کیا کھویا ، کیاپایا
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
آج سے ایک ماہ پانچ دِن بعدمیرا
وطن 68 سال کاہو جائے گااورہم اِس کی اُنہترویں سالگرہ مناتے ہوئے لہک لہک
کرگا رہے ہوں گے ’’سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم قدم آبادتجھے‘‘۔ اِن اڑسٹھ
سالوں میں ہم نے بہت ترقی کی کیونکہ ہمارے نزدیک ’’ترقی توترقی ہوتی ہے ،خواہ
وہ ترقیِ معکوس ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ سڑے بُسے تجزیہ نگاروں کی آنکھوں میں شائد
’’کُکرے‘‘ہیں جواُنہیں یہ بھی نظرنہیں آتا کہ اِن اڑسٹھ سالوں میں ہم نے
کھویاکچھ نہیں ،بس پایاہی پایاہے۔ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعدتو ہماری
ترقی میں اتنی تیزی آگئی کہ پنڈت جواہرلال نہروکو بھی کہناپڑا’’میں اتنے
پاجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیرِاعظم بدلتے ہیں‘‘۔ دراصل بھارت
کوہمارے ہرمعاملے میں ’’ایویں خواہ مخوا‘‘ ٹانگ اڑانے کی عادت ہے۔ حقیقت یہ
ہے کہ آئین ہر پاکستانی کو وزیرِاعظم بننے کاحق دیتاہے اوراسی لیے ہم
وزیرِاعظم پہ وزیرِاعظم بدلتے چلے گئے تا کہ کوئی رہ نہ جائے ۔چونکہ نہروکی
شرارت کا جواب دینابھی ضروری تھااِس لیے ہم وزیرِاعظم ،وزیرِاعظم
کھیلناچھوڑ کر ایوب خاں کو لے آئے۔ ایوب خاں کے دَس سالہ دَورِحکومت میں
سیاستدان گھربیٹھ کراپنی تھکن اتارتے رہے اوربعض نے توسیاست کے نئے نئے
گُرسیکھنے کے لیے ’’ٹیوٹر‘‘ بھی رکھ لیے۔ آکسفورڈکے پڑھے ذوالفقارعلی
بھٹوالبتہ تھوڑے چالاک نکلے جنہوں نے ’’ہوم ٹیوشن‘‘ کی بجائے فوج کی نرسری
’’جوائن‘‘ کرلی۔ ایوب خاں کی 19 رکنی کابینہ میں بھٹومرحوم واحد سویلین تھے
،باقی سب فوجی۔ ایوب خاں کو ’’ڈیڈی‘‘ کہنے والے ذوالفقارعلی بھٹونے ترقی
کاایک زینہ طے کرتے ہوئے اپنے ’’ڈیڈی‘‘ سے ہی بغاوت کر ڈالی جس کے نتیجے
میں یحییٰ خاں برسرِاقتدار آئے ۔ اُن کاقوم پریہ ’’عظیم احسان‘‘ ہمیشہ
یادرہے گاکہ مشرقی پاکستان نامی’ ’خواہ مخوا‘‘ کے بوجھ سے پاکستان
کوچھٹکارا دلادیا لیکن ہمیں اُن کی یہ اداپسند نہیں آئی اورہم ذوالفقارعلی
بھٹو کولے آئے۔ بھٹومرحوم نے 1977ء کے ’’شفاف ترین‘‘ انتخابات کرواکر نئی
تاریخ رقم کی لیکن یہ انتخابات ’’مولویوں‘‘ کوپسند آئے نہ سیاستدانوں کو
کیونکہ بھٹو دو،تہائی اکثریت سے جیت گئے اور 9 جماعتوں کے اتحاد(پی این اے)
کے حصے میں ’’کَکھ‘‘ نہ آیا۔ دھاندلی کاشورمچا اورقوم سڑکوں پر۔ یوں توپی
این اے9 جماعتوں پر مشتمل تھالیکن صفِ اوّل میں جماعت اسلامی اوراسلامی
جمعیت طلباء ہی تھی ۔اسی زمانے میں پی این اے کی احتجاج کرتی خواتین کوسبق
سکھانے کے لیے بھٹومرحوم نے پولیس کی خواتین فورس قائم کی جسے پی این اے نے
’’نَتھ فورس‘‘ کانام دیا۔ دھاندلی کاشور جب اپنے عروج پرپہنچا توضیاء الحق
بطور ’’منصف‘‘ٹپک پڑے ۔اُنہوں نے 90 دنوں میں نئے انتخابات کاوعدہ کیالیکن
ہماری ترقی کاتو رازہی یہ ہے کہ ہم وعدے وفانہیں کرتے ۔ویسے بھی ہمارے ہاں
’’وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے‘‘۔ ضیاء مرحوم کاپروگرام تونوے کی بجائے 9
ہزاردنوں تک حکومت کرنے کاتھا لیکن موت نے اُنہیں بیچ سے ہی اُچک لیا۔اُس
زمانے میں یہ لطیفہ بہت مشہورہواکہ ایک جیالے نے دوسرے جیالے سے پوچھا
’’یار! یہ ضیاء الحق کب جان چھوڑے گا‘‘۔ دوسرے جیالے نے جل بھُن کوجواب دیا
’’اُس نے قوم کو پورا قُرآنِ پاک سنائے بغیرجان نہیں چھوڑنی اور ابھی تواُس
نے قُرآنِ پاک کی پہلی ہی سورۃ سنائی ہے‘‘۔
ضیاء الحق کی رحلت کے بعدمیاں نواز شریف اورمحترمہ بینظیر کے مابین
اقتدارکی ’’سانپ ،سیڑھی ‘‘کا کھیل شروع ہوا۔ کبھی بینظیر مسندِاقتدارپر
توکبھی نوازشریف ۔جب اقتدارکے اِس کھیل نے طوالت اختیارکی توپرویزمشرف نے
تنگ آکر دونوں کی چھٹی کروادی اورخود’’طبلے سارنگی‘‘سمیت ایوانِ صدرمیں
براجمان ہوگئے۔ اُن کے دَورمیں ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ بہت مقبول
ہوا لیکن آصف زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘کانعرہ لگاکرپرویز مشرف کے نعرے سے
ہوانکال دی۔ پرویزمشرف گارڈآف آنرکے ساتھ رخصت ہوئے اورزرداری صاحب پاکستان
’’کھپانے‘‘کے لیے ایوانِ صدرآن پہنچے۔ اُنہوں نے اپنے پانچ سالہ دَورِ
حکومت میں بہت ترقی کی جس کی بازگشت آجکل سندھ میں سنائی دے رہی ہے اورپاک
فوج کی سربراہی میں رینجرز فورس زرداری صاحب کی ترقی کے سارے راز ایک ایک
کرکے افشاء کرتی جا رہی ہے ۔ آجکل میاں نواز شریف صاحب اقتدارکے مزے لوٹ
رہے ہیں۔ ملک میں سڑکوں کا جال بچھایاجا رہاہے تاکہ ’’بھاگنے‘‘میں آسانی
رہے ۔ پاک چائنادوستی کی علامت کے طورپر ’’اقتصادی راہداری‘‘ بھی بنائی
جارہی ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اِس کی تکمیل پر پاکستان کی
تقدیربدل جائے گی۔ ہم توبچپن سے ہی یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان کی
تقدیربدلنے والی ہے لیکن ہوا ’’کَکھ‘‘ بھی نہیں۔ اب دیکھیں یہ اقتصادی
راہداری کیا گُل کھلاتی ہے۔
ڈاکٹرسلیم اخترنے اُردوادب کی مختصرترین تاریخ لکھی جسے ہم نے دَورانِ
تعلیم طوطے کی طرح ’’رَٹ‘‘ لیا۔ آج ہم نے بھی پاکستان کی مختصرترین تاریخ
لکھ ماری ،نسلِ نَوکو چاہیے کہ وہ بھی اس کا ’’رَٹا‘‘ لگالے تاکہ سندرہے
اوربوقتِ ضرورت کام آئے لیکن ذراٹھہریے ،یہ تاریخ ادھوری ہے ،پوری توصرف
اُس وقت ہوگی جب اُس عظیم کردارکا ذکرکیا جائے گا جس نے قوم سے
’’نیاپاکستان‘‘بنانے کاوعدہ کیاہے۔ نیاپاکستان بنانے کی بنیادتو ’’ڈھول
ڈھمکے‘‘کے شورمیں رکھی جاچکی لیکن درمیان میں دو ’’بیریر‘‘ ایسے آگئے جن کی
بناپر نئے پاکستان کاکام ابھی بنیادوں پر ہی رُکاپڑا ہے۔پہلا’’بیریر ‘‘
تواُس وقت لگا جب خاں صاحب ملک میں’’تبدیلی‘‘ لاتے لاتے اپنے گھر میں
’’تبدیلی‘‘ لے آئے۔ ریحام خاں اُن کی زندگی میں داخل ہوئیں اور وہ
’’گھرگرہستی‘‘ میں مصروف ہوگئے ۔پہلے توخاں صاحب بِلاشرکتِ غیرے
’’ٹھکاٹھک‘‘ فیصلے کرتے چلے جاتے تھے لیکن دروغ بَرگردنِ راوی اب صرف ریحام
خاں کی ہی مرضی چلتی ہے اورہمارے کپتان صاحب توبَس ’’ایویں ای‘‘ہوکر رہ گئے
ہیں۔دوسرا ’’بیریر‘‘ ڈی جے بَٹ نے محض 8 کروڑروپے کی خاطرلگا دیا ۔ ڈی جے
بٹ کہتاہے کہ اُس کے تحریکِ انصاف کی طرف 18 کروڑروپے واجب الاداتھے جن میں
سے 10 مِل گئے اورباقی 8 کروڑکے لیے وعدۂ فردا۔ دھرنوں اور جلسے جلوسوں کا
موسم قریب ہے اوراگر جلسوں میں ڈی جے بٹ نہ ہواتو کیاخاک مزہ آئے گا۔وہ
تحریکِ انصاف کاجزوِ لاینفک ہے جسے منانا بہت ضروری ہے ۔یہ بھی ذہن میں رہے
کہ نوازلیگ ڈی جے بٹ سے مسلسل رابطے میں ہے اور محترم پرویزرشید نے توکہہ
بھی دیاکہ حکومت ڈی جے بٹ کی بھرپورمدد کرے گی ۔ایک ٹاک شومیں خواجہ آصف
سیالکوٹی نے بھی کہاکہ اگرڈی جے بٹ نے رجوع کیاتو ہم اُس کی مددکریں گے۔اِس
لیے ڈی جے بٹ کومنانا اورضروری ہوگیا ہے۔ ہمارے کپتان صاحب کے لیے یہ کوئی
مسلٔہ نہیں۔وہ تو صرف ایک ہی ’’فنڈریزنگ شو‘‘ میں آٹھ ،دَس کروڑاکٹھا
کرلیتے ہیں، بس ایک ’’شو‘‘ کریں اور معاملہ صاف۔ لیگئیے کہتے ہیں کہ
جوجماعت صرف میوزیکل کنسرٹ پر اٹھارہ ،اٹھارہ کروڑصرف کردیتی ہے وہ غریبوں
کا ’’نیاپاکستان‘‘کیاخاک بنائے گی لیکن ہم کہتے ہیں کہ میوزیکل کنسرٹ سے ہی
تو لوگ کھنچے چلے آتے ہیں، اگر میوزیکل شونہ ہو تو’’سونامیے‘‘ آتے ہیں نہ
’’سونامیاں‘‘۔ اِس کاتجربہ ہم دھرنوں کے آخری دنوں میں کرچکے ۔ تب ڈی جے بٹ
کی عدم موجودگی میں دھرنوں کا یہ عالم تھا کہ کنٹینرپر کپتان صاحب سمیت
پندرہ بیس افراداور سامنے ڈیڑھ دوسو سامعین۔ آخری خوشی کی خبر یہ ہے کہ
کپتان صاحب کی قائم کردہ ’’کمیٹی ‘‘نے ڈی جے بٹ کومنا لیا، معاملات طے
ہوگئے اورسونامیوں کو نویدہو کہ اب وہ ایک دفعہ پھر’’دھوم مچانے‘‘ آرہاہے۔
بُری خبریہ کہ انکم ٹیکس والوں نے ڈی جے بٹ کوایک کروڑ اٹھائیس لاکھ روپے
کے ٹیکس کانوٹس بھیج دیاہے ۔یقیناََ یہ نوازلیگ ہی کی ’’شرارت‘‘ ہوگی ۔ہم
توپہلے بھی کہہ چکے کہ ’’یہ نوازلیگیئے ہوتے ہی ایسے ہیں‘‘۔ |
|