لے کر جگہ جگہ
نہیں جاسکتے تھے ۔ اور بر وقت طبی امدا د دے کر ان اموات کو کم نہیں کر
سکتے تھے کیا یہ ان کا م نا تھا۔ کیا انھوں نے کیمپ لگائے۔ اس میں کیا راکٹ
سائنس تھی ۔ ان لوگوں نے کیا کیا۔ اب مگر مچھ کے آ نسو بہا رہے ہیں۔ انھوں
نے از خود کیا کیا۔ جواب دو۔کھالیں ، زکواۃ فطرہ جمع کر نے والو جواب دو۔
ایدھی بتائے کے اس نے مرنے والوں کی میتوں کو کیوں صحیح طریقہ سے نہیں رکھا
۔ کیوں میتیں گل سڑ رہی تھیں۔
اگر جگہ نہیں تھی تو اس کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا ۔ کراچی میں کیایہ نا
ممکن تھا ۔ بے شمار کولڈ اسٹوریج ہیں ۔ ان میں بے شمار گنجائش ہے۔ پھر کیوں
غفلت کی گئی۔ کیا عارضی انتظام نہیں ہو سکتا تھا۔ اصل میں انھیں لاوارث
سمجھا گیا۔ کیا معلوم نہیں پوری قوم ان میتوں کی وارث ہے۔ کیا تمھارے پاس
پیسوں کی کیا کمی تھی۔وسائل کم تھے ۔پھر میتوں کی بے حرمتی کیوں ہوئی جواب
دو۔
یہ بڑے بڑے ہسپتال آغا خان - لیاقت نیشنل ہسپتال۔ جناح ہسپتال۔ سول ہسپتال
۔ یہ عباسی ہسپتال ان سب نے کیا خاص اقدامات کیئے تھے۔
کیا آغا خان ہسپتال نے سب لوگوں کے لیے اپنے ہسپتال کے دروازے بلا معاوضہ
کھول دیئے تھے اور استقبال کے لئے اسپشل کاونٹر بنائے تھے ۔ اگر نہیں تو
کیوں نہیں۔ ان کا ڈیٹا چیک کیا جائے کہ کتنے لوگوں کو انھوں نے داخل کیا
اور کتنے لوگوں کا انھوں نے بلا معاوضہ علاج کیا۔ ہسپتال کے دروازے کیوں
نہیں کھولے گئے ، ہسپتال کے پاس جو دنیا بھر سے چیریٹی اور ڈونیشن آتی ہے
وہ کس لیئے ہے اسکا ہسپتال کیا کرتا ہے۔
لیاقت ہسپتال والوں سے بھی پوچھا جائے ۔ کہ کیا اس نے اسپیشل کاونٹر بنایا
تھا اور کتنے لوگوں کا مفت علاج کیا ۔ اور کیا علاج کیا۔ یہ خیراتی ہسپتال
تھا مفت زمین دونیٹ ہوئی ، بے شمار امداد ملی آج یہ کمرشل ادارہ چکا ہے ۔
عام لوگ وہاں علاج کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ابھی تو یہ ہی پوچھنا ہے ۔ قائد
ملت لیاقت علی کا نام استعمال کرنے والوں تم نے عوام کے لیئے کیا کیا۔
عباسی ہسپتال نے کیا خاص انتظام کیئے۔ متاثرہ افراد کا علاج کیا۔کتنے
متاثرہ افراد کو دوسرے اسپتالوں کو روانہ کیا۔ کیا کوئی اسپشل کاونٹر
کھولا۔ کتنے لوگوں کا علاج کیا اور کیا علاج کیا۔ اور کتنی اموات ہوئیں۔
اور کیوں ہوئیں۔ کیا لو لگے افراد کا علاج راکٹ سائنس ہے۔ جو وہ فوت ہو
گئے۔
اس یہی طرح سول ہسپتال اور جناح ہسپتال نے کیا خاص انتظام کیا ۔کیا وہاں
آنے والے ہر متاثر کے لیئے جگہ کا انتظم تھا ۔وہاں کتنے متاثرہ افراد کا
علاج کیا گیا۔ دوران علاج کتنے لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ کیوں چلے گئے
۔ کیا ان کا علاج راکٹ سائنس تھا کہ نہیں ہو سکا۔ کیوں ، جواب تو دینا ہی
ہوگا۔ دیکھنا ہو گا کہ کتنے ڈاکٹر زاور اسٹاف موجود تھے ۔اور کتنے اور
ڈاکٹروں اور اسٹاف کو بلایا گیا۔ کیاوہاں مریض کو فوری علاج دیا جا رہا تھا
یا وہ لائن میں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ کیا ان کی ڈاکٹر تک فوری
رسائی تھی اور فوراََََ دوائی مل رہی تھی یا وہی روٹین کا سلسہ تھا ۔ مریض
کو چار مراحل سے گزارا جا رہا تھا۔ کیا دوائی خریدنے کے لیئے مریض کو باہر
بھیجا جارہا تھا۔ کیا یہ ہی تو سبب اموت کا نہیں تھا ۔ جواب تو دینا ہے۔ اس
ہی دنیا میں دینا ہے۔
یہ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ ادارہ کہاں تھا ۔ اس کا کیا کام
ہے۔ کیا اتنے لوگوں کا مرنا ڈیزاسٹر ہے یا نہیں ۔ پھر یہ ڈیپارٹمینٹ کیوں
سامنے نہیں آیا۔ اس نے اس مصیبت کی گھڑی میں کیا کیا۔ یہ ادارہ کہاں سو رہا
تھا۔ کوئی صاحب ِ علم بتا سکتے ہیں۔ انھیں جواب تو دینا ہے۔
یہ سیول ڈیفنس ، اسکاوئٹ۔ یہ بلد یہ کےرضاکار کہاں تھے۔ اور انھوں نے کیا
کیا۔ مرنے والے مر گئے- وزیر علٰی صاحب نے جب گرمی تھم گئی تو عام تعطیل کا
اعلان کردیا۔ کیوں، معلوم نہیں۔ تعطیل تو کہیں دکھائی نہیں دی سب جگہ کام
ہو رہا تھا ۔ البتہ سندھ گورنمٹ کے سب دفاتر بند تھے، جو چھوٹا موٹا کام ہو
سکتا تھا وہ بھی بند ہوگیا۔ گورنمینٹ سندھ کی بالکل رٹ نہیں ہے ۔ اس حکومت
سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح فی کس امداد کا اعلان ہو جائے
گا ۔ (امداد ملے نا ملے یہ الگ بات ہے ) اور اللہ اللہ خیر صلہ۔
کیا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ کیا اس ہی طرح اب کے بھی معاملات نمٹا دئے
جائیں گے۔ نہیں نہیں۔ |