رواں مون سون کے سیزن کا آغا ز
ہوچکا ہے جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب اور میدانی علاقوں میں بارشیں کچھ کم
ہیں مگر اپر پنجاب اور پہاڑی علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ شدید بارشوں کا
سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ طوفانی بارشوں کے بعد ملک کے مختلف دریاؤں میں سیلاب
کی اطلاعات ہیں۔بارشوں اور برف پگھلنے کے باعث دریاؤں میں سیلاب کی صورتحال
پیدا ہورہی ہے ،اور آئندہ ہونے والی طوفانی بارشوں اور برف پگھلنے سے سیلاب
کا خطرہ مذید بڑھ جائے گا۔
طوفانی بارشوں اور قدرتی آفات سے بچاؤ تو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی
ممکن نہیں ہے، چین اور بھارت سمیت خطے کے کئی ممالک طوفانی بارشوں اور
سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں اور وہاں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوتے ہیں،
البتہ اتنا ضرور ہے کہ بہتر منصوبہ بندی، احساس ذمہ داری اور بروقت اقدامات
سے نقصان کی شدت کو از حد کم کیا جاسکتا ہے۔موجودہ دور کے بہت سے ممالک میں
بہتر نظم و نسق، مستحکم بنیادی ڈھانچے، انسانی زندگی کے تحفظ کی خاطر کیے
جانے والے اعلیٰ پیمانے کے انتظامات کی بدولت بارشوں، سیلاب اور طوفانی برف
باری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات پر فی الفور قابو پانے کی کوشش کی
جاتی ہے اور ناگہانی آفات کے موقع پر عوام کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا
جاتا جبکہ مملکت خداداد پاکستان میں حالات اس کے برعکس ہیں یہاں سنگیں
مسائل پر کمیٹیاں بنتے بنتے اور ان پر کام شروع ہوتے اتنا عرصہ لگتا ہے کہ
پانی سر سے گزر جاتا ہے۔پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ
ہونے کے برابر ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے
نتائج چار پانچ سال سے ہر سال آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت رہی ہے۔پاک
فوج، رفاہی اداروں اور علاقائی رضا کاروں کی طرح حکومتی ادارے اور متعلقہ
حکام بھی عوام کے تحفظ کی خاطر مکمل سنجیدگی، دلچسپی ،خلوص اور احساس ذمہ
داری سے کام لیتے تو یقینا سیلاب زدگان کا نقصان اس سے کہیں کم ہوتا جس کا
گذشتہ سال پوری دنیا نے نظارہ کیا۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ گلوبل وارمنگ ، موسمیاتی تغیر، اور
خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں
اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ اور اب ایک مرتبہ پھر موسمیاتی
تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب کے خطرات کو محسوس
کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات سے ممکنہ بچاؤ کے لیے
حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟ ۔ 2009 ء کے سیلاب کے بعد ملک
بھر کے زرائع ابلاغ اور قومی حلقوں سے نئے بڑے ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت پر
زور دیا گیا تھالیکن اس وقت کی حکومت نے انتہائی سنجیدہ معاملے کوسیاسی
مفادات کی بناء پر نظر انداز کردیا۔ نئے ڈیموں کی تعمیر کو ہماری معیشت کے
لیے ریڑھ کی ہڈی کے مترادف قرار دا جارہا ہے کیوں کہ پانی کے محفوظ ذخائر
کی بدولت ہم نہ صرف زر عی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دو لاکھ میگاواٹ
تک یومیہ مقدار کی بجلی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ فرائض شناسی ، ذمہ داری کا
احساس اور عوام کے ساتھ حقیقی وابستگی ہو تو کم وسائل کے باوجود عوام کو
جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ممکن ہوسکتا ہے ۔ہمارے حکمرانوں کو لازمی طور
پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے، اور ملک کو بحرانوں اور ممکنہ
سیلاب کی بڑے پیمانے پر تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام
شروع کرنا چاہیے، یہ نہ ہو کہ حکمران محض کمیٹیاں بناتے رہیں اور پانی ایک
بار پھر سر سے گزر جائے۔ غربت اور مہنگائی کا شکار عوام پاکستان کسی نئی
آفت اور نئے بحران کو جھیلنے کی سکت بالکل نہیں رکھتی۔ |