متنازعہ علاقے، ’’سوچ و اپروچ‘‘ میں تبدیلی کی ضرورت!

گزشتہ دنوں یہ اطلاع ملی تھی کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی طرف سے گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اپنی سفارشات مکمل کر لی ہیں اور جلد اس کا اعلان متوقع ہے۔اطلاعات کے مطابق ان سفارشارات میں ’’عبوری‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں ’عبوری‘ صوبہ قرار د ینے کی بات شامل ہے اور گلگت بلتستان کو سینٹ و قومی اسمبلی میں نمائندگی بھی دی جائے گی۔یہ اطلاع ملتے ہی آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے سیاسی و تحریکی حلقوں کی طرف سے حکومت پاکستان کے اس متوقع اقدام کی سخت مخالفت سامنے آ رہی ہے اور اسے کشمیر کاز،تحریک آزادی کشمیر کے مفادات کے برعکس قرار دیا جا رہاہے۔اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ حکومت پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر کے حوالے سے بھارت کی طرف سے متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے کسی متوقع ’’گڑ بڑ‘‘ کے خطرے کے پیش نظر گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنانے کی کاروائی کر رہی ہے۔یہ پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر کمزور موقف اور غلط و نقصاندہ پالیسیوں کی ایک نئی مثال ہے۔کیا پاکستان یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر تو بھارت کا حصہ ہو اور محض آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہی متنازعہ علاقے رہیں؟یہ بھارت کا کہنا ہے، جو خلاف حقیقت اور غیر منصفانہ دلیل ہے۔متنازعہ ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کا مطلب یہی ہے کہ ان علاقوں میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کراتے ہوئے اس متنازعہ ریاست کے عوام کو یہ حق دینا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اقتصادی راہداری کے تحفظ کے لئے ایسا اقدام اٹھایا گیا تو اس سے پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر کمزوری ہی نہیں، دستبرداری بھی سامنے آ جائے گی۔پھر اس روائتی بیان پر کشمیریوں کا یقین کرنا ذرامشکل ہو گا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر اپنے روائتی موقف پر قائم ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو ایسا کرتے ہوئے اپنی سیاسی،سفارتی اور دفاعی شکست کا اعلان ہر گز نہیں کرنا چاہئے۔

آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب خان اور وزیر اعظم چودھری عبدالمجید نے حکومت پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوشش کی مخالفت کی ہے اور اسے پاکستان کے کشمیر موقف کے لئے تباہ کن قرار دیا ہے۔صدر آزاد کشمیر( جو کبھی صدر ریاست آزاد جموں وکشمیر ہوا کرتے تھے) نے اسلام آباد میں چند صحافیوں کو افطار ڈنر میں بلا کر ان سے بات چیت میں کہا کہ ایسی کوئی بھی کوشش 1971 کے سقوط ڈھاکہ سے بھی خطرناک ہوگی۔ اخبارا ت میں شائع خبر کے مطابق صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے معاملے میں مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے عید کے بعد اس معاملے پر احتجاج کا اعلان بھی کیا۔اس کے اگلے روز وزیر اعظم آزاد کشمیر نے مظفر آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ گلگت بلتستان جموں کشمیر کا جزو لاینفک ہے اور اس کو پاکستان میں ضم کرنے کی کوئی بھی کوشش کشمیر پر ہمارے موقف کیلئے تباہ کن ہوگی کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردایں کشمیریوں کیلئے حق خود ارادیت فراہم کرنے کی وکالت کرتی ہیں۔ چودھری مجید نے کہامیں پاکستانی وزیراعظم پر باور کرانا چاہتاہوں کہ وہ ایسے فیصلے لینے سے باز رہیں جو ان کی دسترس سے باہر ہیں۔انہوں نے کہاگلگت بلتستان کو عارضی طور پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں دیا گیا تھااور اسلام آباد اس سے آگے کی نہ سوچے ۔ان کا کہناتھا17.5ملین کشمیریوں کی جانب سے میں آپ(اسلام آباد)کو خبردار کرتا ہوں کہ اپنی سوچ تبدیل کریں ،بصورت دیگر اس کا سنگین ردعمل سامنے آئے گا۔آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات سردار عابد نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں دو اہم باتیں کیں،ایک یہ کہ حکومت آزاد کشمیر نے اس معاملے میں وفاقی حکومت کو خط لکھا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر ضرورت پڑی تو آزاد کشمیر اسمبلی سے اس بارے میں قرار داد بھی منظور کی جائے گی ۔(مجھے ان دونوں باتوں کے وقوع پذیر ہونے پر شک ہے) ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس پر کسی مشاورت کی تو ضرورت ہی نہیں،یہ ناقابل قبول ہے اور سب کشمیریوں کا اس پر اتفاق ہے۔

کیا واقعی گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دیا جائے گا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ گلگت بلتستان کاسرکاری و حکومتی ’’سیٹ اپ‘‘ پاکستان کی وفاقی حکومت کے ایک انتظامی آڈر کی ذریعے چلایا جا رہا ہے۔کیا واقعی گلگت بلتستان کو اس طرح کے انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیئے جائیں گے جو پاکستان کے صوبوں کو حاصل ہیں؟بعض سیاسی حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ جب گلگت بلتستان کے عوام ہی ایسا چاہتے ہیں تو پھر اس پر احتجاج کا کیا جواز ہے؟‘‘۔لیکن یہ کہتے ہوئے گلگت بلتستان کو آزاد کرانے والے مجاہدین آزادی کی قربانیوں اور مقصد کو فراموش کیا جا رہا ہے۔گلگت بلتستان کی آزاد ی کی جنگ لڑنے والے( ڈوگرہ راج کی فوج کے) کرنل مرزا حسن خان، میجر بابر ،کیپٹن حیدر اور ان کے ساتھیوں نے گلگت بلتستان کو کبھی ریاست جموں و کشمیر سے الگ نہیں سمجھا ،ان کی ڈوگرہ راج سے آزادی کی جنگ شروع کرنے کی منصوبہ بندی تمام ریاست کو آزاد کرانے سے متعلق تھی۔کرنل مرزا حسن خان اور ان کے عظیم مجاہدین آزادی صرف گلگت بلتستان کی آزادی تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے بانڈی پور علاقے کے ’درہ تراگبل‘ تک جا کر ڈوگرہ اور ہندوستانی فوج سے برسر پیکار رہے،بھارتی فوج کی طرف سے درہ تراگبل تک ٹینک لے آنے کی وجہ سے بے سرو سامانی کے عالم میں شاندار فتوحات کرنے والے مجاہدین آزادی آگے نہ بڑھ سکے۔اسی طرح آزاد کشمیر کی وادی نیلم کی آزادی میں بھی گلگت بلتستان کے ان مجاہدین آزادی کا بڑا کردار ہے۔اگر کرنل حسن خان کا تبادلہ سرینگر سے گلگت نہ ہوتا تو انہوں نے کشمیرکی آزادی کے لئے ،طے شدہ منصوبے کے مطابق سرینگر میں ہی مسلمان فوجیوں کے ساتھ مل کر ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا تھا۔یوں اب یہ کہنا کہ گلگت بلتستان کا ریاست جموں و کشمیر،تحریک آزادی کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ، تو ایسا کہنا ان مجاہدین آزادی کی جدوجہد، قربانیوں اور ان کے مقصد کو مسترد کرنے کے مترادف ہے ،جنہوں نے گلگت بلتستان کو جنگ لڑ کر آزاد کرایا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی مقامی حکومتوں کو اپنے صوبوں کے برابر اختیارات تفویض کرے،بلکہ کشمیر کاز کے تناظر میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مقامی حکومتوں کی حیثیت پاکستان کے صوبوں سے بھی بڑھ کر ہونی چاہئے کہ وہ محض مقامی انتظامی امور تک ہی محدود و مقید نہ رہیں بلکہ کشمیر کاز کے حوالے سے بھی اپنا وہ بنیادی کردار ادا کرسکیں جو ان علاقوں کے قیام کا مقصد اور ان کی ذمہ داری ہے۔اس متوقع فیصلے کے کئی منفی نتائج پر مبنی پہلو ہیں،جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ایسے اقدام سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پاکستان مخالف عناصر مضبوط ہو ں گے۔

اب آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم نے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنائے جانے کی کوششوں کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا اظہار اخباری بیانات میں کیا ہے۔ہمیں یقین ہے کہ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم کی طرف سے اس معاملے میں پاکستان کے وزیر اعظم سے تحریری طور پر کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا ہو گا۔اس بارے میں آزاد کشمیر اسمبلی میں مطالبے کی قرار داد منظورکیا جانا مجھے تو ہوتا نظر نہیں آتا۔آزاد کشمیر حکومت نے اس معاملے پر عید کے بعد تمام جماعتوں کی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔یوں توقع ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے گزشتہ عرصے میں بنائی جانے والی کل جماعتی رابطہ کونسل ،جسے چند ہی اجلاسوں کے بعد’’ عضو معطل ‘‘ بنا دیا گیا تھا اور اسی صورتحال میں کہا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی آزاد کشمیر حکومت نے کل جماعتی رابطہ کونسل کو محض اپنے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا ،اب ایک بار پھر اسے زندہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں سے مشاورت کے اعلانات تو اکثر کئے جاتے ہیں،لیکن گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی مقامی حکومتوں کو بااختیار اور باوقار بنانے کے سلسلے میں کشمیری حلقوں سے کسی قسم کی بھی کوئی مشاورت اب تک نظر نہیں آ سکی ہے۔پاکستان کے ارباب اختیار کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے مختلف عنوانات میں وقتی ضروریات کے تحت فیصلے کرنے کے بجائے کشمیر کاز کو مدنظر رکھیں اور اسے ہی اہمیت دیں۔ماضی میں بھی وقتی مفادات کے پیش نظر ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو تقویت پہنچائی گئی۔پاکستان کے ارباب اختیار سے یہی کہنا ہے کہ اپنے مخصوص حاکمانہ انداز میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ’’ڈیل ‘‘ کرنے کا چلن ختم کیا جائے اور ان خطوں کے’’ بائی چوائس ‘‘ پاکستانیوں کو صوبوں سے بڑھ کر اختیارات،حیثیت دی جائے تاکہ یہ خطے بھی کشمیر کاز کے حوالے سے اپنا کردار موثر طور پر ادا کر سکیں، جو ان آزاد خطوں کی ہی نہیں ،پاکستان کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698418 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More