|
میرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں--
گرمی تو پاکستان میں ہر سال آتی ہے لیکن یہ اس مرتبہ کیا ہوا آمد رمضان کے
ساتھ کراچی اور سندھ کے جنوبی علاقوں میں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں انکی تعداد
اب تقریبا 1500 تک پہنچ گئی ہے -- یہ اللہ کا عذاب ہے یا ایک بہت بڑی
آزمائش--
اہل پاکستان اور اہل کراچی کی قسمت میں جو دکھ لکھے ہیں یہ ان میں سے تازہ
ترین دکھ ہے -- اس بد نصیب شہر کو جو عروس البلاد کہلاتا ہے پاکستان کا
مصروف ترین مرکزی شہر ہے پانی سے محروم ، بجلی سے محروم اور اسپر یہ قیامت
خیز گرمی کہ سمندری ہوائیں بالکل بند ہو گئیں،لو کے تھپیڑے، جھلسا دینے
والا سورج، بجلی غائب درجہ حرارت کا تناسب نمی کے ساتھ 49 ڈگری تک پہنچ گیا
-- بہت سے لوگوں نے روزے کی حالت میں تڑپ تڑپ کر جانیں دیں --
بروقت طبی امداد نہ پہنچ سکی ، روزہ داروں کا روزہ نہ تڑایا گیا یا انہوں
نے خود نہ توڑا -- بچے اور بہت بوڑھے تو ظاہر ہے روزے کی حالت میں نہ ہونگے
--(اور اللہ تعالٰی کی اس سہولت سے تو ہر مسلمان کو آگاہی ہونی چاہیئے کہ
بیماری اور شدید نقاہت کی حالت میں روزہ توڑا جاسکتا ہے اور صحت یابی پر
قضا کی ادائیگی ہے بوڑھے، بیمار اور کمزور اگر صا حب استظاعت ہوں تو روزہ
نہ رکھ کر فدیہ ادا کریں-)- جو بھی وجہ ہو اسقدر ہلاکتوں میں کہیں نہ کہیں
انتظامی اور حکومتی غفلت اور بد انتظامی موجود ہے --
بجلی و پانی کے مرکزی وزیر عابد شیر علی نے اپنی کلی برآت ظاہر کی ہے کہ یہ
سب اموات انکی غفلت کانتیجہ ہرگز نہیں ہے -وہ کراچی الیکٹریک کو ذمہ دار
ٹہراتے ہیں - کہنے کو تو ہمارا ایمان ہے کہ آیا ہوا وقت ٹالا نہیں جاسکتا
اورموت کا لمحہ اور وقت معین ہے - یہی وجہ باعث سکون بھی بن جاتی ہے -- عمر
رض کا مشہور و معروف قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتابھی پیاس
سے مر جائے تو عمر اسکے لئے جواب دہ ہوگا -- جبکہ بحیرہ عرب کے کنارے پیاس
اور گرمی سے مرنیوالوں سے ہماری صوبائی اور مرکزی حکومت کی کسی کوتاہی کا
تعلق نہیں ہےاور وہ بالکل بری الذمہ ہیں -- چند روز پہلے تحریک انصاف کی
ایک رہنما سے ملاقات ہویئ " ہم نے جگہ جگہ پانی کی بوتلیں مہیا کیں " کہاں
کیں کتنی کیں؟ ہنگامی صورتحال میں تدابیر بھی ہنگامی بنیاد پر ہونی چاہئیں
جب شہر پر آگ برس رہی ہو اور عوام کے پاس نہ بجلی ہو نہ پانی تو انکے لئے
مرجانا ہی بہتر ہے اور سونے پر سہاگا یہ کہ مر نیوالوں کے دفنانے کو بھی دو
گز زمین بھی میسر نہیں ہے لیکن 15 ، 16 سو ہلاکتوں کے ساتھ یہ زمین بھی
کافی بڑھ جاتی ہے -- یوں محسوس ہوتا ہے کہ گرمی نہین بلکہ کوئی مہلک
وباپھیل گئی ہو--بعد میں یہ عقلمندی اختیار کی گئی کہ اجتماعی تدافین کی
گئیں--بجلی نہ ہونیکی وجہ سے مردہ خانوں میں تعفن پھیل گیا تھا --
کراچی جو غریب پرور شہر کے طور پر مشہور ہے - جہاں پر تھکے ماندے مزدور،
بھکاری فٹ پاتھوں ، چوراہوں کے بیچ ایک چندر تان کر سو جاتے ہیں ۔۔ہاں وہاں
وہ طبقہ بھی ہے جو اپنی بجلی خود بناتا ہے انکے پاس اپنے جنریٹر اور فیڈر
ہیں ۔۔
اس شہر میں پانی کی قلت کرواکر ٹینکر مافیا کا راج کروا دیا گیا ہے ۔۔اسمیں
میں حکمراں ادارے تک ملوث ہیں ۔۔ بلکہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔۔
ٹی وی پر سندھ اسمبلی کا اجلاس دیکھ رہی تھی ایک ممبر نے استدعا کی کہ شہر
کے حالات دیکھتے ہوئے ایک گھنٹے کے لئےائرکنڈیشنر بند کرتے ہیں جسپر خوب لے
دے ہوئی لیکن ایر کنڈؑیشنر بند نہیں ہوا-- انسان جب عیاشیوں کا عادی ہو
جاتا ہے تو اسکے لئے مشکل جھیلنا ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا--
پچھلے دنوں بھارت میں گرمی کی وجہ سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں ، ہم چین سے تھے
تو اس دکھ کا احساس نہیں ہوا لیکن جب یہ بلا اپنے سر آن پہنچی تو اسکی
ہلاکت خیزیوں کا اندازہ ہوا--
گرمی پاکستان کے میدانی علاقوں میں ہمیشہ سے آتی ہے --سبی ، جیکب آباد ،
ملتان، تھر وغیرہ میں درجہ حرارت 50 سنٹی گریڈ سے بھی بڑھ جاتا ہے - تمام
پاکستان کے میدانی علاقے گرمی کی لپیٹ میں ہوتے ہیں --کراچی میں گرمی کی
شدت رطوبت سے مذید بڑھ جاتی ہے - بارشوں کا وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے --جب
کبھی بارش ہوتی ہے سال میں ایک آدھ مرتبہ، تو خوب ہوتی ہے سب جل تھل ہو
جاتا ہے --اہل کراچی جہاں بارش سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں ہزاروں
مہلک اور دیگر چھوٹے موٹے حادثات بھی ہوتے ہیں اور پورا شہر اتھل پتھل ہو
جاتا ہے،سڑکیں چاند کا منظر پیش کرتی ہیں --
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا بجلی کا غائب ہونا اسقدر مہلک ہو سکتا ہے؟ بجلی
کا غائب ہونا تکلیف دہ اور اذیت ناک ضرور ہے اور فی زمانہ بجلی زندگی کے
لوازمات میں سے ہے لیکن مجھے یاد ہے میرے بچپن میں ہمارے گاؤں میں بجلی
نہیں تھی اور شدید گرمی میں رمضان کا مہینہ تھا علی الصبح لوگ اپنے باہر کے
کام کرکے فارغ ہوجاتے -- جھالروں والے دستی پنکھے سب کے پاس ہوتے تھے -
کسان مزدور درختوں کی چھاؤں میں بان کی چار پایئاں چٹایئاں ڈالکر لیٹ جاتے-
زیادہ گرمی کی صورت میں چٹایئوں کو بگھو دیا جاتا تھا - خربوزے اور تربوز
پہلے سے قاشیں کرکے پراتوں میں رکھ دیے جاتے ۔ لسی ، گڑکے ، املی ، تخم
ملنگا کے شربت-جسکو جو بھی میسر تھا - پانی تو زندگی کے لوازم میں سے ہے
بلکہ انسانی جسم کا ستر فیصد پانی ہے تو ٹھنڈے کنوؤں سے پانی حاصل کیا جاتا
تھا -مجھے یاد ہے کہ میری والدہ تولیہ بھگو کر سر پر رکھ دیتیں ایک بڑا سا
کٹ کا پنکھا کھینچھنے والا بچہ دوپہروں کو خود بھی بے خبر سو جاتا--
پانی کے بغیر جینا محال ہے لیکن بجلی کے بغیر تکلیف اور بے چینی تو بہت ہے
لیکن گزارا ہو سکتا ہےاور جیا جا سکتا ہے ۔۔ آجکل فیسبک پر واپڈا کی طرف سے
ایک لطیفہ گردش کر رہا ہے " روزے جب بھی رکھے جاتے تھے جب بجلی نہیں تھی تو
خاموشی سے روزہ رکھو اور زیادہ ٹر ٹر نہ کرو"
ہمارےقریبی گرم ترین خلیجی ممالک اور سعودی عرب میں جہاں دن میں درجہ حرارت
52ٓ--54 کے درمیان ہوتی ہے۔ رمضان میں تمام تعمیراتی اور مشقتی کام رات کو
یا افطاری سے سحری کے وقت تک جاری رہتا ہے --ہاں انکے پاس بجلی کی کوئی قلت
نہیں ہے --
کراچی کے نوحوں میں ایک اور مر ثیے کا اضافہ ہوا کہ 1500 افراد کر بلا کی
کیفیت سے دو چار ہوئے اور تڑپ ٹرپ کر جانیں دیں --
اللہ تبارک و تعالٰی انکو بلند ترین درجات پر فائز کردے اور لواحقین کو صبر
جمیل عطا فرمائے- |