جماعت اسلامی، تحریکِ اسلامی کیا ہے

تحریک ِـاسلامی ایک ایسی تحریک ہے جو صرف ملت اور قومیت پر یقین رکھتی ہے، اس تحریک کا آغاز 1929ء میں حسن البنا نے مصر سے اخوان المسلمین کی شکل میں شروع کی تھی،اس تحریک کا منشا ء اسلام کے بنیادی عقائد کا احیا ء اور ان کا نفاذ تھا۔مصر میں مقبولیت کے بعداسکی شاخیں عرب ممالک اور باقی دُنیا میں بھی قائم ہوگئیں، دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کے اراکین کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ تھا۔یہ ایک منظم اور عالمگیر تحریک ہے جسکی شاخیں کئی ممالک میں پھیل گئی ہیں، مصر میں اخوان المسلمین، تیونس میں حرکتہ النھضہ، فلسطین میں حماس، افغانستان میں حزبِ اسلامی، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش، بھارت میں جماعت اسلامی ہند، سوڈان میں نیشنل کانگرس پارٹی، ترکی میں سادات پارٹی اور پاکستان میں جماعت اسلامی پاکستان کی شکل میں اپنا تحریک چلا رہی ہے۔

جماعت اسلامی ایک پُرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے جس کا آغاز بیسویں صدی کے اسلامی مفکر سید ابولاعلی مودودی نے قیام پاکستان سے قبل 26 اگست 1941ء کو لاہور میں کیا تھا۔اُس وقت جماعت اسلامی میں 70افراد اور 75 روپے کا سرمایہ تھا۔ یہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دُنیا بھر میں اسلامی احیاء کیلئے پر امن طور پر کوشاں چند عالمی اسلامی تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے۔جماعت اسلامی لوگوں کو اپنی پوری زندگی میں اﷲ اور محمدﷺ کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت اور مُنافقت اور شرک چھوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔یہ وہ واحد سیاسی ومذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔یہ وہ تحریک ہے جو لوگوں کو صرف اسلام،قرآن وسنت اور اسلامی تاریخ وتہذیب کی طرف بُلاتی ہے۔

جماعت اسلامی وہ تحریک ہے جس نے مسلمانانِ ہند کو دو قومی نظریہ کی بنیاد فراہم کی تھی، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ کے خواب کو تعبیر دینے اور قرارداد مقاصد میں ریاست کو اُصولی طور پر اسلامی قرار دینے کیلئے عوا م میں رائے عامہ ہموار کر کے تحریک چلائی اور اس میں کامیابی حاصل کی، یہ وہی جماعت ہے جس نے 1958ء میں آمریت کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ ایوب خان کی دور میں ایک ایسا طبقہ سامنے آیاجس کا کہنا تھا کہ اسلام میں حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ،حتیٰ کہ ایک جج نے حدیث کو سند ماننے سے انکار کر دیا،اس موقع پر بانی جماعت نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو شرعی وعقلی دلائل سے ثابت کیا اور دونوں کو اسلامی قانون کا سر چشمہ قرار دیا۔اس کے بعد 1970ء کے انتخابات کی طرف آتا ہوں۔1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمان وغیرہ نے علیحدگی پسند تحریک کو اس عروج پر پہنچا دیا تھا کہ پی پی نے مغربی پاکستان اورمجیب الرحمان نے صرف مشرقی پاکستان میں اپنے نمائیندے کھڑے کر دئیے تھے، اس وقت جماعت اسلامی نے سا لمیت وطن کیلئے مشرقی و مغربی پاکستان میں اپنے نمائیندے کھڑے کر دئیے۔1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کرانے کیلئے جماعت اسلامی نے بھر پور کردار ادا کیا تھا۔یہ وہ جماعت ہے جنہوں نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر قوم کی رہنمائی کی۔

صرف یہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں جماعت اسلامی لوگوں کی مدد کر رہی ہے،اگر کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا ذکر کیا جائے تو ــ’حزب المجاہدین ‘کا نام سب سے پہلے آجاتا ہے،اگر علماء اکرام کا ذکر کیا جائے تو’ جمعیت اتحاد علماء ‘ جو ہر وقت علماء اکرام کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش میں ہیں، کا نام آجاتا ہے،اسی طرح اساتذہ میں تنظیم اساتذہ،جو اساتذہ کی حقوق کیلئے کام کر رہا ہے، نوجوانوں میں شباب ملی،جو بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پرلانے کی کوشش میں مصروف ہے ،طالبلعلموں میں اسلامی جمیعت طلبہ،جسکا قیام ، قیام پاکستان کے فوراً بعد عمل میں آیا تھا،یہ تنظیم تعلیمی اداروں میں طلبہ میں دین کا کام سر انجام دے رہا ہے اور اس تنظیم نے کئی مقامات پر طلبہ کیلئے مُفت ٹیویشن اور امتحانات کی تیاری کیلئے تجربات کا انتظام بھی طویل عرصے سے شروع کر رکھا ہے ،،،بچوں میں بزمِ ساتھی،بزمِ پیغام بچوں کو اخلاق ، والدین کی اطاعت اورمعاشرے کی بُرائیوں سے اگاہ کرتے ہیں، تعلم میں بیھٹک اسکولز، ڈاکٹروں میں PIMA(پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن)ڈاکٹروں کے حقوق کیلئے،، انجنئیروں میںPEF(پاکستان انجئینرز فورم)انجنئیروں کی حقوق کیلئے،،تا جروں میںPBF(پاکستان بزنس فورم)تاجروں کی حقوق کیلئے،اکاونٹنٹس میںPAFO(پروفیشنل اکاونٹنٹس فورم)،فلاحی کاموں میں الخدمت، آغوش وغیرہ وغیرہ، سب اپنی اپنی جگہ اﷲ کی رضا کیلئے کام کر رہے ہیں۔۔۔۔۔

جماعت اسلامی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ باقی ممالک میں بھی بے سہارا لوگوں کی خدمت کر رہی ہے، جیسا کہ جہاں کہی بھی قدرتی آفات آجاتی ہیں تو الخدمت والے پیش پیش ہوتے ہیں، الخدمت کی فلاحی کاموں سے تو پاکستان میں سب واقف ہیں اور کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔اس تنظیم کے پیش نظرکارہائے خیرمیں سب سے نمایاں وقتِ آفات میں رضا کارانہ سرگرمیاں ہیں،سونامی زدگان لوگوں سے لیکر فلسطین کی مظلوموں تک اور جاپان سے لیکر برما تک بے سہارااور مظلوم لوگوں کی خدمت کو اپنا فریضہ اول سمجھ کر کیا اور کرتے ہیں۔

ان سب عملی کاموں سے یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ جماعت اسلامی، الخدمت کے فلاحی ادارے حقیقت میں مظلوم اور بے سہارا لوگوں کی خدمت اور مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں،سیاست سے بالاتر ہو کر ہمیں صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کیلئے ان فلاحی اداروں کا ساتھ دینا چاہئے اور ان کے ساتھ ملکر مظلوم اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنی چاہئے، اﷲ تعالیٰ ہم سب میں دوسروں کی خدمت اور مدد کا جذبہ پیدا کرے۔آمین