ملکی تاریخ میں جہاں سابق صدر
(ر) جنرل پرویز مشرف کو مختلف حوالوں سے یاد رکھا جائے گا وہیں پرنٹ و
الیکٹرانک میڈیا کی آزادی اور ٹی وی چینلز کی بھر مار کا بھی ایک حوالہ
قابل ذکر ہوگا۔ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ پرویز مشرف نے کس قدر میڈیا کو نام
نہاد آزادی اور کس قدر تیزی کے ساتھ نئے ٹی وی چینلز کومیدان میں آنے کی
کھلی چوٹ دی۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پی ٹی وی کو بھی اپنی روایتی نشریات کے ساتھ طریقہ
کار کو بدلنا پڑا۔ لہذا اس وقت اگر پرائیویٹ ٹیوی چینلز کی تعداد درجنوں ہے
تو سرکاری ٹی وی چینل کے بطن سے آنے والے چینلز کی تعداد بھی 10 سے زائد
ہوچکی ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے جہاں عوام کو تفریحی پروگرامات کے ساتھ
تازہ ترین خبروں کی ترسیل نت نئے انداز میں پیش کرنا شروع کیا وہیں مغربی
اور بھارتی ثقافت کی یلغار کے بھی موجب بنے۔
واضخ موقف، مشن اور وژن نہ ہونے کے سبب جو نقصانات درپیش ہوسکتے تھے ان
سبھی سے اس وقت ہمارا ملک گذر رہا ہے۔ پیمرا نامی ادارے نے نئے اور عجیب و
غریب ناموں سے ٹی وی چینل کے لائسنس ایسے دیئے جس کی مثال ملکی تاریخ میں
نہیں ملتی۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں رکھا۔ جس کا نتیجہ عوام کو
بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ملک کے نامور کاروباریوں نے ٹی وی چینلز کے لائسنس لے کر
اپنے کاروبار کو دن دگنی کی شاہراہ پر قائم کیا ان کے ساتھ کچھ نے اپنے
مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے بھی لائسنس حاصل کئے اور اب تک انہیں عملی جامہ
پہنانے میں مصروف عمل ہیں۔ نئے ٹی وی چینلز کی ڈور میں مالکان نے ایسا غیر
پیشہ ورانہ عملہ بھی رکھا جس سے صحافت کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
بعض چینلز نے اپنے ملازمین کو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں ادا نہیں کیں جس کی
وجہ سے کئی ملازمین نے خودکشی کرکے اپنا اختجاج ریکارڈ کرایا۔ اس کے باوجود
پیمرا پر ان قربانیوں سے ان کا احساس بیدار نہیں ہوا۔
پرائیوٹ ٹی وی چینلز کے نقصانات کی اگر بات کی جائے گی تو پھر قصہ بہت دور
تک جائے گا۔ سردست اس سمعے اپنے اصل موضوع کی جانب آتا ہوں۔ پرویز مشرف یا
اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ان ٹی وی چینلز کو اپنے مفاد کیلئے استعمال
کیا۔ جہاں کہیں ان کے مفادات پر انہیں ضرب لگتی محسوس ہوئی تو انہوں نے ان
چینلز کو معاشی نقصانات پہنچا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ مالکان کو جب
نوازا جاتا تو انہیں حکومت کی ہر مہم و کاروائی میں ہر منصوبے اور فیصلے
میں خیر ہی خیر اور سکون نظر آتا ہاں اگر انہیں کسی مرحلے پر نقصان ہورہا
ہوتا تب وہ اپنے ملازمین کے ذریعے اپنے پرگرامات، خبروں اور خاکوں میں
حکومتی موقف کی پرزور تردید اور اس پر بے جا تنقید کرتے۔ بسا اوقات تو اپنے
ملازمین کے ذریعے کئی کئی ماہ تک اختجاج کروایا انہیں سڑکوں پر کھڑا کر کے
اپنے مطالبات حکومت وقت سے منواتے۔
ماضی میں اک دور ایسا بھی گذرا ہے کہ جب ملک کے معروف نشریاتی گروپ جنگ پر
آزمائشوں کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ اس دوران ملک کی تقریبا تمام ہی صحافتی
تنظیمیں، سماجی ادارے، مذہبی اور سیاسی جماعتیں جیو کے اختجاج میں شریک
ہوئیں اور ہر زبان پر ایک ہی نعرہ مستانہ رہا، درو دیوار ایک ہی نعرہ سے
گونجتا رہا اور وہ نعرہ تھا جیو کو جینے دو۔ بھر پور احتجاجی تحریک کے
نتیجے میں حکومت وقت کو بالاآخر اپنی ہار ماننی پڑی اور جیو کو نہ صرف جینے
کا حق دیا گیا بلکہ بڑی شان سے جینے دیا گیا جو تاحال جی رہا ہے۔
پھر یہ ہوا کہ ٹی وی جس طرح آئے روز نئے ٹی وی چینلزکا اضافہ ہوتا رہا ہے
اسی طرح ایک نئے ٹی وی چینل کی بازگشت سنائی دی جانے لگی۔ اول تو کسی کو اس
کا نام ہی معلوم نہ تھا۔ بڑے ٹی وی چینل کے سرکردہ لوگ جو کہ برسوں ایک ہی
جگہ پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے وہ جوق در جوق اس نامعلوم چینل میں
شریک ہوتے گئے۔ نئے ٹی وی چینل کا نام بول کے نام سے مارکیٹ میں آگیا ۔ بول
والوں نے اپنی مارکیٹنگ کے نئے نئے انداز متعارف کروائے۔ اس کی ہائرنگ شروع
ہوئی جس کے لئے انہوں نے آن لائن فارم کا طریقہ کار رکھا۔ پہلے سینکڑوں پھر
ہزاروں اور پھر لاکھوں افراد نے بول ٹی وی میں ملازمت کیلئے اپنی درخواست
جمع کرائیں۔ نامی گرامی صحافی، اینکرز، بول میں شامل ہوتے گئے اور ایک تاثر
سامنے آیا کہ بول پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے۔ اس تاثر نے دیگر ٹی
وی چینل میں مقابلے کی فضا پیدا کرنے کے بجائے ان میں حسد اور جلن کی آگ
پیدا کی۔ اپنی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے بجائے، اپنے ملازمین کی ضروریات
پوری کرنے کے بجائے انہوں نے بول کے خلاف محاذ بنانا شروع کیا۔ کچھ چینل نے
یہ ضرور کیا کہ اپنے ملازمین کو بول میں جانے سے روکنے کیلئے ان کی
تنخواہوں میں اضافہ کے ساتھ دیگر مراعات دینے کی پیشکش کی۔ تمام تر کاوشوں
کے باوجود بول کا بلندی کی جانب سفر تیزی سے جاری رہا۔ بول نے اول روز ہی
سے جس طرح اپنے ورکرز کو سہولیات فراہم کیں وہ دیگر چینلز میں کہیں نظر
نہیں آتی۔ ہر ملازم کو کسی حد تک مالکانہ حقوق فراہم کئے۔ یوں بول والے
اپنے آپ کو بول ولاز کہنے لگے۔
بول کی بڑتھی ہوئی مقبولیت اور عوام کی جانب سے ملنے والی پذیرائی نے برسوں
سے ایک دوسرے کے مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔ وہ سب مل بول کی
خامیاں، کوتاہیاں تلاش کرنے لگے۔ تلاش کرنے سے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ بول
والوں سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہونگی جوکہ ان کے مخالفین کے ہاتھوں لگیں بس
پھر کیا تھا بول پر سب نے مل کر بھر پور انداز میں ہلا بول دیا اور اس ہلا
بولنے والوں میں ملک کے اند ر اور ان کے باہر کے دوستوں نے ایک نقطے پر
متفق ہوکر ہلا بوالا۔
اس یلغار کے بعد بول یکدم ڈگمگایا وہ شاید اس طرز عمل کے لئے قطعی تیار نہ
تھا لہذا بو ل کے سی ای او شعیب شیخ پابند سلاسل ہوئے جو کہ تاحال ہیں اور
مختلف مقدمات کو سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اس کے سرکردہ ساتھیوں کو بھی
گرفتار کیا گیا۔ الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور حکومتی مشینری نے مل کر ایسا
کڑا وار کیا کہ جس کے سبب بول کی بولتی بولنے سے قبل ہی بند ہوگئی۔ وہ تمام
نام نہاد سینئر صحافی، اینکرز جو کئی ماہ تک بول سے بھاری مراعات سے مستفیض
ہوتے رہے انہیں حب الوطنی یاد آگئی اور وہ بول کو وقت کے طلاطم خیز موجوں
میں چھوڑ کر تماشہ دیکھنے والوں میں شامل ہوگئے۔
ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اور کوئی رہ گیا تو وہ بول کے ملازمین تھے
جن کی تعداد 2 ہزار سے زائد ہے جو کہ اس وقت بھی نہایت ثابت قدمی کے ساتھ
ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اپنے ساتھ ہونے
والی ان زیادتیوں کے خلاف انہوں نے اختجاج شروع کیا، صحافتی تنظیموں نے
اپنا فرض نبھاتے ہوئے ان کا ساتھ دیا۔ اس اختجاج میں کو تقویت ملتی رہی اور
فضا بول کو بولنے دو کی گونج سے گونجنے لگی۔ بول کے تمام نیٹ ورک بند کئے
جانے کے سبب بول کے ملازمین کو تاحال تنخواہیں نہیں ملیں اس کے باوجود وہ
سب اپنے ادارے کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ بول کے سی ای او اپنے ورکرز کے اس
جذبے پر یقیقناخوش ہوں گے۔ ان کے سامنے ان حالات میں کھرے اور کھوٹے کا فرق
واضح ہورہا ہوگا۔ ان حالات میں سی ای اوبول اور بول کے ملازمین ایک دوسرے
کے کندھے سے کندھے ملاکر مقابلہ کر رہے ہیں۔
بول نے ان تمام مصائب کے باوجود اپنی نشریات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس نشریات
کو انہوں نے مجبور نشریات کا نام دیا ہے ۔ پیمراکی جانب سے پابندی کے باعث
کیبل پر بول کی نشریات نہیں آرہیں تاہم نیٹ پر اس کی نشریات دیکھی جارہی
ہیں جس کے ناظرین میں خاطر خواہ اضافہ ہورہاہے۔ بول پر یلغار ہونے کے بعد
موجودہ صورتحال کا اگر تجزیہ کیا جائے توواضح طور پر یہ نظر آرہاہے کہ بول
پر آنے والی تاریک شب اب اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایک صحافی اور
ایک قلم کار کی حیثیت سے مجھ سمیت کوئی بھی یہ نہیں کہے اور چاہے گا کہ بول
کو بولنے سے روکا جائے۔ وہ ضرور یہ کہیں گے کہ جس طرح ماضی میں جیو کو جینے
دیا تھا تو اب بھلا کیونکر بول کو بولنے کی آزادی نہیں۔
بول کو بولنے دیا جائے اس ملک کیلئے، اس قوم کیلئے اور سب سے بڑھ کر اس لئے
کہ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں بولنے کی سب کو آزادی ہے خواہ وہ کوئی بھی
ہو لہذا بول کو بولنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔ |