پاکستان ایسی سرزمین ہے جس کے
بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی‘‘
اس ملک کے لوگوں نے پاکستان کا بہت شعبوں میں نام روشن کیا ہے ان میں خواہ
کوئی شعبہ ہو ہمیں بہت سے قابل لوگ نظر آتے ہیں۔
اس ملک نے اردو ادب میں فراز،فیض،جالب،پروین شاکر،ساغر صدیقی۔ عبید اﷲ
علیم،منیر نیازی، صابر ظفر ،ناصر کاظمی جیسے عظیم شعراء دئے جن کے کلام سے
اردو ادب والوں نے بہت فیض اٹھا ہے۔
شعراء نے اپنی شاعری میں ملکی اور معاشرتی مسائل کو بھی اجاگر کیا انہی
شاعروں میں سے ایک محسن نقوی ہیں، محسن نقوی کا کلام بھی لا جواب ہے ان کی
ایک نظم بہت ہی پیاری ہے موجودہ پاکستان کے مسائل کی عکاس ہے آپ فرماتے
ہیں۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرِ بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں صبر کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
رزق، ملبوس،مکان، سانس، مرض قرض ،دوا
منقسم ہوگیا انسان انہی افکار کے بیچ
اگر ہم غور کریں تو ہمارے ملک میں بھی آج ایسی ہی کیفیت ہے ہمارے ملک کے ہر
علاقہ میں گلیوں ،محلوں، بازاروں میں مقتل کھولے ہوئے ہیں ، کبھی کراچی کی
صفورہ چورنگی اسماعیلیوں کے لئے مقتل بن جاتی ہے کبھی کوئٹہ کی گلیاں ہزارہ
برادری کے لوگوں کے لئے مقتل بن جاتی ہیں کبھی شیعوں کو کبھی احمدیوں کو چن
چن کر مارا جا تا ہے کبھی اساتذہ کو کبھی طلباء کوکبھی علماء کو کبھی سماجی
کارکنوں کو دن کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرہ ہو ان کو ماردیا جاتاہے ۔
لوہے کے سر والے لوگ ( یعنی دہشت گرد )جن کے دماغ میں امن و سکون اور
انسانی اقدار کی کوئی بات داخل نہیں ہوتی ہے ہمارے روشن دماغوں کو جو کہ
علم ، فلسفہ، محبت،سکون ،امن والے ہیں ان کو ختم کرنے میں مصروف ہیں خواہ
کوئی طالب ِ علم ہو، کوئی ربانی عالم ہو، کوئی سماجی کارکن ہو، کوئی استاد
ہو، کوئی سائنسدان ہو ۔ کوئی بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں ہے ۔
ہمارے نام نہاد لیڈران خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں بیاں دیتے ہیں کتابیں
لکھتے ہیں اور امن ، امن کی گردان تو گردانتے ہیں مگر اگلے ہی لمحے اگلی ہی
سطر میں اگلے ہی فقرہ میں سیاسی طور پر مخالفین کو کبھی مذہبی کبھی مسلکی
اختلاف کی بنیاد پر قتل و غارت گری کے بازار کو گرم کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
اورقاتلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اورپاکستانی قوم سے کبھی روٹی ،کپڑا، مکان کا وعدہ تو کیا مگر آج بھی
پاکستانی قوم کبھی تو دو وقت کی روٹی کے لئے مجبور ہوتے ہے کبھی وہ آٹے کی
لمبی قطاروں میں ہوتے ہیں تو کبھی وہ چینی کی قطاروں میں لگے ہوئے ہوتے
ہیں، کبھی انہیں مکان کی فکر کبھی سانس کی کبھی ضروریات کے لئے قرض اور
کبھی دوائی کا فکر ہوتا ہے اور انہی فکروں میں وہ اپنی ساری کی ساری زندگی
گزار دیتے ہیں۔
روٹی کپڑا مکان کا وعدہ کرنے والوں نے شاید وعدہ اپنی ذات کے لئے کیا تھا
کیوں کہ روٹی کپڑا مکان وغیرہ سبھی سہولیات تو صرف انہی کو میسر ہیں اور
پاکستانی عوام کی کیفیت تو بے سرو سامانی کی ہے۔
پتا نہیں محترم محسن نقوی صاحب نے یہ نظم لکھی تھی تو ناجانے حالات کیسے
تھے مگرآپ کے الفاظ کو جب آج کے حالات میں ہم دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ
جیسے یہ ان کو پاکستان کے حالات نظر آرہے تھے۔
خدا ہم سب کو ان حالات کو بدلنے کی توفیق عطاء فرمائے کہ ہم ان قتل و غارت
گری اور محرومی کی دنوں کو بدلیں کیوں کہ اگر ہم انہیں بدلنے کی کوشش نہ کی
تو آنے والی نسلیں بھی اسی ابتلاء کا سامنا کریں گی ۔ |