سشما سوراج، للت مودی اور انسانی ہمدردی

میڈیا میں اکثر ایسے مسائل چھا جاتے ہیں جن سے بنیادی عوامی مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اس وقت جب کہ مودی سرکار کی وعدہ خلافی پر دل برداشتہ سابق فوجیوں کا دہلی میں دھرنا و پردرشن چل رہا تھا، میانمار میں فوجی کاروائی کے سلسلے میں مرکزی وزیروں کی لن ترانیاں اوردروغ بیانیاں بے نقاب ہورہی تھیں، ’کسی‘ نے چپکے سے یہ بات لیک کردی کہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے محترمہ سشما سوراج نے آئی پی ایل کے سابق چیرمین للت مودی کی کچھ مددکردی۔سشما سوراج نے فوراً وزیراعظم کو صورت حال سے آگاہ کیا اوراس کے بعد نہایت جرأت کے ساتھ للت مودی کی مدد کا اعتراف کرلیا اوراس کی کچھ تاویلات بھی پیش کردیں۔دو ہی دن بعد معلوم ہوا کہ بھاجپا کی ایک اوربڑی لیڈر وجے راجے سندھیا نے بھی مودی کی وکالت اس شرط پر کی تھی کہ ہندستانی حکام کو اس کا پتہ نہ چلے۔ یہ شرط ظاہر کرتی ہے ان کو احساس تھا کہ جو کیا جارہا ہے وہ مناسب نہیں۔ابھی یہ بحث جاری ہے۔

لیکن اس اشو کے اچھل جانے کا اثر یہ ہوا کہ مہنگائی کی مار، کاشت کاروں کی حالت زار اور جنوب مشرقی ریاستوں میں تشد کی بیار اورنکسلیوں کی قیامت خیزیاں ،سب پس پشت چلی گئیں۔ لوگ یہ بھول گئے کہ حال ہی میں پے درپے پٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھائے گئے ہیں،جبکہ عالمی بازار میں کمی کا رجحان برقرار ہے۔ مودی سرکار کی مدت کار کا ایک سال پورا ہوجانے کے باوجود بے روزگاری سے نوجوان پریشان ہیں۔ لیکن ان سب کو پس پشت ڈال کر ذکراس بات کا ہو رہا ہے کہ سشماسوراج نے برٹش ہائی کمشنر کو فون کرکے یہ کیوں کہہ دیا کہ اگر برطانوی سرکار للت مودی کو سفری دستاویزات جاری کرتی ہے تو ہند اس کا برا نہیں مانے گا؟

للت مودی کی شخصیت بڑی ہی سحر انگیز ہے۔للت مودی کا مطلب ہے دولت اورتعلقات۔ انہوں نے آئی پی ایل کا آئیڈیا ہی نہیں دیا بلکہ چیرمین کی حیثیت سے چار سیزن تک اس کے کامیاب انعقاد سے کرکٹ کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ اس تدبیر سے نہ صرف یہ کہ کرکٹ کے نوخیز کھلاڑیوں کی کھیپ کی کھیپ ابھرکرآئی اورپرانوں کی چھٹی ہو گئی بلکہ بی سی سی آئی پردولت کی بھی بارش ہوگئی۔ایسی صورت میں دولت دائیں بائیں سے بھی آتی ہے اورہرکسی کو للچاتی ہے۔ للت پر بھی الزام ہے انہوں نے انڈرہینڈ دولت کمائی۔ دوسروں کی بھی طبیعت للچائی ہو تو تعجب نہیں۔ چنانچہ ان کے خلاف فطری طور سے ایک محاذ کھل گیا۔ انہوں نے غضب یہ کیا یوپی اے ایک وزیر سمیت کرکٹ کنٹرول بورڈ پرقابض کئی دیگرافراد کوبھی ناکوں چنے چبوا دئے۔ نتیجہ کار ان پر شدید مالی بدعنوانی کے الزام لگے۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی )ان کے خلاف حرکت میں آگئی۔سنہ 2010ء کے آئی پی ایل سیزن کے بعدایک اعلا اختیاراتی کمیٹی نے ان کے خلاف شکایات کی جانچ کی اوران پر کرکٹ کے معاملات میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی لگا دی۔

خاص بات یہ ہے کہ مودی کابینہ کے اہم وزیرارُن جیٹلی اس کمیٹی کے کلیدی رکن تھے جس نے للت مودی کو کرکٹ سے باہرنکالنے میں اہم رول ادا کیا ۔اس کے بعد للت کے خلاف ماحول بنا۔ جو وی آئی پی تھا وہ اچھوت گردانا جانے لگا۔ لیکن بہر حال کچھ لوگ حقیقت کو جانتے ہیں، للت کی دولت فراہمی کی صلاحیتوں کو پہنچانتے ہیں۔اس لئے بدعنوانی کے الزامات کے باوجود ان کے ساتھ دوستی نبھاتے ہیں۔

للت مودی سے تعلق کے معاملے میں سشما سوراج کی پوزیشن ارن جیٹلی سے قطعی مختلف ہے۔ ان کے شوہر، کشال سوراج للت مودی کے 22 سا ل سے قانونی مشیر ہیں۔ دونوں خاندانوں میں گھریلوتعلقات بھی ہیں۔ یقینا للت مودی کی اہلیہ مینالنی سے بھی سشما سوراج انسیت رکھتی ہونگیں۔ سنہ 2010ء میں جب یوپی اے سرکار میں للت مودی کو گھیراگیا تو وہ لندن چلے گئے۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کردیا۔ اس سارے معاملے پر غورکیا جائے تومحسوس ہوتا ہے ساری کوشش اس بات کی رہی کہ للت مودی ہندستانی کرکٹ سے دوررہیں۔ ان کے خلاف کسی کورٹ میں کوئی کیس درج نہیں ہوا ۔ صرف چند نوٹس دئے گئے جن کی پیروی ان کے وکلاء کر رہے ہیں۔اگران کے خلاف کافی ثبوت ہوتے (جن کوحاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی علم میں نہیں آئی) تویقینا ان پرشکنجہ کسا جاتا۔

ادھر جب مینالنی مودی پرتگال کے شہرلسبن میں سینے میں کینسر کے آپریشن کے لئے داخل تھیں اور 4اگست 2014آپریشن کی تاریخ طے تھی، تب للت مودی نے اپنا پاسپورٹ بحال کئے جانے کی جدوجہد تیز کی۔ برطانوی حکومت سے بھی سفری دستاویزجاری کرنے کی گزارش کی جس کی قانون میں گنجائش ہے۔ لیکن اس میں ایک رکاوٹ یہ آرہی تھی کہ یوپی اے کے دور میں برطانوی حکومت سے یہ کہا گیا تھا کہ مودی کے ساتھ کوئی رعایت برتی گئی تواس کے ہند برطانیہ تعلقات پر خراب اثرپڑ سکتا ہے۔ چنانچہ للت مودی نے سشما سوراج سے رابطہ کیا اورجواب میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے سشما سوراج نے برطانوی حکومت کو یہ پیغام دیا کہ اگرمودی کو لسبن جانے کے لئے سفری دستاویزات جاری کئے جاتے ہیں تو اس سے ہند، برطانیہ رشتے خراب نہیں ہونگے۔

یہ سچ ہے کہ سشما سوراج غیرممالک میں دشواریوں میں گھرے ہوئے کئی دیگر افراد کی بھی مستعدی سے مددکرچکی ہیں اوریہ کوئی بری بات نہیں ہے۔اس پر شوروغل کا مطلب ہوگا کہ وہ آئندہ غیرممالک میں پھنسے کسی ہندستانی کی مدد نہ کیا کریں۔ لیکن غورکرنے کی بات یہ ہے کہ للت مودی کی مدد کا یہ معاملہ جوگزشتہ سال جولائی کاہے، وہ اب کیوں نکل کر میڈیا میں آگیا اوراس کا مقصد کیا ہے؟اس کا پس منظریقینادلچسپ ہے۔

یہ بات عام طور سے معلوم ہے کہ بی جے پی میں اندرونی اٹھاپٹخ جاری ہے۔ کابینہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ مودی کو وزیراعظم کے منصب کا امیدوار بنائے جانے اورسیاسی منظرنامے پر چھاجانے سے قبل سشما سوراج وزیراعظم کے منصب کی مضبوط دعویدارتھیں لیکن مودی بازی مارلے گئے۔ ایک مرحلے پر یہ گمان بھی ہورہا تھا کہ سشما شاید کابینہ میں شامل نہ ہوں، مگروزارت خارجہ کی کرسی میں بڑی کش ہے ۔وہ کابینہ میں شریک تو ہوگئیں مگر ان کا قد دب گیا اورارن جیٹلی کا قد بڑھ ہوگیاحالانکہ وہ خود اپنالوک سبھا کا چناؤ ہار گئے اوردہلی میں ان کی حکمت عملی نے پارٹی کو چوپٹ کردیا۔ اس دوران مودی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر جب تمام وزارتوں کی کارگزاریاں سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ سشماسوراج کی ٹوپی میں توکلغیاں ہی کلغیاں ہیں، جب کہ ارن جیٹلی کی وزارت مالیات کی کارگزای سوالوں میں گھری ہے۔ ایسی صورت میں سشما سوراج مخالف کیمپ کے لئے یہ فطری تھا کوئی شگوفہ ایساچھوڑا جائے جس سے سشما سوراج کی شبیہ خراب ہوجائے۔لیکن راہل گاندھی اوران کے دائیں بائیں لیڈروں سے صبر نہ ہوا کہ چندروز ٹھہر کر زرا بھاجپا کے اندر کی اس لڑائی کے گل بوٹے باہرنکل آنے دیتے۔ فوراً سشماسوراج کے خلاف محاذ کھول دیا اورنریندر مودی کے بھی استعفے کا مطالبہ کرڈالا۔ اپوزیشن کی اس عاجلانہ یلغار کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی صدراور وزیرداخلہ خود کود پڑے۔لیکن ارون جیٹلی کی خاموشی یقینا معنی خیزرہی۔

معاملہ اس قدر کشیدہ ہوگیا کہ راجناتھ سنگھ نے دونوں کواپنے دفتر میں بلاکر ڈانٹا ڈپٹا اورارن جیٹلی کے ساتھ پریس کانفرنس میں بیٹھ ان کے منھ سے یہ کہلوادیا کہ ساری سرکاراورپارٹی سشما کی پشت پر ہے۔ یہ اظہار یک جہتی اتنا بودا نکلا کے دراڑیں صاف نظرآرہی ہیں۔

ہرچند کہ للت مودی کی اس مدد میں سشماسوراج نے اپنے قدیم رشتوں کے بجائے ’انسانی ہمدردی‘ کے جذبہ کا حوالہ دیا ہے، مگر ان کا یہ دعوا اس وقت سردپڑ جاتا ہے جب 88سالہ حریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی کے پاسپورٹ کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ معمر گیلانی اپنی علیل بیٹی کی عیادت کے لئے سعودی عرب جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے 5جون کو پاسپورٹ فارم کی تکمیل کی ضابطہ کی کاروائی بھی مکمل کرلی تھی، مگرپاسپورٹ کے اجراء پر سیاست کی جارہی ہے۔ اگرللت مودی کی مدد میں کچھ دیگر عوامل شامل نہیں ہیں اورپیمانہ صرف انسانی ہمدردی ہی ہے تو پھر اس دورنگی چال کا کیا مطلب ہے؟ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.