چلے ہوئے کارتوس اور پٹے ہوئے گھوڑے

پاکستان کے کچھ سیاستدان ، ریٹائرڈ فوجی جنرل، سابقہ بیوروکریٹس، سفارتکاراور صحافی جو ٓاج تک اپنی ناکام مرادوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں یہ وہ چلے ہوئے کارتوس اور پٹے ہوئے گھوڑے ہیں جو نہ کبھی نشانے پہ لگے اور نہ کوئی ریس جیت سکے ۔ان کاحال ان مغل فرمارواں جیساہے جو جب تک محلوں میں رہے انہیں عیش و عشرت سے فرست نہ ملی اور جب انگریز لال قلعہ کے دروازے تک پہنچ گئے تو ان کے لبوں سے یہ شعر جاری ہونا شروع ہو گئے ''لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیا ر میں ''۔ جب تک زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا انہیں اس بات کا ہوش ہی کہاں تھا کہ ملک کیلئے کچھ کرتے یہ تو بس اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور جب ان سے مسند اور قبا چھین کر انہیں محل کے باہر پھینک دیا گیا تو انہوں نے رونا دھونا شروع کر دیا کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہیں دوران ملازمت اپنے محکموں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر ترقی نہ دیئے جانے کا دکھ ہے ، کچھ وہ ہیں جن کی ہوس اقتدار انہیں چین نہیں لینے دیتی اور کچھ وہ جو دولت لوٹ لوٹ کر ابھی تک نہیں تھکے۔اسی لئے جب کبھی اقتدار کے ایوانوں میں ان کے داخلے پر پابند ی عائد ہوتی ہے تو یہ چور دروازے تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ کسی طرح پھر سے ان عشرت کدوں میں داخل ہو سکیں لیکن جب کوئی چور دروازہ نہیں ملتا تو پھر یہ دروازہ توڑ کر یا دیوار پھلانگ کر اندر گھسنے کی راہ ہموار کرنا شروع کر دیتے ہیں چونکہ خود میں نہ دروازہ توڑنے کی سکت ہوتی ہے اور نہ دیوار پھلانگنے کی ہمت اسلئیے فوج کو پکارتے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے اور تمہیں ناخدا ہو ٓاؤ وسیع ترقومی مفاد میں ٓائین توڑکر اقتدار کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لو۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں جب فوج ٓائے گی تو ان کی دکانداری بھی چلے گی اور کوئی نہ کوئی عہدہ ان کے حصے میں بھی ٓائے گا اور پھر سے وہی شان و شوکت اور جھنڈے والی گاڑیاں ان کو نصیب ہونگی ۔ فوج کی بیساکھیوں پر چل کے ایوان اقتدار تک پہنچنے والے یہ لوگ اب ایک بار پھر متحرک ہو رہے ہیں ، کچھ کھلا اور کچھ پس پردہ فوج کو اقتدار پر قبضے کیلئے اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

فوج پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ۔ لیکن میرا سوال ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ فوج کو اقتدار پر قبضے کی دعوت کو ن دیتا ہے ، کون فوجی جنرلز کے پاس جا کر یہ دہائی دیتا ہے کہ ملک کو بچائیں ، ان کے ذہن میں یہ بات کون ڈالتا ہے کہ پاکستان کے عوام ان کا انتظار اسی طرح کر رہے ہیں جیسے سند ھ محمد بن قاسم کا ، کون ان سے کہتا ہے کہ تمہیں وہ مسیحا ہو جو اس دکھیاری قوم کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے ؟ ایسا کوئی اور نہیں یہی چلے ہوئے کارتوس اور پٹے ہوئے گھوڑے کرتے ہیں ۔ جو نہ پاکستان کیلئے کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دے سکے اور نہ عوام کے مسائل حل کر سکے البتہ اپنے اور اپنے خاندان کی خوب خدمت کرتے رہے ۔ جب جب فوج نے قصر سلطانی پر دستک دی تو دروازے پاکستانی تاریخ کے انہیں میر جعفروں اور صادقوں نے کھولے اور فوج کے ہر غیر ٓائینی اقدام پر توثیق کی مہر وہ عدالتیں ثبت کرتی رہیں جنہیں ٓاج ٓائین کے تحت بننے والی فوجی عدالتوں کا قیام بھی غیر ٓائینی نظر ٓاتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ فوج کو اقتدار کا راستہ سویلین نے دکھایا اور فوجی ٓامروں کے اقتدار کو کندھا بھی سویلینز نے دیا ۔ جنرل محمد ایوب خان سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک ہر ڈکٹیٹر بندوق کے زور پر نہیں بلکہ انہیں موقعہ پرستوں اور ضمیر فروشوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دیتا رہا۔ فوجی جنرلز نے اکیلے اقتدار کے مزے کبھی نہیں لوٹے بلکہ سویلین بھی برا بر اپنا حصہ وصول کرتے رہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ جب فوج کو اقتدار پہ قبضہ کرنے میں کسی مزاحمت کا سامنا کر نا پڑا ہو۔ ٹرپل ون بریگیڈ کا ایک افسر سو پچاس جوانوں کے ساتھ جاکر منتخب وزیر اعظم سے کہتا ہے کہ outاور سرکاری ٹی وی پر خبر چلتی ہے کہ فوج نے ملک کی باگ دوڑ ہاتھ میں لے لی ہے that's it۔ ہر طرف خاموشی چھا جاتی رہی اور صبح سارے شیروانی پہن کر ایوان صدر میں ٓارمی چیف کے ٓاگے پیش ہو جاتے رہے کہ سر ہم ٓاپ کے ساتھ ہیں ۔ ٓاج جنرل مشرف کو تو غداری کیس میں پھانسی پر لٹکانے کی سر توڑ کوشش ہو رہی ہے لیکن ان سیاستدانوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا جنہوں نے اس کے ساتھ شراکت اقتدار کے مزے لوٹے۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل محمد ایوب خان پر تنقید تو ہوتی ہے لیکن کوئی ایوب خان کے بی ڈی ممبران اور ضیاء الحق کی کابینہ کا حصہ بننے والے سیاستدانوں اور سابقہ بیوروکریٹس کا نام نہیں لیتا ۔ کوئی ان لوگوں کا ذکر نہیں کرتا جو جی ایچ کیو اور ٓارمی ہاؤس کے چکر لگاتے رہے اور فوج کو بیرکوں سے نکل کر ایوان وزیر اعظم پر قبضے کا مشورہ اور اپنی سیاسی حمائت کا یقین دلاتے رہے ۔ملٹری ڈیموکریسی ،فوجی ٓامروں کی نہیں بلکہ ان کے سیاسی ہمنواؤں اور مشیروں کی ایجاد ہے جو ان فوجی حکمرانوں کو اپنے اقتدار کو دنیا کے لئے قابل قبول بنانے کی غرض سے اس پر جمہوریت کا ظاہری غلاف چڑھانے کے مشورے دیتے رہے ۔ایسے لوگ فوجی ٓامروں سے زیادہ سزا کے مستحق ہیں ۔

ہمارے وہ قلم کار ، تجزیہ نگار، ناقدین اور مفکرین جو پاکستان کی حالت زار پر فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے نہیں تھکتے اور جو ہر وقت یہ رونا روتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا اور یہ کہ ٓادھے سے زیادہ عرصہ ملک پر فوج کی حکومت رہی وہ سویلین حکمرانوں سے اس عرصے کا حساب کیوں نہیں مانگتے جب اقتدار ان کے ہاتھ میں تھا؟ فوجی ٓامروں پر ٓائین شکنی کا الزام تو ہے لیکن کسی بھی فوجی ٓامر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لیکن دوسری طرف چند ایک کے علاوہ پاکستان کا کوئی ایسا سیاستدان نہیں جس کے خلاف کرپشن کے الزام میں پاکستان کی کسی نہ کسی عدالت میں ایک دو مقدے زیر سماعت نہ رہے ہوں ۔ان سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب کیوں نہیں لیا جاتا، ذاتی مفاد کے نام پر مفاہمت کی سیاست کو رواج دینے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی مانگ کیوں نہیں کی جاتی ؟لیکن چونکہ یہ درباری ثنا خوان بھی کسی نہ کسی دربار سے منسلک ہیں یا رہے ہیں اسلیئے ان میں اس گستاخی کی ہمت نہیں۔

جمہوریت کو جمہوری طریقہ سے چلایا جائے تو یہی پاکستان کے لئے بہتر نظام ہے ۔ایک پرانی کہاوت ہے ، Intellectuals run the country, warriors fight the war، ملک کو چلانا فوجیوں کا کام نہیں اسلئیے فوج کو اس کام پر اکسانہ ملک کے ساتھ ناانصافی ہے اور فوج کو اس کی ترغیب دینے والے کسی طرح بھی پاکستان سے مخلص نہیں ہو سکتے ۔ پاک فوج اس وقت جن محاذوں پر مصروف کار ہے اگر وہ ان پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو ہماری ٓائندہ ٓانے والی نسلیں ایک پرسکون ماحول میں پر وان چڑ ھ سکیں گی اور اگر فوج کو دیگر ریاستی کاموں میں الجھایا گیا تو قوی امکان ہے کہ توجہ بٹ جانے کی وجہ سے وہ ان محاذوں پر وہ کامیابیاں حاصل نہ کر سکے گی جنکی توقعہ کی جا رہی ہے اس لحاظ سے بھی فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کسی طرح بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں مگر ان چلے ہوئے کارتوسوں اور پٹے ہوئے گھوڑوں کو اس کی پرواہ کیوں ہونے لگی ۔

میڈیا خاص طور پر ٹی وی اینکرز کا کردار ان حوالوں سے انتہائی منفی ہے ۔بد قسمتی سے بہت سارے ایسے لوگ ٹی وی پر براجمان ہیں جو Broadcasting Journalismکی ABCسے بھی واقف نہیں ۔صحافتی اقدار سے نابلد زرد صحافت کے یہ علمبردار ان چلے ہوئے کارتوسوں اور پٹے ہوئے گھوڑوں کوٹی وی پر ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ دراصل یہ ٹی وی اور اخبار ہی ہیں جنہوں نے ایسے لوگوں کو ٓاج بھی زندہ رکھا ہواجن کا موجودہ حالات میں نہ کوئی رول بنتا ہے اور نہ ان کے خیالات اور نظریات کی ٓاج کے دور میں کوئی relevancyہے لیکن چونکہ ایسے صحافی بھی انہیں میں سے ہیں اسلیئے یہ ایک جیسے لوگ اپنی مجلس شب ٓارائی سے باز نہیں ٓاتے ۔ میڈیا کا کام عوام کو معلومات فراہم کرناہوتا ہے کسی تنازعے میں فریق بننا نہیں ۔ مگر ہمارے میڈیا کا مزاج ہی کچھ نرالا ہے عمران اور قادری کے دھرنے میں اس کردار کو ہم دیکھ چکے ہیں کہ کسطرح میڈیا نے پارٹی بازی کا مظاہرہ کیا اور چٹ پٹی ، جھوٹی اور بے بنیادوں خبروں اور افواہوں کا بازار گرم کرکے ایک لمبے عرصے تک پوری قوم کو ہجان میں مبتلا کیئے رکھا۔ ایسا کرکے پاکستان کی کوئی خدمت انجام نہیں دی گئی بلکہ محض اپنی خواہشوں کی تسکین کا سامان کیا گیا۔

ایسی صورت حال میں پاکستان کی سول سوسائٹی اور عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی ٓانکھیں کھولیں اور پاکستان کی ownership claimکریں ۔ یہ ملک مفاد پرستی اور ذاتی مقاصد کی خاطر بار بار فوج کو اقتدار پر قبضے کی دعوت دینے والے چلے ہوئے کارتوں اور پٹے ہوئے گھوڑوں کا نہیں کہ جب چاہیں پاکستان پر کوئی بھی عذاب مسلط کردیں ۔ یہ ملک پاکستانیوں کا ہے اور جب تک پاکستان کا عام ٓادمی اس پر اپنی ownershipکا دعویٰ نہیں کرئے گا ملک کی تقدیر نہیں بدلے گی ۔تب تک یہی چلے ہوئے کارتوس اور پٹے ہوئے گھوڑے مسند اقتدار پر براجمان ہوتے رہیں گے اور عام ٓادمی کا استحصال ہوتا رہے گا۔
Zahid M. Abbasi
About the Author: Zahid M. Abbasi Read More Articles by Zahid M. Abbasi : 14 Articles with 13899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.