بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل 75 برس کی عمر میں رضائے
الہٰی سے وفات گئے ہیں۔وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ فیصل شہید کے صاحبزادے
تھے۔ 1940ء میں طائف میں پیدا ہونے والے شہزادہ سعود الفیصل کو 1975ء میں
سعودی وزیر خارجہ مقررکیا گیاجو چالیس برس تک اس منصب پر فائز رہے جس کے
باعث انہیں دنیا میں طویل ترین وزیر خارجہ رہنے کا اعزاز حاصل ہوا تاہم 29
اپریل 2015 کو انہوں نے خرابی صحت کی بناپر مزید ذمہ داریاں ادا کرنے سے
رخصت لے لی تھی۔صدر پاکستان ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف سمیت دنیا
بھر کے حکمرانوں نے شہزادہ سعود الفیصل کی وفات پر گہرے رنج وغم کا
اظہارکیا ہے۔
شہزادہ سعود الفیصل اپنے والد گرامی شاہ فیصل شہید کی طرح امت مسلمہ کے دکھ
درد کو اپنا درد سمجھتے تھے۔ جس طرح ان کے والد مسلمانوں میں باہمی اتحاد
ویکجہتی دیکھنا چاہتے تھے اسی طرح سابق سعودی وزیر خارجہ کے دل میں بھی
ہمیشہ یہی تڑپ نظر آئی۔ خاص طور پر پاکستان کی سلامتی و استحکام کیلئے وہ
ہمیشہ فکرمند رہتے اور ہر مشکل وقت میں پاکستانی حکمرانوں کو نہ صرف حوصلہ
دیابلکہ آگے بڑھ کر مددکا حق ادا کرتے رہے۔ شہزادہ سعود الفیصل نے 1960 میں
پرنسٹن یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی اور بعدازاں کئی برس تک وزارت پیٹرولیم
میں اپنے والد کے معتمد خاص اور وزیر تیل احمد ذکی یمنی کی سرپرستی میں
خدمات انجام دیتے رہے۔وزیر خارجہ کی حیثیت سے ان کی زندگی ان کے والد شاہ
فیصل کے قتل کے بعد شروع ہوئی جب شاہ خالد نے انھیں وزیر خارجہ بنانے کا
فیصلہ کیا۔جس دور میں وہ سعودی عرب جیسے اہم ملک کے وزیر خارجہ رہے اس میں
دنیا بھر خاص طور پر مشرق وسطی میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے جن میں
1978، 1982 اور 2006 میں اسرائیل کے لبنان پر حملے، فلسطین میں 1987 اور
2000 میں انتفادہ کے نام سے احتجاج ، عراق کا 1980 میں ایران پر حملہ اور
پھر 1990 میں کویت پر فوج کشی شامل ہیں۔ اسی طرح گیارہ ستمبر 2001 میں نائن
الیون پر حملہ کے بعد افغانستان پر چالیس سے زائد ملکوں کی چڑھائی اور 2003
میں امریکہ کے عراق پر قبضہ جیسے واقعات بھی انہی کی وزارت خارجہ کے دور
میں پیش آئے۔یہ بہت مشکل دور تھا ‘دشمنان اسلام کی جانب سے سعودی عرب کے
خلاف بھی سازشوں کے جال بھنے جارہے تھے اور اسے دنیا میں تنہا کرنے کی
کوششیں کی جارہی تھیں تاہم شہزادہ سعودالفیصل نے بہترین سفارت کاری کے
ذریعہ نہ صرف غیر ملکی قوتوں کے پروپیگنڈا کوناکام بنایا بلکہ عرب ملکوں
سمیت دنیا کے دیگر بیشتر ممالک کو اپنے ساتھ ملائے رکھا جس پر مسلمانوں کے
روحانی مرکزکونقصانات سے دوچارکرنے کی مذموم سازشیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔
شہزادہ سعود کو عربی اور انگریزی سمیت کئی زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا
اور وہ اپنی بذلہ سنجی اور نرم مزاجی کے باعث سفارتی حلقوں میں خاصے مقبول
تھے اور یہی خوبیاں انہیں ہر محفل میں ممتاز رکھتی تھیں۔وہ ہر عالمی فورم
پر اپنا کیس مضبوط اندازمیں پیش کرنے میں ماہر تھے۔ فلسطین پر اسرائیلی
جارحیت کے خلاف انہوں نے ہمیشہ ہر فورم پر کلمہ حق بلند کیا اوردنیا بھر
میں اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ۔ نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے
جانے والے مظالم پر وہ دکھی ہوجاتے اور ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ فلسطینی
مسلمانوں کی آزادیوں و حقوق کے تحفظ کیلئے وہ کوئی عملی کردار ادا کر سکیں
یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں عام طور پریہ بات مشہور ہے کہ وہ فلسطینی
ریاست قائم نہ ہونے کو اپنے طویل ترین کیریئر کی ناکامی قراردیا کرتے
تھے۔یہ ان کی فلسطینی بھائیوں سے محبت کی واضح دلیل ہے۔اہل پاکستان سے ان
کی محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے لیکر 2015ء
تک جب کبھی پاکستان میں زلزلے، سیلاب یا کسی قسم کی کوئی اور دیگر آفت آئی
یا بھارت جیسے ملکوں کی جانب سے پاکستان پر جارحیت کی بات کی گئی اورکلمہ
طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے اس ملک کی جانب میلی نگاہ ڈالنے کی کوشش کی
گئی سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کا حق ادا کیا اور پاکستانی
حکمرانوں سے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب
اگرچہ شروع دن سے پرانے دوست ہیں اور ایک دوسرے سے روحانی رشتوں میں بندھے
ہوئے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی مضبوطی میں شہزادہ سعود
الفیصل کا بھی بہت بڑا کردارہے۔ پاکستان میں بعض ایسے حکمران بھی آئے ہیں
جن کا جھکاؤ سعودی عرب کی جانب نہیں تھا اور نہ ہی انہیں پاک سعودی
برادرانہ تعلقات کی کوئی فکر تھا تاہم شہزادہ سعود نے اپنی بہترین سفارت
کاری کے ذریعہ سعودی حکمرانوں و عوام کوکبھی ان چیزوں کا احساس نہیں ہونے
دیا اور پاک سعودی تعلقات نہ صرف یہ کہ ہمہ وقت قائم و دائم رہے بلکہ یہ دن
بدن مضبوط ہوتے چلے گئے۔شہزادہ سعود الفیصل طویل عرصہ سے بیمار تھے اورمزید
خراب ہوتی صحت کی بنیاد پرانہوں نے وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں کسی اورکو
سونپنے کی درخواست کی۔ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیزجو شاہ عبداﷲ کی وفات کے
بعد کچھ عرصہ قبل ہی سعودی فرمانروا بنے تھے ‘ وہ چاہتے تھے کہ فی الحال
شہزادہ سعود اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں کیونکہ اس وقت ایسے حالات تھے
کہ یمن میں بغاوت عروج پر تھی۔ اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے
یمنی باغی سعودی سرحدوں پر حملے کر رہے تھے اور حرمین شریفین پر قبضہ کی
اعلانیہ دھمکیاں دی جارہی تھیں اس لئے اس انتہائی حساس اور اہم موقع پر وہ
ان کے تجربہ اور بہترین سفارت کاری سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن شہزادہ
سعود محسوس کرتے تھے کہ ان کی صحت جس قدر تیزی سے گر رہی ہے وہ اپنا یہ
فریضہ بخوبی ادا نہیں کر سکیں گے اس لئے انہوں نے بار باریہی درخواست کی جس
پر مجبوری کے عالم میں ان سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیکر ان کی جگہ
امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیر کو نیا وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا۔یہ
ان کی اعلیٰ خدمات تھیں کہ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے وزارت خارجہ کا
قلمدان واپس لیتے ہوئے کہاتھا کہ ان کیلئے شہزادہ سعود کی درخواست پر انہیں
سبکدوش کرنا انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔شاہ سلمان نے اپنے تعریفی خط میں سابق
وزیر خارجہ کی دین،مذہب اور مادر وطن سے مخلصانہ وفاداری کا اچھے الفاظ میں
ذکر کیا اورواضح طور پرکہا کہ انھوں نے بطور وزیرخارجہ جس محنت اور لگن سے
فرائض انجام دیے ہیں اس پر انہیں پوری سعودی قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی
ہے۔شہزادہ سعود سے جب وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیا گیا تو بعض سازشی
قوتوں نے یہ افواہ اڑائی کہ شاید ایسا اختلافات کی بنا پر کیا گیا ہے تاہم
سابق وزیر خارجہ نے بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہ سلمان کو ایک مراسلہ
بھیجا اور اس عزم کا اظہارکیا کہ میں پوری عمر ملک وقوم کا محافظ اور خادم
بن کررہوں گا۔ خادم الحرمین الشریفین کی راہ نمائی میں مجھے جو بھی خدمت
سونپی گئی اس کی بجا آوری میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ شہزادہ سعود الفیصل
کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان کا پیغام ان کی متواضع شخصیت، خلوص اوراپنے دل
میں ہم سب کے لیے جذبہ عزت واحترام کا آئینہ دار ہے۔ میں نے چالیس سال تک
ملک کے وزیرخارجہ کے طورپر کام کیا۔ میں نے ہروقت اﷲ سے مدد مانگی اور اس
سے یہی دعا کی کہ پرور دگار مجھے محنت کرنے والوں میں شمار کرنا اور مجھے
درست فیصلہ کرنے اور صحیح راہ پرچلنے کی توفیق عنایت کرنا۔میرے متعلق شاہ
سلمان نے جن محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا ہے میرے پاس اس کے شکریے کے لیے
الفاظ نہیں ہیں۔وہ مجھے جو ذمہ داری دیں گے میں انہیں قبول کروں گا اور اسے
نبھانے میں اپنی تمام صلاحیتں کھپا دوں گا۔ میڈیا میں شہزادہ سعود کے اس
بیان کی اشاعت کے بعد تمام افواہیں دم توڑ گئیں اور سعودی عرب کے خلاف کیا
جانے والا پروپیگنڈا کامیاب نہیں ہوسکا۔ہم سمجھتے ہیں کہ شہزادہ سعود
الفیصل کی وفات سے سعودی عرب اور پاکستان دونوں ایک عظیم مخلص لیڈر سے
محروم ہو گئے ہیں۔ پوری مسلم امہ دعا گو ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو
معاف فرمائے اور نہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ |