بے چارگی کی صلیب پر لٹکی خلق ِ خدا اور گا، گی، گے کا راگ

حکمران کب تک گا، گی اور گے کے راگ الاپتے رہیں گے

ابھی ہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خوش کن بیان”مشکلات کے دو سال گزر گئے، آئندہ تین برسوں میں عوام کو ریلیف دیں گے۔“کی لذت اور چاشنی سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہ ہونے پائے تھے کہ اخبار کی دوسری سرخی”بجلی کے نرخوں میں ایک روپیہ دو پیسے فی یونٹ کا اضافہ کر دیا گیا۔“نے ہمیں اپنی جانب متوجہ کر لیا، ستم ظریفی دیکھئے کہ دونوں خبریں ایک ہی روز قومی اخبارات کے فرنٹ پیج کی زینت بنی، ایک طرف وزیر اعظم کی جانب سے عوام کیلئے ریلیف کا وعدہ، تو دوسری طرف بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ، درحقیقت وزیر اعظم کے عوام کو ریلیف دینے کے مؤثر عزم کا حقیقی اور عملی اظہار کر رہا تھا، یوں وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی دو سالہ کارکردگی کو عوام کی نظروں میں لانے کیلئے جس مہم کا آغاز ریڈیو پر خطاب کے ذریعے کیا تھا، وہ ابھی چوبیس گھنٹے بھی پرانی نہیں ہونے پائی تھی کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی خبر نے عوام سے براہ راست رابطے اور اعتماد سازی کی مہم کے مستقبل اور حکومت کی جانب سے عوامی ریلیف کے وعدوں کی اصل حقیقت کو آشکارا کردیا۔

ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا، نہ ہی موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی کوئی پہلی حکومت ہے جس نے ایسا پہلی بار کیا ہو، ریکارڈ گواہ ہے کہ ہر حکومت نے عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے کئے، انہیں روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنے کے دعوئے کئے، مہنگائی ختم کرنے کی نویدیں سنائیں، نئے ذرائع روزگار پیدا کرنے کے منصوبے بنائے اور غربت کے خاتمے کے سبز باغ دکھائے، لیکن ہماری 62سالہ تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو ”گا“،”گی“اور ”گے“سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا، ہر حکومت انہی راگوں کے ذریعے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتی رہی اور لوگوں کے جذبات و خواہشات سے کھیلتی رہی، ہمیشہ حکومتی ذمہ داران نے کہا کچھ اور کرا کچھ، چنانچہ موجودہ حکومت نے بھی یہی کام کیا، آپ کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم نے اپنی پہلی تقریر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ کنکریٹ لسٹ کا خاتمہ کریں گے، بے روزگاری کے خاتمے کیلئے ایمپلائمنٹ کمیشن بنائیں گے، مدرسہ ویلفیئر اتھارٹی قائم کریں گے، طلبہ یونین سے پابندی اٹھائیں گے، بلوچستان میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے کمیشن بنائیں گے، قبائلی علاقوں کیلئے خصوصی پیکج دیں گے، مفاہمتی کمیشن بنائیں گے، بائیس سو میگاواٹ کے نئے یونٹ لگائیں گے، ایک کروڑ انرجی سیور تقسیم کریں گے، چھوٹے ڈیم بنائیں گے، وزراء سولہ سی سی کی گاڑیاں استعمال کریں گے، کابینہ کا سائز چھوٹا کر کے قومی خزانے پر بوجھ کم کریں گے، فصلوں کی انشورنس اسکیم شروع کریں گے، کسانوں کو کم نرخ پر بیج فراہم کریں گے۔

لیکن ماسوائے چند ایک کے ان میں سے کتنے ہی وعدے ایسے ہیں جو آج بھی ہواؤں میں معلق ہیں، نہ بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکا، نہ ہی بلوچستان میں کشیدگی کم ہوئی، نہ بجلی کی پیداوار کیلئے نئے یونٹس لگائے گئے، نہ ہی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوسکا، نہ انرجی سیور کی تقسیم کئے جاسکے، نہ ہی وزراء نے سولہ سو سی سی کی گاڑیاں استعمال کیں، نہ چھوٹی کابینہ بنی، نہ ہی ڈیم بنائے جاسکے، نہ فصلوں کی انشورنس اسکیم شروع کی گئی، نہ ہی کسانوں کو کم قیمت پر بیج فراہم کئے جاسکے اور نہ ہی مہنگائی ختم ہوسکی، حال یہ ہے کہ آج مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، بے روزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے، ہزاروں کارخانے بند پڑے ہیں، پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، سرمایہ کاری رک چکی ہے اور گلی گلی حکومتی رٹ چیلنج ہورہی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی حکومت گا، گی، گے کے راگ الاپ کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت کواقتدار میں آئے دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، عوام کو توقع تھی کہ موجودہ حکومت خود انحصاری کی پالیسیاں اپنائے گی اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر کے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے گی، مگر بدقسمتی سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، اس وقت پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کا مسئلہ ایک خوفناک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے، محکمہ شماریات کے اعدادو شمار کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں 250 سے 300 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے پندرہ کروڑ انسان مفلوک الحالی کی زندگی بسر کررہے ہیں، جبکہ حکومت جامع معاشی منصوبہ بندی وضع کرنے کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں، جس کے باعث معاشرے کے اندر معاشی طوائف الملوکی پھیل چکی ہے، پورے ملک میں اشیائے صرف کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام ناپید ہے، پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی اکثریت نامعلوم اندھی منزل کی طرف گامزن ہے، جبکہ دوسری طرف ایوان اقتدار میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے عوام کی بات کرتے ہیں، حکومت بھی عوامی ریلیف کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے خاتمے کے بعد عوامی منشا کے مظہر ایوان میں آج تک عوام کے حقیقی اور بنیادی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی ہے، بلکہ اگر یہاں یہ کہا جائے تو قطعاً بے جا نہ ہوگا کہ ہمارا ایوان نمائندگان محض ایک دکھاوے کا ایک ایسا فورم بن چکا ہے جہاں پاکستانی سماج کی استحصالی قوتیں ہر دم عوام سے ایک نئے دھوکے اور دکھاوے کو دوام بخشنے کے لئے الفاظوں کے گورکھ دھندے سے کھیلتی ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں مہنگائی تین سو فیصد تک بڑھی، جبکہ ان دو سالوں میں کئی عدالتی و سیاسی بحران بھی آئے اور حکومتی پسپائیوں کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے،اس دوران حکومت نے تمام عرصہ بحران پیدا کرنے اور پھر اس کے خاتمے کی مشق جاری رکھی اور عوام کے مسائل کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا، جس کی وجہ سے اب معیشت ایک ایسے مقام پر جاکھڑی ہوئی ہے کہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، سترہ کروڑ عوام بھوک غربت مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں، مگر عوامی نمائندے اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے کے بجائے سینٹ اور قومی اسمبلی میں بحثیں اور تقریریں کر رہے ہیں، طرفہ تماشہ دیکھئے کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں کہ لوگ بھوک سے بلک رہے ہیں، مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، لیکن وہ صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے، عوامی حقوق کی لڑائی نہیں لڑتے، اُن کیلئے سڑکوں پر نہیں آتے، بھوک ہڑتال نہیں کرتے، نہ جانے کتنے غریب اور مفلوک الحال لوگ بھوک سے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں، مگر یہ رہبران قوم، نام نہاد رہنما اور خود ساختہ مسیحاؤں کو اپنے مفادات کے تحفظ سوا کسی کی فکر نہیں، یہ تو صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں غربت، بھوک اور مہنگائی پر بحثیں کرتے ہیں۔

پاکستانی عوام مسلسل 62 سالوں سے سیاست دانوں کی شعبدہ بازیاں دیکھتی چلی آرہی ہے، 18فروری کے الیکشن کے بعد قوم کو پیپلزپارٹی سے امید تھی کہ ایک عوامی جماعت ہونے کے ناطے وہ ان کی پریشانیوں اور دکھوں کا مداوا کرے گی، مگر ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ امیدیں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں، بے روزگاری، مہنگائی، بجلی، سوئی گیس کے بحران نے عوام کو ہلکان کر کے رکھ دیا ہے، گو کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی وقتاً فوقتاً یقین دہانی کراتے رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ دور دور تک اس کی کوئی عملی تصویر نظر نہیں آتی، جبکہ دوسری طرف حکمران طبقہ کی شاہ خرچیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں، عوام نے آمریت کے خلاف، جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں اس لئے دی تھیں کہ ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہونگی، مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نجات ملے گی، جان و مال کا تحفظ حاصل ہوگا، لیکن جمہوری حکومت کے دور میں سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے، ایک طرف دہشت گردی اور غیر ملکی مداخلت کا عفریت عوام کو نگل رہا ہے تو دوسری طرف مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان عوام سے جینے کی امنگیں چھین رہا ہے، مہنگائی کی ستائی ہوئی بے حال عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہے، جبکہ پرتعیش رہائش گاہوں، بڑے بڑے بنگلوں اور سرکاری خرچ پر زندگی کی ہر سہولت سے لطف اندوز ہونے والے ارباب اقتدار جن کی اپنی اولادیں یورپ اور امریکہ کے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں پڑھ رہی ہیں، عوام کو مزید قربانی، صبر اور برداشت کی تلقین کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ملک کا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے، تو انہوں نے فرمایا لا اینڈ آرڈر، دہشت گردی اور لاقانونیت ختم ہو جائے گی تو مہنگائی بھی کم ہو جائے گی، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ حکومت نے جن جیالوں کو نوکریوں پر بحال کیا، انہیں کئی سالوں کے واجبات بھی ادا کئے، اس وقت تو ان سے یہ نہیں کہا گیا کہ جب دہشت گردی ختم ہوگی تب تمہیں نوکریوں پر بحال کیا جائے گا، نہ ہی حکومت نے اپنے وزیروں اور مشیروں کی تعداد گھٹائی گئی، نہ ہی اپنے بیرونی دورے کم کیے، دوسال کے دوران حکومت کے کسی عمل سے ایسا نہیں لگا کہ وہ اپنے اخراجات کم کر کے قومی خزانے کو بچانا چاہتی ہے، نہ ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے وقت یہ عذر پیش کیا گیا کہ دہشت گردی ختم ہوگی تو تنخواہیں بڑھائی جائیں گی، آج بھی صدر، وزیر اعظم، وزیروں، مشیروں اور بیورو کریٹوں کے تو وہی ٹھاٹ باٹ ہیں، قوم کو پینے کیلئے گندا پانی بھی دستاب نہیں، لیکن یہ خود باہر سے منگوائے ہوئے منرل واٹر سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، آج ایک غریب آدمی کو سرکاری ہسپتال سے معمولی دوا بھی نہیں ملتی لیکن ایم این اے، سینیٹر، وزیروں اور مشیر وں کو بیرون ملک علاج کرانے کی سہولت میسر ہے۔

چنانچہ ان عوامل کی روشنی میں ہم وزیر اعظم سے سوال کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی وجہ سے جو مہنگائی بڑھی طبقہ اشرافیہ کے کتنے لوگ اس کی زد میں آئے اور کتنوں کی طرز زندگی میں تبدیلی واقع ہوئی؟ کتنے لوگوں نے اپنے بچوں کو مہنگے اسکولوں سے ہٹا کر عام اسکولوں میں داخل کرا دیا، کتنے لوگوں نے لگژری گاڑیوں کا استعمال چھوڑ کر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر شروع کر دیا اور کتنے لوگوں نے ون ڈش پر گزارہ کرنا شروع کر دیا، آج محترم وزیراعظم مہنگائی کے خاتمے کو دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط کر رہے ہیں، گویا اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اگر دہشت گردی مزید کچھ سال چلتی رہی تو مہنگائی بھی بڑھتی رہے گی، اس اعتبار سے اگلے دو تین سالوں میں مزید دو تین سو فیصد تک اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی تصویر بتا رہی کہ لوگ بھوک و افلاس اور بے روزگاری کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مریں گے یا پھر حالات انہیں کسی خونی انقلاب کے راستے پر لے جائیں، ایسی صورت میں نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری اور عوام کا سیلابی ریلا خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا کر لے جائے گا، لہٰذا موجودہ حکومت جو کہ روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کے نعرے پر وجود میں آئی ہے کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے نعرے کو حقیقی رنگ دینے کیلئے عوام دشمن فیصلوں سے اجتناب کرتے ہوئے غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بروقت انقلابی اقدامات کرے اور ایسی پالیسیاں وضع کرے جس سے مہنگائی کی پسی ہوئی عوام سکھ کا سانس لے سکے اور اس کے احساس محرومی کا خاتمہ ہوسکے۔

ہماری ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اس قول کا ضرور مطالعہ کریں جو انہوں نے 1974ء میں شہداد کوٹ جیسے ایک پسماندہ قصبے میں حکومت کی جانب سے مل لگانے کی اُس سرکاری فائل پر لکھا تھا جس کے فیزیبلٹی رپورٹ پر ڈپٹی سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور سیکرٹری سمیٹ تمام بیوروکریٹس نے زمینی حقائق پر توجہ دینے کی گزارش کرتے ہوئے اس منصوبے کو غیر مناسب قرار دیا تھا، لیکن بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ ”سیاست کی سب سے بڑی گراؤنڈ ریالٹی عوام ہوتے ہیں، یہ مل شہداد کوٹ کے عوام کی ضرورت ہے اور میں نے شہداد کوٹ کی عوام سے اس مل کا وعدہ کیا ہے، اگر میں ایک عوامی لیڈر ہوں تو مجھے اس ڈیمانڈ کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس وعدے سے بھاگنا نہیں چاہئے۔“ اس کے بعد بھٹو صاحب اُس فائل پر موجود تمام کمنٹس کو رد کرتے ہوئے ولیم شیکسپیئر کا ایک قول”میرا اصلی فخر میرا وعدہ ہے، میرے وعدوں نے مجھے ایک ساکھ دی ہے اور یہ ساکھ ہی میرا خزانہ ہے۔“لکھ کر حکم دیا کہ یہ مل ہر صورت میں لگنی چاہیے۔

قارئین محترم حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام بڑے اور عظیم سیاسی لیڈروں کا فخر، شناخت، ساکھ اور خزانہ اُن کے وہ وعدے ہوتے ہیں جو وہ اپنے عوام سے پورے کرتے ہیں اور جس کی وجہ عوام انہیں اپنے دلوں میں ہمیشہ کیلئے امر کر لیتے ہیں، محترم وزیر اعظم اور جناب صدر مملکت ابھی بھی وقت ہے آپ اگر عوام کے دلوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں تو عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پاس کریں، یاد رکھیں جو حکمران اپنے وعدوں کا پاس نہیں کرتے عوام انہیں حرف غلط کی طرح صفحہ وقت سے مٹا دیتے ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357762 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More