نمونہ عبرت

راوی م ۔ ع لاہور
تحریر: ام اسعد۔ لاہور

میں ایک نمونہ عبرت ہوں۔ میں وہ بد نصیب لڑکی ہوں جسے اس کے ’کرتوتوں‘ کی سزا دنیا میں ہی مل گئی، بلکہ اب تک بھگت رہی ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ میری سزا کتنی باقی ہے، اس کا اختتام کب ہوگا اور کیا کبھی مجھے بارگاہِ خداوندی سے معافی مل سکے گی؟ کیا کبھی میں ایک نارمل زندگی گزارنے کے لائق بن سکوں گی؟ہاں ! مجھے احساس ہے کہ جو کچھ میرے ساتھ ہورہا ہے، یہ میرے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ یہ میرے برے اعمال کا نتیجہ ہے، جو بیج میں نے بویا تھا آج اُسی کا خمیازہ بھگت رہی ہوں۔میں چاہتی ہوں کہ لوگ مجھ سے عبرت حاصل کریں۔ میری لاحاصل زندگی سے سبق سیکھیں اور جو غلطیاں میں نے کیں اور سزا کی حق دار ٹھہری، کوئی اور اس انجام کا شکار نہ ہو، کوئی اور میرے راستے پر نہ چلے۔اسی لیے میں اپنی داستان سپردِ قلم کررہی ہوں۔

میرا نام م،ع ہے۔میری عمر محض 23سال ہے۔ میرا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔میں ایک خوشحال زندگی گزار رہی تھی، کوئی غم، فکر وپریشانی لاحق نہیں تھی۔ والدین نے ہمیشہ ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھا، زندگی میں کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی، جو چیز بھی مانگی قدموں میں لاکر ڈھیر کر دی۔پھر ایک اچھا رشتہ دیکھ کر میری شادی کردی۔ شوہربھی بہت نیک اور خوش اخلاق ملے۔نئے گھر میں بھی تمام افراد ملنسار اور اچھے ملے۔ گھر میں میری تین جیٹھانیاں بھی تھیں اور گھر کے کام وغیرہ کا ذمہ ہم چاروں بہوؤں کا تھا ،کیوں کہ میری ساس بہت بوڑھی اور ضعیف تھیں۔وہ جوڑوں کے سخت درد میں مبتلا اور بیڈ ریسٹ پر تھیں۔ کھانا پینا، ضروریات زندگی اور قضائے حاجت تک کے لیے دوسروں کی محتاج تھیں۔ روز انہیں ناشتہ ، دوپہر اور رات کے کھانے کے علاوہ ان کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری تھی۔ترتیب کچھ یوں تھی کہ روزانہ ایک بہو ان کی خدمت کرتی، باقی گھر کے دوسرے کام دیکھتیں۔ اس طرح ہر ایک کی باری چوتھے دن آتی تھی، اگرچہ یہ بہت مشکل کام تھا، مگر میری جیٹھانیاں اسے بحسن و خوبی سر انجام دیتی رہیں۔ البتہ مجھ سے کمی کوتاہی ہو ہی جاتی تھی۔ شروع شروع میں اُنہیں سنبھالنے میں مجھے بہت مشکلات پیش آئیں، مگر جیسے تیسے میں اُن کی خدمت کرتی رہی۔ میں سوچتی تھی پتا نہیں خدا نے ہمیں اتنی بڑی آزمائش میں کیوں مبتلا کیا ہوا ہے؟وقت اسی طرح گزرتا رہا۔شادی کے چھ ماہ بعد ہی میرا دل ساس کی خدمت سے اُچاٹ ہوگیا، میری جیٹھانیوں کا ان سے صرف ساس بہو کا رشتہ تھا ، جب کہ وہ میری پہلے سے ہی قریبی رشتے دار تھیں۔ میرا جی گھبرانے لگا اور میں کچھ چڑ چڑی سی ہوگئی۔
ایک دن میں نے ڈھٹائی سے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھ سے ان کی خدمت کاکام نہیں ہوتا۔یہ سن کر میرے خاوند سمیت گھر کے سب افراد ناراض ہو گئے۔ بادل نخواستہ مجھے دوبارہ حامی بھرنا پڑی۔

اب یہ ہوا کہ جب میری خدمت کی باری ہوتی تو میں ساس کو بہانے بہانے سے ستانے لگی۔مثلاًکبھی وہ پانی مانگتیں تو میں جان بوجھ کر دیر کردیتی۔ کبھی اُنہیں قضائے حاجت کی ضرورت ہوتی اور مجھے بلاتیں تو میں جان کر بھی انجان بن جاتی۔ کبھی وہ کوئی اور چیز مانگتیں تو میں دینے سے ہی انکار کردیتی۔اس طرح میرے خراب رویے سے وہ تنگ آگئیں۔ وہ خود تو کسی کی مدد کے بغیر اٹھ کر بیٹھ بھی نہ سکتی تھیں، میرے ستانے پر بس مجھے برا بھلا ہی کہنے لگتیں ، مگر میں ڈھیٹ بن گئی تھی، مجھ پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا، چنانچہ ہمارے درمیان لڑائی جھگڑے معمول بن گئے۔ میں خوب زبان درازی کرتی، انہیں برا بھلا کہتی۔میری ساس میری جیٹھانیوں سے خوش تھیں، کیوں کہ وہ دل وجان سے ان کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہی تھیں، لیکن میں نے انہیں اتنا ستایاتھا کہ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگی تھیں۔اس وقت میری آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔اتنی اندھی ہو گئی تھی کہ مجھے اپنے اچھے برے کی تمیز تک نہ رہی۔ ایک دن یہ ہوا کہ ساس نے مجھے بلایا اور کہا کہ مجھے نہلادو۔ میں نے غصے میں آکر پانی کی پوری بالٹی ان پر انڈیل دی۔وہ تڑپ کر رہ گئیں۔اف! اس دن ان کی آنکھوں میں ایسی بے بسی تھی کہ وہ رو پڑیں…… میری سلگاتی ہوئی مسکراہٹ پر ان کی آنکھیں انگارہ ہو گئی تھیں، جن میں سے نفرت کی تپش مجھے محسوس ہوئی تو میں باہر نکل گئی۔

ایک دن اُنہوں نے پینے کے لیے پانی مانگا، میں نے دے دیا، تھوڑی دیر بعد دوبارہ مانگا تو میں نے گلاس میں ٹھنڈا پانی بھر کر ان کے سر پر ڈال دیا اور کہا کہ آخر بڑھیا کو اور کتنا پانی چاہیے؟

اس وقت …… ہاں اس وقت ان کا ضبط جواب دے گیا۔ انہوں نے بے اختیار سر آسمان کی طرف کیا اور کہنے لگیں۔

’’یااﷲ! اسے بھی میری طرح معذوری کا مزا چکھا دے، اسے بھی میری طرح لوگوں کی محتاج بنادے، اسے بھی اسی طرح پانی کی بوند بوند کو ترسادے، جیسے یہ مجھے ستاتی ہے۔ ‘‘

کوئی اور ہوتا تو یہ بددعا سن کر ڈر جاتا…… اس کا دل کانپ جاتا مگر میری ڈھٹائی کا یہ عالم تھا کہ میں کھڑی مسکراتی رہی۔

پھر وہ ہر روز مجھے بد دعائیں دینے لگیں، مگر مجھے ان کی بددعاؤں کا یقین ہی نہیں تھا۔ وقت کا کام ہے گزرنا، سو وہ گزرتا رہا۔ کچھ دنوں بعد ان کی بیماری شدت اختیار کرگئی۔ جوڑوں میں شدید درد کے باعث ان کا چین و سکون غارت ہو گیا۔ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر آہ وزاری کرتیں ، سب گھر والے ان کی تکلیف محسوس کر کے روتے، ان کو بہلاتے، دوا علاج کرتے مگر میری بے حسی بدستور برقرار رہی۔ پھر بیماری کے اس جھٹکے کے ایک ہفتے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیامگر مجھے یہ توفیق نہ ہوئی کہ آخری دنوں میں ان سے اپنے رویے کی معافی ہی مانگ لیتی، حالانکہ حالت نزع میں گھر کے تمام افراد نے فرداً فرداً ان سے معافی مانگی اور انہوں نے سب کی خطاؤں، کمی کوتاہیوں کوکھلے دل سے معاف بھی کردیا، مگر مجھ بدبخت پر تو شاید اﷲ کا غضب تھا کہ مجھے معافی مانگنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

ان کے انتقال کے کچھ دنوں بعد ہی میری زچگی تھی۔ ہسپتال گئے تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی ’نعمت‘ سے نوازا، ایک ننھا سا مہمان ہماری فیملی کا حصہ بن گیا…… مگر یہیں سے میری مشکلات کاآغاز ہو گیا۔ہم لوگ واپس گھر آگئے۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، مجھے شدید بخار ہو گیا۔ میری حالت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی۔ کمزوری اور خون کی شدید کمی کے باعث گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔اس دوران میرے ٹیسٹ ہوئے تو لیڈی ڈاکٹر نے فوراً کسی بڑے ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ مجھے ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔اس کے بعد مجھے اپنا ہوش و حواس نہ رہا۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ میں کئی دنوں تک بے ہوش رہی۔ ڈاکٹرز آتے رہے اور علاج کا سلسلہ جاری رہا۔ دو ماہ تک میں وہاں ایڈمٹ رہی۔ اس دوران مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ گردوں میں خرابی کے باعث پیشاب بند ہو گیا ہے اور مجھے اب ڈائیلایسسزکروانے ہوں گے۔ یعنی مشینوں کے ذریعے خون کی صفائی کی جائے گی۔

دو ڈھائی ماہ کے بعد مجھے ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا،لیکن میری آزمائش ختم نہیں ہوئی۔ہر تیسرے دن مجھے ڈائیلایسسز کے لیے ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ اب میں گھر میں ایک چارپائی پر پڑی رہتی ہوں۔ اپنے ہر عمل کے لیے دوسروں کی محتاج بن کر رہ گئی ہوں۔ میں کھانا مانگتی ہوں تو مجھے پرہیزی کھانا ملتا ہے۔جس چیز کو کھانے کا دل کرے، وہ مجھ پر ڈاکٹرز نے بند کردیا ہے۔ پانی کی طلب ہوتی ہے توایک گھونٹ پلا نے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ میں جو پانی پیتی ہوں وہ پیٹ میں جمع ہوتا رہتا ہے، بالآخر میرا پیٹ پھول جاتا ہے۔ ایک دفعہ میری والدہ تیمارداری کے لیے آئی ہوئی تھیں، میں نے ان کی منت سماجت کی کہ پانی پینے کو بہت دل چاہ رہا ہے،یہ سسرال والے مجھے نہیں دیتے تو انہوں نے چپکے سے بڑا گلاس بھر کر پانی لادیا۔ میں نے سب غٹا غٹ پی لیا توپیٹ پھول گیااور مجھے سانس لینے میں بڑی دشواری پیش آئی۔ اگلے دن مجھے ایمرجنسی میں ڈائیلایسسز کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹرز نے سختی سے تاکید کی کہ اس طرح کی بے احتیاطی آیندہ نہ کی جائے۔ اب میں بھی ساس کی طرح قضائے حاجت کے لیے دوسروں کی محتاج ہوں۔ بے چاری نیک جیٹھانیاں میری خدمت کرتی ہیں، مگر آخر کب تک؟…… اپنی بیماری کی وجہ سے میں بے حد چڑ چڑی بھی ہو گئی ہوں ……مجھے تو نہیں پتا چلتا مگر امی بتاتی ہیں کہ میرا ذہنی توازن بھی خراب ہو گیا ہے، ساری رات میں چلاتی رہتی ہوں، لوگوں کو برا بھلا کہتی ہوں !…… اور میرے نیک سسرال والے مجھے برداشت کر رہے ہیں، میرا علاج کروا رہے ہیں، ہر طرح ہماری خدمت کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی امی آجاتی ہیں تو وہ مجھے سنبھالتی ہیں اور جب ذہنی توازن کچھ ٹھیک ہوتا ہے تو میں انہیں پہچان پاتی ہوں!

مجھے اپنی ساس کی بددعا نے جیتے جی ماردیا۔ میں اب نہ جی سکتی اور نہ مرسکتی ہوں۔ میں اس زندگی سے بہت پریشان ہوں، بہت بے بسی محسوس کرتی ہوں۔میں اپنے کیے پر بہت پشیمان ہوں، مگر اب پچھتانے سے کیا فائدہ……

میں آپ تمام بہنوں سے التجا کرتی ہوں کہ کبھی بھی اپنے بزرگوں کی ناقدری نہ کیجیے گا، ورنہ میری طرح انجام ِ بدکا شکار نہ ہو جائیں۔ میں معافی کے لائق تو نہیں، البتہ میں خدا سے یہ دعا ضرور کرتی ہوں کہ یا تو میری سزا ختم کردے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو مجھے ان مشکلات کی قید سے آزاد کرتے ہوئے موت ہی نصیب فرمادے۔ آپ بہنوں سے التجا ہے کہ مجھ بد نصیب کے لیے ایک بار دعا ضرور کیجیے گا۔
٭
نوٹ: یہ مضمون کچھ دن قبل لکھا گیا تھا۔ابھی کچھ دن پہلے لاہور سے محترمہ م، ع کی قریبی عزیزہ کا فون آیا کہ م۔ ع صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہے۔انہوں نے قارئین سے درخواست کی ہے کہ ان کی روداد سے عبرت بھی حاصل کریں اور دعائے مغفرت بھی کریں ۔ بے شک آخری ایام میں انہوں نے جتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں، ان شاء اﷲ ان کے گناہوں کا کفارہ ہو گیا ہو گا۔
Usman Khan
About the Author: Usman Khan Read More Articles by Usman Khan: 111 Articles with 86357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.