کراچی اموات: ذمہ دار کون ؟

جون کے مہینہ کے آغاز کے ساتھ ہی گرمی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس سال گرمی پہلے سے کچھ زیادہ پڑ رہی ہے ۔ پورے ملک میں گرمی کی وجہ سے لوگ نڈھال ہیں ۔ اس گرمی کے ساتھ ساتھ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے سونے پر سوہاگے کا کام کیا ہے ۔ اس مہینہ کے آغاز کے ساتھ ہی ماہِ رمضان کا آغاز ہوا ۔ روزہ کی حالت میں پیاس اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے ، ایسے حالات میں لوڈ شیڈنگ ایک عذاب کی صورت میں مسلط نظر آتی ہے ۔ہمیشہ کی طرح رمضان کے آغاز میں اعلان کیا گیا کہ رمضان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائے گی تاہم یہ بیان بھی سیاسی ثابت ہوا اور بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی نہ ہو سکی ۔ اس سال کا موسم گرما کراچی اور اس کے گردونواح کے لیے موت کا پیام لے کر آیا ہے ۔جون کا مہینہ ہمیشہ سے گرمی کی شدت لے کے آتا ہے تا ہم اس سال پڑنے والی گرمی نے پچھلے تمام سالوں کے ریکارڈ توڑ دئیے اور گرمی کی وجہ سے ہونے والی اموات گزشتہ کسی بھی سال سے کہیں زیادہ ہیں ۔
صوبہ سندھ پچھلے چند سالوں سے قدرتی آفات کی زد میں ہے ۔اس صوبے میں موت کے سائے گہرے سے گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ پہلے تھر کا وہ علاقہ جہاں مور رقص کیا کرتے تھے موت کا مسکن بن کر رہ گیا ۔ ان گنت افراد کی جانیں بھوک اور پیاس کے ہاتھوں گئی ۔اور اب موت کا یہ آفریت تھر سے نکل کر کراچی کی جانب سفر کر چکا ہے جہاں اس نے کئی جانوں کو اپنا نشانہ بنایا ۔کراچی اور اس کے گردو نواح میں شدید گرمی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ایک ہزار سے زائد افراداپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔ ہسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈز مریضوں سے بھر چکے ہیں ۔مردہ خانوں میں جگہ کم پڑنے لگی ہے ۔گرمی سے سسکتے اور جانوں سے جاتے لوگوں کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے ۔ قبرستانوں میں قبروں تک کی جگہ میں کمی کے باعث لاشوں کو مشترکہ قبروں میں دفن کیا جا رہا ہے ۔ صرف یہی نہیں قبر اور تدفین کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک قبر کا ریٹ پچیس ہزار تک جا پہنچا ہے ۔

سیاسی نمائندوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک جانب موت کے منہ جاتے عوام ہیں تو دوسری جانب افطار پارٹیوں میں مشغول وہ قومی نمائندے جو انھی عوام کی ووٹ لے کر اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں ۔اگر ان پارٹیوں میں خرچ ہونے والی رقوم کا چندفی صد حصہ بھی ان بے کس عوام کے لیے خرچ کیا جائے تو حالات پر قابو پانا کچھ اتنا مشکل بھی نہیں ۔لیکن ایوان ِ اقتدار کے اے سی فٹیڈ کمروں میں بیٹھے ان نمائندوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ موت کا آفریت کس طرح گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے نڈھال عوام کو گھیرے ہوئے ہے ۔ ان بے بس اور مجبور لوگوں کے لیے عملی اقدامات کرنے کو کوئی تیار نہیں ۔نہ تو تھر کے لیے کوئی عملی اقدامات کئے گئے اور نہ ہی اب کراچی کے لیے ۔وفاقی حکومتی نمائندے صوبائی حکومتی نمائندوں کو ، حکمران سیاسی جماعت کے ارکان سابق حکومت کو ، اپوزیش حکومت کو ، اور حکومت کے اے ایس سی کو مورد ِ الزام ٹھہراتے نظر آتے ہیں ۔کوتاہی کس جگہ ہوئی اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ان اموات کی ذمہ داری کس کے سر آتی ہے ؟

کے ایس سی ، صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت یہ تمام ادارے اس تباہ کن گرمی میں جان سے جاتے لوگوں کی اموات کے ذمہ دار ہیں ۔ رمضان کے با برکت مہینے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی اور پانی کی مناسب فراہمی ممکن بنانا ضروری ہے ۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی ذمہ داری بنیادی طور پر کے ایس سی کے سرآتی ہے ۔ حکومت چاہے وہ صوبائی ہو یا وفاقی پورے صوبے یا پورے ملککے عوام کی جان و مال کی ذمہ دار ہے ۔ حالیہ حکومتی سیاسی جماعت کے مینڈیٹ میں بجلی کے بحران کا خاتمہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا تھا ۔ مسلم لیگ نے الیکشن میں بیسیوں بار یہ وعدہ کیا تھا کہ اس بحران سے جلد از جلد نبٹا جائے گا تا ہم حکومت میں آنے کے تین سال گزر جانے کے باوجود بجلی کا بحران جون کا توں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہو ا ہے ۔ یہ مسلم لیگ ن کے وعدوں کے ناقص ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ سینٹ کا اجلاس ہو یا قومی اسمبلی کا حکومتی ارکان ِ اسمبلی اور اپوزیشن میں زبانی کلامی جنگ کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ وفاقی وزیر برائے پانی وبجلی پر جب کراچی میں ہونے والی بدترین لوڈشیڈنگ کا الزام لگایا جاتا ہے تو جواب میں وہ بجائے اس کے کہ کوئی ہنگامی کارکردگی کا مظاہرہ کریں وہ تنقید کرنے والوں پر برستے نظر آتے ہیں ۔

وفاقی حکومت کی کوتاہیاں اپنی جگہ اب جائزہ لیجئیے !صوبائی حکومت کی کارکردگی کا ۔ سند ھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی جو ایک طویل عرصے سے نہ صرف حکومت میں ہے بلکہ کراچی اور اس کے گرد ونواح میں ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کا ایک واضع مینڈیٹ موجود ہے۔پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی نمائندے، اور پارٹی کی عالیٰ قیادت اس مشکل وقت میں بجائے اس کے عوام کا ساتھ دیتے ، پانی کی فراہمی یا بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرتے ، ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اوربلاول بھٹو زرداری ، آصف علی زرادی اور کئی وزراء بھی بیرون ِ ملک روانہ ہو چکے ہیں ۔جبکہ متحد ہ قومی مومینٹ بھی تنقید برائے تنقید میں مصروف ِ عمل ہے ۔

سیاسی جماعتوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ گرمی سے متاثرہ افراد جو کہ ہسپتالوں میں زیر ِ علاج ہیں ان کی خبر گیری کو کوئی وزیر اول توآتا ہی نہیں اگر آتا ہے تو سیکیورٹی کے نام پر ہسپتالوں میں مریضوں اور ان کے لواحقین کے لیے ہسپتالوں کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ۔وزراء یا سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا ہسپتال میں نہ آنا ، مریضوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا جہاں ایک المیہ ہے وہاں ان کا آنا ، وی آئی پی مومینٹ اور سیکیورٹی کے نام پر ہسپتالوں میں سخت پابندیوں کا لگ جانا ایک الگ وبال ِ جان ہے ۔اتنے زیادہ جانی نقصان کے بعد وزیراعظم نے کراچی کا دورہ کیا ۔ وفاقی وزیر برائے بجلی و پانی نے لوڈشیڈنگ کی بجائے گرمی کو موردِ الزام ٹھہرایا ۔لفاظی کی جنگ میں ہر ایک پارٹی دوسری پارٹی سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے لیکن جہاں عملی اقدامات کی بات آتی ہے وہاں کوئی پارٹی نظر نہیں آتی ۔

اس مشکل وقت میں اگر کوئی ادارہ کام کرتا نظر آتا ہے تو وہ صرف فوج اور رینجر ز ہیں ۔ پاک فوج نے کراچی میں کئی بحالی کیمپ لگائے ہیں جن میں پینے کے صاف پانی کا وافر انتظام موجود ہے ۔اس کے علاوہ پاک فوج کے ڈاکٹر ہر لمحہ ان کیمپوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح گرمی سے ہونے والی اموات میں کمی لائی جا سکے ۔

مذکورہ حالات کو اگرسامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کراچی کے مکینوں کو موت کے اس شکنجے سے باہر نکالنے کے لیے کسی کانفرنس، کسی ٹی وی شو کی نسبت عملی اقدامات کی ازحد ضرورت ہے ۔ وفاق اور دوسرے صوبوں کو اس آفت زدہ شہر کے لیے امداد کے طور پر پینے کا صاف پانی ، پنکھوں کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے ۔ حکومت ِ سندھ کو ہر ایک صوبائی کارکن کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ کر اس کو عوام پر خرچ کرنی چاہیے ۔ نہ صرف حکومت بلکہرمضان کے اس بابرکت مہینے میں مخیر حضرات کو بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہیے۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149512 views i write what i feel .. View More