مسلم پرسنل لاﺀ بورڈ کی ساکھ داؤ پر

مسلم پرسنل بورڈ کی عاملہ کا جواجلاس مورخہ 7جون کو لکھنؤ میں ہواتھا، اس کے فوراً بعد اس کالم میں ہم نے بورڈ کے بعض فیصلوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔اس اجلاس میں مونگیر(بہار )کی ایک خانقاہ کے خاندانی جانشین جناب ولی رحمانی خود کو بورڈ کا بااختیار کارگزارجنرل سیکریٹری مقرر کرانے میں کامیاب ہوگئے جس پر بورڈ کے کئی سنجیدہ ممبران کو بھی تشویش ہے ۔ اطلاع یہ ہے کہ بعض ارکان نے صدر محترم مولانا رابع حسنی ندوی کو اپنی تشویشات سے بھی باخبرکردیا ہے۔ اس دوران اخباروں میں پے درپے کئی سنجیدہ تبصرے شائع ہوئے۔ دوتبصرے قاسم سید کے، ایک ڈاکٹرتسلیم رحمانی کا اورایک پروفیسرراشد شازکاشائع ہوا۔ یہ سب تبصرے نہایت چشم کشا اورتوجہ طلب ہیں۔ راقم الحروف کے بھی تین تبصرے متعدداخباروں اوررسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ ان سب میں ولی رحمانی کی قیادت میں سیاسی تحریک کے اجراء پر سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے۔یہ تمام تبصرے اور ان پر قارئین کے رائے باوقار نیوز پورٹیل ایشیا ٹائمز (https://asiatimes.co.in) پر موجود ہیں۔ مگر بورڈ نے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ ممکن ہے کہ رمضان کی مصروفیات کی وجہ سے توجہ نہ فرماسکے ہوں۔ یوں تو جنگ بدر بھی رمضان میں ہی ہوئی تھی جس میں خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے تھے، زخمی بھی ہوئے تھے، لیکن اب ذکروفکر کی رغبت ، سحروافطار اور تراویح کی مصروفیت نے قیادت کو کار ہائے ملت سے رخصت کا جوازمہیا کرادیا ہے۔ اﷲ ان حضرات کی عبادت و ریاضت کو ان کے لئے اول اورملت کے لئے آخر ثمر آور بنائے۔ آمین۔

اس دوران 15جو ن کو برادرم ولی رحمانی نے ایک 12نکاتی مکتوب ملک کی مختلف تنظیموں ، ائمہ مساجد اوربعض شخصیات کے نام جاری کیا۔اس پر اخباروں میں خبریں تو نظرآئیں مگر اس خط کو حاصل کرنا مشکل ہوگیا۔ تاہم آرایس ایس کے بغل بچوں نے اس کو بڑی تعداد میں شائع کرا کے گھرگھر پہنچانا اور بھولے بھالے ہندو بھائیوں کو یہ بتانا شروع کردیا ہے کہ دیکھو مسلم پرسنل لاء بورڈنے ہندوعقیدہ، ہندوکلچر اور ہماری آزادی کے خلاف جہاد چھیڑ دیا ہے۔ اس لئے اسلام مکت بھارت کی مہم کو تیز کرنا ہوگا۔
مجھے یہ کہنے میں تکلف نہیں کہ اس مکتوب کا مبدا، اس کے مندرجات اوراس کا ایجنڈاجس شخص کی فکر کا نتیجہ ہیں وہ مضمون بندی کے فن سے نابلداورملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور ان میں قومی اور ملی مصالح، ملت کے حقیقی مسائل اوران کے حل کی تدابیر سے قطعی بے خبر ہے۔ہرچند کہ اس پر دستخط صرف ولی رحمانی کے ہیں لیکن یہ کیونکہ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے لیٹرپیڈ پر جاری ہوا ہے اس لئے اس کی ذمہ داری پورے بورڈ پرعائد ہوتی ہے۔

مسلم پرسنل بورڈ پر، جو بقول قاسم سید’سرمایہ افتخار، آبروئے ملت‘ ہے کوئی تنقید کرنا سخت تکلیف دہ کام ہے۔لیکن جناب محمد مسلم مرحوم، (سابق مدیر روزنامہ دعوت)نے وفات سے چندروز قبل راقم سے آخری ملاقات میں کہا تھا:’ جماعتیں اصل نہیں ، اصل ملت ہوتی ہے۔ جماعتیں ملت کے لئے ہوتی ہیں، ملت جماعتوں اورتنظیموں کے لئے نہیں۔‘بورڈ یقینا اہم پلیٹ فارم ہے۔ لیکن ملت زیادہ اہم ہے۔بورڈ کے ارکان ہمارے لئے بہت محترم ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے اس کی رسی غلط ہاتھ میں دیدی، جس کو خودنمائی کاشوق ہے، جس کو مناصب کی چاہ ہے اور جس کی بے بصیرتی کی بدولت پوری ملت کے ابتلائے آلام ہوجانے کا اندیشہ ہے، تو پھران محترم حضرات کو دائرہ تنقید میں لانا ہوگا۔ بقول پروفیسر راشد شاز :’ لکھنؤ اجلاس کے بعد جو خبریں چھن چھن کر آرہی ہیں ان سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ سیاسی مہم جوئی کی نئی اسکیموں کو شاید اب تقدس کی قبا میں زیادہ دنوں تک چھپانا ممکن نہیں ہوگا۔‘

بے وقت کا راگ
برادرم قاسم سید نے ولی رحمانی کے مکتوب پرتبصرے میں لکھا ہے: ’’سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ مودی سرکار مختلف سنگین الزامات میں گھری ہوئی ہے اور پہلی باروہ خود کو پریشانی میں محسوس کررہی ہے، پارٹی کے اندربغاوت کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے، وسندھراسرکار کے خلاف اس لئے کاروائی نہیں کی گئی کہ بھاجپا میں پھوٹ پڑجائیگی، جس کی طرف آرایس ایس نے اشارہ کیا ہے، بہار میں این ڈی اے میں سرپھٹول جاری ہے، بہار میں نام نہاد ہی سہی، سیکولر فورسز ایک پلیٹ فارم پر آرہی ہیں، مودی سرکار کو راستہ کی تلاش ہے، وہ اسے یوگا کی شکل میں نظرآنے لگا ہے۔ وہ اس تنازع کو رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کی طرح ہوادے کر مذہبی جذبات کواچھالنا چاہتی ہے، تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے اور ہندوووٹ کی صف بندی ہوجائے۔ ‘‘

اس سیاسی ماحول میں ولی رحمانی کی مرکز کے ساتھ ٹکراؤ کی اس سیاسی مہم جوئی کا کیا مطلب نکالا جائے؟ جولوگ اخبارپڑھتے ہیں اور سیاسی ماحول پر نظررکھتے ہیں ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ولی رحمانی بورڈ کی آڑ میں کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟ اپنی نادانی سے کس کی نیا پارلگانے کی خاطراچانک خانقاہ سے نکل کر حرکت میں آگئے ہیں؟ وہ یہ سب کچھ اپنی ذاتی حیثیت میں کریں تو ایک بات ہے لیکن بورڈکے کندھے پر سوار ہوکر ان کی یہ سرگرمیاں نہایت باعث تشویش ہے۔

ولی رحمانی صاحب نے یوگا کو ایک بہت بڑامسئلہ بنالیا ہے۔ حالانکہ ملت اسلامیہ میں اس سے بڑے مسائل موجود ہیں۔سب سے اہم مسئلہ ان کی تعلیم کاہے۔ مسلکی فساد کا ہے ، تعلیم یافتہ لڑکیوں اورلڑکوں میں مذہب غیر میں شادی کے رجحان کا ہے۔ خبریں بغیر شادی ساتھ رہنے کی بھی آرہی ہیں۔ خود ان کی ریاست بہار میں لڑکیوں کی بیاہ شادی کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ تلک اورجہیز اورنقد کی طلب نے مسلمانوں میں بھی لڑکیوں کو بوجھ بنایا جارہا ہے اوردخترکشی کی خبریں آنے لگی ہیں۔مسلم محلوں میں گندگی عام ہے۔ تعلیم کا فقدان ہے۔ منشیات اور زنا عام ہوتی جاتی ہے۔ اخلاقی بگاڑاس مقام پرپہنچ گیا ہے جس پر پہنچ کو قوم لوط تباہ ہوگئی اور اس پر عذاب نازل ہوگیا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے ولی رحمانی صاحب ان کے تدارک میں خود کوکیوں نہیں کھپاتے؟

ڈاکٹر راشد شاز نے ٹھیک ہی خبردارکیا ہے کہ اگر’بورڈ پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہوجائے جن کے دامن سیاسی پارٹیوں کی وفاداریوں سے آلودہ ہیں، جن کے جہاد کی حیثیت نورا کشتی سے زیادہ نہ ہواورجسے اگرفی الفورروکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو ایک غیر ضروری عوامی مہم چھیڑی گئی تو اندیشہ ہے کہ ہندستانی مسلمان ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ سو ایک ایسے نازک موقع پر جب بے بصیرت اورجذباتی قیادت محض اپنی مہم جوئی کے لئے پچیس کروڑ مسلمانوں کو ایک ہذیانی کیفیت میں مبتلا کرنے کی تیاری میں ہے، یہ ضروری ہے کہ ملت کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔‘ (ڈاکٹر راشد شازکی اہمیت یہ ہے مسلمانوں کے عروج اورزوال کی تاریخ اورمختلف تحریکات کا ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ وہ اس وقت مسلم یونیورسٹی میں ڈائرکٹر(برج کورس) کے منصب پر فائز ہیں۔ )

جناب ولی رحمانی کے مکتوب پرایک تبصرے میں ڈاکٹرتسلیم رحمانی نے کہا ہے: 12 نکات پر مشتمل خط کے 8ویں اور9ویں نمبر کے نکات کسی سیاسی پارٹی کی قرار داد محسوس ہوتے ہیں جن کا کوئی تعلق امور شرعیہ سے نہیں ہے۔ خط کے پو رے متن کا جائزہ سیاسی عزائم کا آئینہ دار ہے۔جس کا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دائر ہ کار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

میں ایک بات اورکہتا ہوں۔ مسلم پرسنل بورڈ کو کوئی ایسی مہم چھیڑنے سے پہلے جس کے اثرات پوری ملت پر پڑتے ہوں، کیا یہ ضروری نہیں کہ دیگرتنظیموں اوراہل نظرافراد کو بھی مشورے میں شامل کرلیا جائے؟ ہمارے علم کی حد تک دیوبندی مسلک کی ہی اہم جماعت جمعیۃ علماء ہند اورمسلم مجلس مشاورت بھی اس ماحول میں ٹکراؤ کی سیاست سے متفق نہیں ہے۔ کسی دیگر تنظیم کی طرف سے بھی اس تحریک کی تائید ہوتی نظرنہی آئی۔ بورڈ نے اس مہم کے شروع کرنے سے پہلے خود بھی پوری طرح غوروخوض نہیں کیا۔ عجلت پسندی آخر کیوں؟ کیا اس لئے بہار اوریوپی میں الیکشن ہونے والے ہیں اوربعض افراد اس موقع پر بورڈ کے کندھے پر سوار ہوکر نمایاں ہونا چاہتے ہیں؟

ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے عالمی اورملکی صورت حال کا جایزہ لیتے ہوئے توجہ اس طرف دلائی ہے کہ اب نشانہ دیہات کے مسلمانوں کو بنایا جارہا ہے۔ اگرملک میں ولی رحمانی کی اس تحریک سے سیاسی زہر اورپھیل گیا توہمیں مظفرنگراوراٹالی کو نہیں بھول جانا چاہئے۔ پوری دنیامیں اب ہویہ رہا ہے کہ مسلمان اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اورپھر خانہ بدوشوں کی زندگیاں بسر کریں۔ وہ خبردارکرتے ہیں:’ جن کو سیاست کرنی ہو شوق سے کریں لیکن اس کے لئے بورڈ کاپلیٹ فارم کیوں استعمال کیا جا رہا ہے ؟بورڈ کوشرعی امور کی پاسداری اور ان کی افہام و تفہیم کے لئے فعال کرنے کی ضرورت ہے ۔سیاسی معاملات سے بورڈ کو دور رہنا چاہئے۔ اور وہ حضرات جو بورڈ کے بلند قد و قامت کا استعمال کر کے اپنا سیاسی قد بلند کرنا چاہتے ہیں ان کوبورڈ کے مناصب سے دور رکھا جانا ہی مناسب ہوگا۔ ‘‘

وہ لکھتے ہیں:’’بین الاقوامی اور ملکی سطح پر کہیں بھی مسلمان اچھے دور سے نہیں گزر رہے ہیں ایسے میں ہندوستان جیسے جمہوری اور دستوری ملک میں ٹکراو کی صورتحال محض دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار فراہم کردے گی اور انعام کے طور پر چند مفاد پرست مسلمانوں کو کچھ دستاریں ضرور عطا کر دے گی۔‘‘

مقصد سے انخراف
ہرچند کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کا مقصد تحفظ شریعت قرارپایا مگر ولی رحمانی کی اس مکتوب نے اس کو ہندستانی آئین کا محافظ بنادیا ہے۔ ہم آئین کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ قانون کی ایک ایسی کتاب ہے جس میں اب تک ایک سوترمیمات ہوچکی ہیں۔ صرف ایمرجنسی میں اندراگاندھی نے51 ترمیمات منظورکرالیں۔ ولی رحمانی کو معلوم ہونا چاہئے کہ آئین کا تحفظ سڑکوں پراترکراورفساد کا راستہ کھول کر نہیں کیا جاسکتا ۔اس کی حفاظت کے لئے سپریم کورٹ کافی ہے۔ آئین کے تعلق سے اوربھی سوال ہیں۔ ہمیں آئین میں درج ان ضمانتوں تک محدود رہنا چاہئے جو اقلیتوں کو تحفظ فراہم کراتی ہیں۔ اگرآپ پور آئین کی بات کرتے ہیں تو پھر یکساں سول کوڈ کی مخالفت کیونکر کریں گے؟ بغیر شادی ساتھ رہنے اورباہمی رضامندی سے زنا اورلواطت کے مباح ہونے کے بارے میں کیا رائے دیں گے؟

سنگین غلطی
ولی رحمانی نے اس مکتوب میں پہلے ہی پیراگراف میں ہندوعقائد اوراعمال کو ہدف تنقید بناکر سنگین غلطی کی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھول جانا چاہئے کہ جس طرح اپنے عقائد ہم کو عزیز ہیں، اسی طرح ہرمذہب کے پیروکاروں کو اپنے عقائد عزیز ہوتے ہیں۔ جب آپ بات ہی ان کے عقائد پر تنقید اورتنقیص سے شروع کررہے ہیں تو کیا ان کے ذہنوں کو مکدرنہیں کررہے ہیں؟پھروہ آپ کی کیوں سنیں گے؟ کیوں ساتھ دیں گے۔ آپ آرایس ایس کے خلاف جو دلائل لائے ہیں ان میں بھی ان کے لئے کوئی جان نہیں ہوگی۔

ڈاکٹر راشد شاز نے پتہ کی بات کہی ہے :’’ موجودہ حالات میں مسلمان اگر ہندو ثقافتی علامتوں سے ٹکرانے کے لئے کھڑے ہوگئے تو ملک بھر میں سخت نفرت اور عداوت کا ماحول پیداہوگا اوربھولے بھالے ہندوبھائی آسانی سے بھاجپا کے خیمے میں چلے جائیں گے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ مسلمان اس قضیہ میں فریق بننے کے بجائے پیمبرانہ بصیرت سے کام لیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ہے:’ ’ہمیں یہ بات نہیں بھو ل جانی چاہئے کہ اس ملک میں ہماری حیثیت صرف ایک فریق کی نہیں بلکہ ایک امت دعوت کی ہے اورہم سے عامیانہ اقدامات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔‘‘

یہی وہ امت دعوت کی حیثیت ہے جس کی طرف اس کالم نگار نے اپنے گزشتہ کالموں میں توجہ دلائی تھی۔ آپ کواﷲ نے خیرامت کے منصب پر فائز کیا ہے۔ آپ اس فریضہ کوبھول گئے ۔ سوالی بن جانے کے بجاے دینے والے بنئے۔ ہم نے لکھا تھا:مسلم پرسنل بورڈ جن مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے، وہ سیاست کی گرداڑانے سے حل نہیں ہونگے۔ موجودہ ماحول میں اگر آپ نے فرقہ ورانہ بنیادوں پر کوئی عوامی تحریک سیاسی انداز کی چھیڑی ،تو اس سے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے۔ البتہ آپ کے ایک دوقائدین کے انا کی تسکین ہو جائیگی کہ ان کے نام ، فوٹو اتنے اخباروں میں چھپ گئے، اتنے جلسوں نے انہوں نے خطاب کیا اوران میں حاضری اتنی اوراتنی رہی۔‘‘

ضرور ت اس بات کی بھی ہے مسلم پرسنل بورڈ کی اب تک کی کارگزاریوں اوران کے نتائج کا احتساب بھی کرلیا جائے۔ اپنے شاہ بانو تحریک چلائی ۔ اپنا ڈرافٹ کیا ہوا بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا۔ اس کے عوض میں بابری مسجد کو گنوادیا اور وہ مسئلہ آج بھی بدستور ہے جس کے لئے وہ تحریک چلی تھی۔بورڈ کی کس مپرسی کا عالم یہ ہے کئی سال سے اس کی و یب سائٹ اپڈیٹ نہیں ہوئی۔ میرے ایک مکتوب (۱۱؍جون ) کے جوب میں جناب عبدالرحیم قریشی صاحب نے تحریر فرمایا تھا:’’ انشاء اﷲ آئندہ آپ کو ہرپریس ریلیز بھیجی جائے گی۔ میں بورڈ کے دفتر سے کہتا ہوں کہ پچھلی رپورٹس آپ کو روانہ کی جائیں۔‘‘ مجھے امید ہے کہ انہوں نے دفتر کو یہ ہدایت بھیج دی ہوگی۔ مگرمیری دومرتبہ کی یاددہانیوں کے باوجود ابھی تک کچھ ملا نہیں۔ حالانکہ بورڈ کا مرکزی دفتر میرے گھر سے آدھا پون کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر نہیں اورای میل تو کہیں سے بھی کیا جاسکتاہے۔ یہ بات ہم نے پہلے بھی لکھی تھی کہ ’بورڈملت کی ایسی اکلوتی تنظیم ہے جس کا کوئی مرکزی سیکریٹریٹ نہیں۔ ‘‘اوراس پر عزم یہ کہ ملک گیرتحریک چھیڑیں گے۔

قاسم سید نے بالواسطہ طور پر یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بورڈ کے پلیٹ فارم کو استعمال جو یہ تحریک شروع کی جارہی ہے جس سے بہا ر اوریوپی کی سیاست پراثرپڑسکتا ہے اورآرایس ایس کو مدد مل سکتی ہے، اس کا مقصد کوئی سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ نگاہیں کہیں ہیں اورنشانہ کہیں۔

اگرصورت حال یہی رہی تو ہمیں اندیشہ ہے پروفیسرطاہرمحمود، جنہوں نے قاضی مجاہد الاسلام کے دورصدارت میں شرعی عایلی قانون کی جامع کتاب کی تیار اورترجمہ میں بڑی معاونت کی تھی، ان کی اس رائے کو درست سمجھ لینا ہوگا جو انہوں نے انڈین ایکسپریس میں شائع اپنے ایک حالیہ مضمون میں ظاہر کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے: علمائے بورڈ کے ساتھ اپنے طویل تجربہ کی بیناد پر میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ بورڈ کی افادیت جاتی رہی ہے ۔ اب اسے تحلیل ہوجانا چاہئے۔ ‘‘ یقینا ولی رحمانی کے عروج کے ساتھ ہی اب بورڈ ایسا ادارہ نہیں رہ جائیگا کہ اس پر تنقید سے ملت کا شیرازہ بکھرجائے ، بلکہ صورتحال اس سے متضاد یہ ہوگی اگراہل فکرونظرخاموش رہے تو ملت کا شیرازہ بکھر نہیں جائیگا بلکہ ملت تباہ وبرباد ہوجائیگا۔
ہم بورڈ کے ارکان سے نہ تو بدظن ہیں اورنہ مایوس، البتہ ان کی ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم کی رو ش افسوسناک ہے۔ ان کو موجودہ ماحول میں فعال ہوجانا چاہئے اوراپنا کردار اداکرنا چاہئے ایسا نہ ہو ملک اورملت کسی ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہوجائے۔

(ایک وضاحت یہ ضروری ہے کہ اس مضمون میں ہم نے ولی رحمانی صاحب کے نام سے ساتھ عام طورسے مستعمل ’مولانا‘ کا لاحقہ استعمال نہیں کیا ہے۔وجہ اس کی یہ ہے فیس بک پر ان کی پروفائل سے یہ ظاہر ہوتا ہے انہوں نے کسی مدرسہ سے کوئی سند حاصل نہیں کی۔)(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.