کیا حکمران بھی 2017ء تک بجلی کے بغیر صبر کرسکتے ہیں ؟

وزیر اعظم نواز شریف فرماتے ہیں کہ دسمبر 2017ء تک بجلی کے بارے میں صبر کریں ۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ توصبر کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کاش حکمران بھی بجلی کے بغیر عوام کی طرح زندہ رہنا اور صبر کرنا سیکھ لیں۔لیکن اس وقت عوام کو سخت غصہ آتا ہے جب خود پینٹ کوٹ پہن کر عوام کو نصیحت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اسے کہتے ہیں دوسروں کو نصیحت خودمیاں فصیحت۔ اعدادو شمار کے مطابق حکومتی ایوانوں میں بجلی کی کل پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ کسی تعطل کے بغیر خرچ ہوتا ہے ۔ ایک ہزار فیڈر ایسے ہیں جہاں بجلی کسی بھی وقت بند نہیں ہوتی لیکن کتنے ہی عوامی فیڈر ایسے ہیں جہاں بجلی 24 گھنٹے بھی بعض اوقات میسر نہیں رہتی۔ سسٹم کی ابتری اور بوسیدگی کاعالم یہ ہے کہ تھوڑی سی تیزی ہوا چلتی ہے تو لاہور جیسا شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے وہ علاقے خود قسمت کہلاتے ہیں جہاں ایک آدھ گھنٹے بعد بجلی بحال ہوجاتی ہے وگرنہ روزے کی حالت میں تڑپنا ٗ پسینے میں نہانا اور بار بار لیسکو اتھارٹی کے دفتروں کے چکر کاٹنا عوام کامقدر بن جاتاہے ۔ میں والٹن روڈ لاہورکے جس محلے میں رہتا ہوں وہاں گزشتہ کئی سالوں سے ایک ہی ٹرانسفارمرنے زندگی اجیرن کررکھی ہے ۔ لیسکو اتھارٹی کو اتنی توفیق نہیں کہ وہ ایک کی بجائے دو ٹرانسفارمر لگا دے۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب سارا دن بجلی میسر رہے۔ افطاری سے کچھ پہلے ایک سلائیڈ ٹی وی پر چل رہی تھی کہ ایک لائن سپرنٹنڈنٹ نے 75 لاکھ روپے کا ٹرانسفارمر فروخت کرکے رقم جیب میں ڈال لی اور وہ پھر بھی اپنی نوکری پر قائم ہے۔ گویا 75لاکھ روپے کی چوری اہم واقعہ نہیں ہے ۔کسی واقف کار نے بتایا لائن سپرنٹنڈنٹ کو چوروں کی نانی کہاجاتا ہے وہ اپنے خرچے بھی کرتا ہے اور افسران کی فرمائشیں پوری کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے لیسکو کاپٹواری کہاجاتاہے ۔اس نے مزید بتایا کہ ایس ڈی او سے چیف ایگزیکٹو تک سب کرپٹ اور آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ان فیڈر پر بجلی بند نہیں کی جاتی جہاں سے بھاری رقم بطور رشوت ملتی ہے۔ نااہلی ٗ رشوت خوری اورکرپشن کی یہ صورت حال صرف لاہور تک ہی محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی بجلی کی تنصیبات ہیں سب چور اکٹھے ہوکر صارفین اور محکمے دونوں کو لوٹ رہے ہیں۔پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ خواجہ آصف اور عابد شیر کو شرم چھو کر بھی نہیں گزری وہ معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھا رہے ہیں۔ان عقل کے اندھوں سے کوئی یہ پوچھے کہ تین سو یونٹ بجلی کا بل اگر پانچ ہزار آئے گاتو کون اے سی اور ائیر کولر چلانے کی جرات کرے گا۔ میں نے کتنے ہی لوگوں کو جھولی اٹھا کر بدعا دیتے ہوئے دیکھا ہے۔نواز شریف کراچی گئے تو ہیں لیکن کراچی کی عوام کے لیے کوئی ریلیف یا اچھی خبر سنا کے نہیں آئے اور پیپلز پارٹی کے انہی کرپٹ اور خائن وزیر اعلی کو ذمہ دار افرادکے خلاف کاروائی کا حکم دے کر اسلام آبادلوٹ آئے ہیں۔وزیر اعظم یہ کہتے ہوئے شاید بھول گئے ہیں کہ یہی وزیر اعلی سندھ چند دن پہلے وفاقی حکومت کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے اور دھرنا بھی دے چکے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہاہے کہ حکمران کراچی کے ہوں یا اسلام آباد کے ۔ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں اورعوام کی رگوں میں جو چند بوند خون رہ گیا ہے اسے جلد سے جلد نچوڑ لینا چاہتے ہیں ۔اگراب بھی ایمرجنسی نافذ کرکے تمام سرکاری دفتروں ٗ حکومتی ایوانوں ٗ بنکوں ٗ فائیو سٹار ہوٹلوں ٗ کاروباری پلازوں ٗ ڈیپارٹمنٹل سٹوروں کے ائیرکنڈیشنڈ ز بندکردیئے جائیں ۔تو موجودہ بجلی پوری قوم کے لیے وافر ہوجائے گی۔پھر وزیر بجلی کہتے ہیں کہ بجلی چوری بہت ہورہی ہے لیکن یہ کہتے ہوئے مشیر بجلی کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے کہ بجلی چوری کرنے والے آدھے سے زیادہ لوگ پارلیمنٹ میں شیروانی پہن کر بیٹھے ہوئے جن کے خلاف حکومت چاہتے ہوئے بھی کاروائی نہیں کرسکتی ۔ پھر بجلی اس وقت تک چوری نہیں ہوسکتی جب تک واپڈا کے متعلقہ اہلکار اس میں ملوث نہ ہوں۔ گزشتہ دنوں لیسکو اتھارٹی کے جنرل مینجر آپریشنز کو ایف آئی اے نے کرپشن کے الزام میں گرفتار کیاتھا اس بعد کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس گرفتاری کا کیا بنا۔ وہ محکمہ جس کا کام کرپشن اور رشوت کو روکناہوتاہے وہ خود کرپشن روکنے کی بجائے آنٹی کرپشن( یعنی کرپشن کی خالہ ) بن جاتا ہے۔پورے ملک میں کرپشن اور رشوت خوری کایہی حال ہے ۔جنہوں نے کرپشن اور چوربازاری پر سزا دینی ہوتی ہے اگر وہی ملوث ہوجائیں تو اس محکمے کا بیڑہ غرق تو ہونا ہی ہوتاہے۔ عوام کے دیئے بھاری بلوں کی رقم افسروں کی تنخواہوں اورمراعات پر خرچ ہوجاتی ہے تو بجلی پیداکرنے والے پاوریونٹوں کے بل کہاں سے ادا ہوں گے ۔اس محکمے کے پاس نہ سسٹم کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے کے لیے فنڈ ہیں اور نہ نئے ٹرانسفارمر خریدنے کے ۔ لیکن افسروں کو مفت بجلی ٗ مہنگی گاڑیاں اور بھاری تنخواہیں دینے کے لیے بہت پیسے ہیں ۔گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک خبر چل رہی تھی کہ لیسکو کے پاس 36 ہزار سنگل فیز میٹر موجود ہیں لیکن جب میٹر لگوانے کے لیے لیسکو کے دفتر جائیں تو لائن سپرنٹنڈنٹ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر ہاتھ کے اشارے سے پندرہ ہزار روپے فی میٹر مانگتا ہے اور کہتاہے ۔ پیسے دو ایک ہفتے میں میٹر گھر پر لگواو۔ جو رشوت نہیں دیتا ان کو سالہاسال تک کنکشن نہیں ملتا ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ نواز شریف اپنے چہیتے خواجہ آصف اور عابد شیر جیسے نااہل اور عوام دشمنوں کو برطرف کردیتے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان( جن کا یہ دعوی ہے کہ وہ تین مہینوں میں بجلی کی قلت کو دور کرکے انتہائی سستی بجلی پیدا کرسکتے ہیں) کو ایک بار پھر کام کرنے کا موقعہ فراہم کریں ۔جنرل ذوالفقار علی سابقہ چیرمین واپڈا بھی یہی بات کہہ چکے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف کو مرتے ہوئے لوگوں پر ترس نہیں آتا کہ انہیں خرکاروں کے سپرد بجلی کامحکمہ کررکھاہے ۔مجھے ڈر ہے کہ نواز شریف کے اچھے کارنامے اور منصوبے بھی کہیں لوڈشیڈنگ کی نذرنہ ہوجائیں ۔بلدیاتی الیکشن سر پر ہیں ۔جوڈیشنل کمیشن کا فیصلہ کسی بھی وقت آسکتاہے ۔ اس لیے بجلی پیدا کرنے اور سپلائی کرنے والے اداروں کی سرکوبی کے لیے کسی اہل شخص( ڈاکٹر عبدالقدیر خان یاجنرل (ر) ذوالفقار علی سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے ) کووزیر بجلی بنا کر بجلی کے نظام کو اپ ٹو ڈیٹ کیاجائے ۔ اگرایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ ن بھی کہیں عوامی نفرت کا شکار نہ ہوجائے۔ایسے حکمران جو اپنے لیے تو 24 گھنٹے کسی رکاوٹ کے بغیر بجلی مانگتے ہیں لیکن عوام کو مزید دو سال صبر کی تلقین کررہے ہیں ۔خدا کی گرفت سے کیوں نہیں ڈرتے ۔جس کی لاٹھی بے آواز ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.