وہ حقیقت پھر سامنے آگئی

تو ثابت ہوا کہ ابھی آزادی اور خودمختاری کی منزل سے ہم کوسوں دور ہیں۔ یہ حقیقت تو بار بار ثابت ہوچکی ہے اور ہر بار ظاہر ہوکر ہمیں شرمندہ کرجاتی ہے۔ تازہ ترین اظہار بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک این جی او کی پاکستان میں بندش کے بعد ہوا۔ عوام اس فیصلے پر حیران تھے کہ ہمارے حکم رانوں نے ایسی جرأت کا مظاہرہ کیسے کر دکھایا، لیکن چند ہی دنوں میں یہ خوش گوار حیرت خاک ہوگئی۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی یہ ’’نان گورنمنٹل آرگنائزیشن‘‘ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے، جس کا مقصد اچھی تعلیم، حفظانِ صحت اور معاشی مواقع کی فراہی کے ذریعے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے حالات بہتر بنانا ہے۔ مقصد تو بہت نیک ہے، اور یقیناً ایسے ہی مقاصد کے لیے ملک بھر میں کام کرتی دیگر غیرملکی این جی اوز کی طرح یہ این جی او بھی اپنے اس نیک مقصد کے لیے فعال رہی ہے، لیکن نیک مقاصد اور خیر کے کام کرنے والے کسی ادارے یا تنظیم کو بھی یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی بیرونی قوت کی آلۂ کار بن جائے، اور اس این جی او نے یہی کچھ کیا۔

اس ادارے کی پاکستان میں سرگرمیاں اس وقت مشکوک قرار پائیں جب یہ انکشاف ہوا کہ سی آئی اے کے منصوبے کے تحت اسامہ بن لادن کی موجودگی کا سراغ لگانے کے لیے ایبٹ آباد میں ویکسینشن مہم چلانے والا ڈاکٹرشکیل آفریدی اس این جی اوسے وابستہ ہے، جس کے بعد حکومتی اداروں کی جانب سے اس این جی اور پر نظر رکھی جانے لگی۔ آخرکار گذشتہ ماہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عاید کرتے ہوئے اس این جی او کی سرگرمیوں پر پابندی عاید کردی گئی، اس کے دفاتر سربہ مہر کردیے گئے اور اس این جی او کے پاکستان میں تعینات غیرملکی حکام اور عملے کو پندرہ روز کے اندر پاکستان چھوڑنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔ خبروں کے مطابق اس این جی او کی سرگرمیوں کی کافی عرصے سے نگرانی کی جارہی تھی اور وفاقی وزارت داخلہ کے ایک اہل کار کے مطابق،’’وہ کچھ ایسا کر رہے تھے جو پاکستان کے مفاد کے خلاف تھا۔‘‘

ابھی بچوں کے حقوق اور تحفظ کے نام پر متحرک اس این جی او پر پاکستان میں پابندی عاید ہونے کی خبر حکومت کے اس فیصلے پر عوام کو حیران کیے ہوئے تھی کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر یہ خبریں تواتر کے ساتھ آنے لگیں کہ حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ مذکورہ این جی او پر پابندی عاید کرنے کا فیصلہ واپس لے۔ ان خبروں کے سامنے آتے ہی اپنے ملک کے حالات اور ہماری حکومتوں کی حالت سے واقف ہر پاکستانی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ این جی او پر پابندی کا جو فیصلہ سینہ تان کر اور سر اٹھا کر سامنے آیا ہے، بہت جلد سر جھکائے، شرمندہ اور خوف زدہ واپس جا رہا ہوگا۔ اور یہی ہوا، حکومت نے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور مذکورہ این جی او سے پابندی اٹھالی، اس کے سربہ مہر کیے جانے والے دفاتر کھول دیے گئے۔ تاہم یہ شرط عاید کردی گئی ہے کہ یہ ادارہ فاٹا سمیت ملک کے حساس علاقوں میں کام نہیں کر سکے گا۔ چلیے، کچھ حدود تو متعین کی گئیں، مگر سوال یہ ہے کہ اس وقت ملک کا کون سا علاقہ حساس نہیں؟ کیا ملک کا دارالحکومت اسلام آباد، جہاں اس این جی او کا دفتر واقع ہے، غیرحساس علاقہ ہے؟

حکمرانوں نے نہ اس این جی او پر پابندی لگاتے وقت یہ بتایا کہ آخر وہ کون سی سرگرمیاں تھیں جن کی بنا پر اس ادارے کو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے بوریابستر گول کرنے کا حکم صادر کیا گیا، اور نہ ہی یہ فیصلہ واپس لیتے وقت عوام کو آگاہ کرنے اور حقائق سامنے لانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ عجیب بات ہے کہ عوام جو حکم رانوں کے ہر فیصلے اور ہر پالیسی سے متاثر ہوتے ہیں اس امر سے اکثر بے خبر ہی رکھے جاتے ہیں کہ کوئی فیصلہ کیا گیا تو کیوں اور واپس لیا گیا تو کیوں۔ چلیے صاحب ’’ملکی مفاد‘‘ میں عوام کو کچھ نہ بتائیے، لیکن اتنا پوچھنے کا تو ہم حق رکھتے ہیں کہ جس ادارے کا ملک کی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونا ثابت ہوچکا ہے اسے اس سرزمین پر کام کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے اور کیوں دی گئی ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ ایسی تنظیموں سے عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو فائدہ ہوتا ہے جو ان کے تعلیم، صحت اور دیگر سماجی مقاصد کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے استفادہ کرتے ہیں، لیکن کیا اس بنیاد پر ہم اپنے دیس میں بیرونی قوتوں اور غیرملکی ایجنسیوں کے جال بُننے کی اجازت دے سکتے ہیں؟

مذکورہ این جی او پر پابندی لگاکر واپس لینے کا فیصلہ ایسے ہی دباؤ کا نتیجہ ہے جس کا ہم بار بار شکار ہوئے ہیں اور نہ جانے کب تک ہوتے رہیں گے۔ اس دباؤ کے تحت ہماری بستیوں سے لوگوں کو اٹھا کر لے جایا گیا، ڈرون حملے دہشت گردوں کے ساتھ کتنے ہی معصوم پاکستانیوں کے گھروں کو اجاڑ گئے لیکن ہم انھیں روک نہ پائے، اور پھر سی آئی اے کے بھیجے ہوئے جاسوس ریمنڈڈیوس نے شاید ہم پاکستانیوں کو ہماری خودمختاری کا احساس دلانے کے لیے لاہور میں دو پاکستانیوں کو مارڈالا۔ بہت شور ہوا، بڑے نعرے لگے، عوام اپنے ہم وطنوں کے قاتل کے خلاف سراپا احتجاج تھے، لیکن پھر ایک پُراسرار چکر چلا اور دو معصوم پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس ہماری آزادی اور خودمختاری کا مذاق اڑاتا جیل سے نکلا اور اپنے ملک جاپہنچا۔ اب تو اس سانحے کا کوئی ذکر بھی نہیں کرتا۔

یہ سچ ہے کہ سیاسی آزادی اور خودمختاری معاشی آزادی، استحکام اور خود مختاری کے بغیر صرف نعرہ اور دعویٰ ہی ہوسکتی ہے، لیکن کیا بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ معاشی استحکام اور آزادی کی منزل آنے دیں گی؟ بدعنوانی سے نجات ہی ہمیں دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل بناسکتی ہے، ورنہ جس این جی او کو ہم ملک سے نکالنا چاہیں گے وہ پوری شان سے یہاں کام کرتی رہے گی اور جس ریمنڈ ڈیوس کو ہم ملک میں روکنا چاہیں گے وہ ہمیں چِڑاتا اپنے وطن پرواز کرجائے گا۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311698 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.