صاحبو ۱ پیپلز پارٹی کی سندھ
حکومت نے حسب توقع رینجر کے اختیارات میں توسیع دینے سے پہلے انکار اور بعد
ازاں وزیر داخلہ چودھری نثارکی مداخلت پر صرف ایک ماہ کے لئے مشروط توسیع
دی ہے جس پربہت سے سوالات نے جنم لیا ہے رینجر کا مستقبل کیا ہو گا؟اقتصادی
ہشت گردی جاری رہی توکیاد ہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے ؟فوج کیا سوچ رہی ہے
؟کیاعوام اس مخمصے سے نکل سکیں گے؟بنظرِ غور دیکھا جائے تو وطن عزیز کے
سیکورٹی ادارے خصوصاْ افواج ِ پاکستان بین الاقوامی سازشوں کے نتیجے اور
سیاسی قیادت کی نااہلیوں کے عوض مسلط کی گئی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے
ضربِ عضب جیسی جنگ لڑ رہا ہے سینٹر (ر) طارق چودھری نے درست کہا ہے کہ فوج
ریاست کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے حالت جنگ میں ہے جو بیک وقت ایک بڑے
علاقے میں خوفناک دہشت گردی ،گوریلا جنگ ،بلوچستان میں بغاوت ،سندھ میں
پراکسی وار اور مشرقی محاذ پر انڈیا کی دھمکیوں کا سامنا کر رہی ہے ان
حالات میں سیاسی قیادت پشت پناہ بننے کے بجائے اسے ناکام بنانے کی کوشش میں
مصروف ہے ہر مجرم جو جرم کے لئے نکلتا ہے تکمیل کے بعد واپس لوٹتا ہے تو اس
کے نقش قدم( کھرا ) کسی سیاست دان کے گھر ،لیڈر کے محل یا کسی وزیر کی
رہائش گاہ کو جاتا ہے ضربِ عضب کی کامیابی کی امیدنے جہاں چین جیسے دوست
ملک کی طر ف سے اقتصادی راہداری کا تحفہ عطا کیا وہاں امریکہ ،بھارت اور
اسرئیل سمیت کئی دیگر ممالک کی طر ف سے اقتصادی رائداری منصوبے کو ناکام
بنانے کے لئے سازشوں میں بھی تیزی آئی ہے کراچی جو ایک عرصہ سے سی آئی اے
،را اور موساد جیسی ایجنسیوں کی کارستانیوں کی وجہ سے دہشت گردی وقتل و
غارت گری کا شکار ہے بدقسمتی سے اس کے ڈانڈے ایک لسانی سیاسی تنظیم ایم کیو
ایم سے بھی جا ملتے ہیں جس کے قائد الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی
جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں طارق میر جس کا شمار ایم کیو ایم کے سرکردہ
لیڈروں میں ہو تا ہے کہ حالیہ انکشافات نے جو انھوں نے لندن پولیس کو دیئے
گئے ایک بیان میں کیے ہیں جو ڈاکومینٹ میڈیا کے ہاتھ لگا ہے اس کے مطابق
بھارت ایم کیو ایم کو سالانہ 8 لاکھ پاؤنڈ دیتا تھاجبکہ بی بی سی نے بھی
اپنی ایک ڈاکومنٹری میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ایم کیو ایم بھارتی
ایجنسی را سے نہ صرف رابطے ہیں بلکہ وہ مالی امداد بھی حاصل کرتی رہی ہے
جبکہ صولت مرزا کا پھانسی ے قبل دیا گیا ویڈیو بیان بھی ریکارڈ پر ہے نائن
زیرو پر چھاپے کے دوران پکڑے جانے والے سیکورٹی ایجنسیوں کو مطلوب افراد
اور غیر ملکی ااسلحہ کی برآمدگی کا سیاپا الگ ایم کیو ایم کے گلے کا پھندا
بنا ہوا ہے اسی تناظر میں ایم کیو ایم کے جرائم پیشہ عناصر کی پکڑ دھکڑ
جاری ہے جب کہ سنی تحریک کے مرکز پر چھاپے اور مظلوب افراد کی گرفتاری کے
ساتھ ساتھ دیگر کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو بھی پکڑا جارہا ہے جبکہ
الطاف حسین کے لئے منی لانڈرنگ اور عمران فاروق قتل کیس الگ سے سوہان روح
بنا ہوا ہے مزکورہ کیسسز اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں کراچی میں بم
دھماکوں ،ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ،اغوا ء برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم
کی بیخ کنی یہ سارا عمل نیشنل ایکشن پلان کے تحت کیا جا رہا ہے اس بیس
نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادت
نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اتفاق رائے سے دی تھی جس کے تحت رینجر کو
وسیع اختیارات دئیے گئے ہیں پلان کے چھٹے نکتے میں کہا گیا ہے کہ ’’دہشت
گردوں اور ان کے گروپوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کر کے
ان کے وسائل کو ختم کیا جائے گا ‘‘دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ نے کا یہ نکتہ
بڑا اہم ہے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق نیشنل
ایکشن پلان دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں موئثر ثابت ہو رہا ہے تاہم
’’سیاسی للکاروں کے باعث قومی ایکشن پلان کی دوسری جہتوں پر عملدرآمد میں
وقت لگے گا ‘‘یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا سندھ حکومت جو پیپلز پارٹی
کی ہے رینجر کے ساتھ نہ صرف تعاون کیا بلکہ اس کے ہر ایکشن کو سراہا لیکن
بات یہاں سے خراب ہونی شروع ہوئی جب آپریشن کے دوران کچھ ایسے لوگ بھی پکڑے
گئے جنہوں نے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے اپنے تعلق کا اعتراف کیا اور ایسے
انکشافات کئے جن سے ان پارٹیوں کی ساکھ کو نقصان پہنچنے لگا ڈی جی رینجر کی
طرف سے اپیکس کمیٹی کے سامنے اس دعوے نے کہ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں
پنپنے والے بہت سے مافیاز اہلیان کراچی سے ہر سال 230 ارب روپے لوٹ لیتے
ہیں اس کالے دھن کا ایک حصہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہو تا ہے
اور وہ اس کالے دھن کی مارکیٹ کو لگام ضرور ڈالیں گے چور کی داڑھی میں تنکا
کے مترادف پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے خطرے کو بھانپتے ہوئے فوج
کے خلا ف جو ہزہ سرائی کی ہے وہ بے سبب نہیں لوٹ مار بند اور بھید کھلنے
لگے تو’’ صدائے درد ناک اٹھی‘‘ لیکن سیاسی حمایت نہ ملنے پر بیک فٹ پر جانے
کے لئے مجبور ہوئے ان کے گماشتے ان کی فوج کے خلا ف تقریر کو مختلف معانی
پہنانے کی ناکام کوشش کر تے رہے لیکن بات نہ بنتی دیکھ کرمظفرٹبی اور ادی
فریال تالپور سمیت ملک سے بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی کیونکہ لیاری گینگ وار
کے مرکزی کردار عزیز بلوچ کی حساس اداروں کی تحویل میں خالد شہنشاہ کے قتل
سمیت متعدد اہم وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعترافی بیان ریکارڈ پر ہے جبکہ
سندھ کی اہم شخصیت کے فرنٹ مین اور مالی معاملات کے انچارج محمد علی شیخ کی
گرفتاری بھی منظر عام پر آچکی ہے وائس چہرمین فش ہاربر اتھارٹی سلطان صدیقی
کی گرفتاری اور انکشافات جس میں انھوں نے کرپشن سے حاصل کی گئی رقم کا 70
فیصد بلاول ہاوس کو دینے کا اعتراف کیا ہے ماڈل آیان علی کی گرفتاری سے لے
کر سمندری بوٹ سے پانچ سوارب اور ایک صوبائی وزیر کے گھر سے دوارب ڈالر کی
برآمدگی بھی پیپلز پارٹی کے لئے سوہان روح بنی ہوئی ہے اور پارٹی کے بڑے
بڑے لیڈر خطرے کو بھانپتے ہوئے پارٹی کو داغ،مفارقت دے رہے ہیں جبکہ عوامی
سطح پر بھی پارٹی کی ساکھ کو سخت دھچکا لگا ہے اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ
کیا فوج جو ضرب عضب کے تحت دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہے اور
کامیابیاں بھی حاصل کر رہی ہے کیا وہ اقتصادی ہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھی
اسی سرعت سے کام کر سکے گی جس طرح دہشت گردی کے خلاف کر رہی ہےِ؟جمہوری
تماشا کی عامل سیاسی قیادتیں کرپشن میں کس قدر لتھڑی ہوئی ہیں اس کا اندازہ
نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی حالیہ رپورٹ ہے جس میں مسلم لیگ ن
،مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں سمیت دیگر 150اہم شخصیات کے نام
شامل ہیں ان حالات میں اکیلے فوج ان لٹیروں کا احتساب کرنے سے قاصر ہے
کیونکہ جمہوری تماشا کی یہ کرپشن میں گوڈوں گوڈوں تک دھنسی قیادتیں آئین
اور قانون کو ڈھال بنا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں جس کا اختیار
ووٹ کے ذریعے عوام نے ان کو دیاجنھوں نے 18ویں اورد یگر آئینی ترامیم کے
ذریعے خود کو تحفظ فراہم کر رکھا ہے جس کا ثبوت سندھ حکومت کی طرف سے رینجر
کے اختیارات میں ایک مہینہ کی مشروط توسیع ہے جو پورے صوبہ کے بجائے صرف
کراچی تک محدود کر دی ہے اور اٹھارویں ترمیم کی آڑ میں آرٹیکل 147کے تحت
صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کر دی ہے سند ھ رینجر کا سندھ میں کردار
ختم کرنے کی طرف پہلا قدم ہے تاکہ ان کی کرپشن جاری رہے جس میں ایم کیو ایم
بھی پیپلز پارٹی سے اختلافات کے باوجود ہم رکاب ہے حالا نکہ قبل ازیں سندھ
حکومت رینجر کے اختیارات میں مجوزہ چار ماہ کی توسیع دیتی آئی ہے اور
اٹھارویں ترمیم کا کبھی ذکر نہیں کیا کیونکہ آپریشن کا رخ اس وقت ایم کیو
ایم کی طرف تھا لیکن اب جب اپنی دم پر پاؤں آیا ہے تو پیپلز پارٹی ساری
کایا ہی پلٹنے پر تل گئی ہے شائد اسی وجہ سے وفاقی حکومت نے ایف آئی اے اور
نیب کو کرپشن کے خلا ف کاروائی کرنے کے اختیارات سونپنے کے اقدامات کئے ہیں
کیا مذکورہ ادارے جن کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اقتصادی دہشت گردی
کو روک سکیں گے ایک الگ سوال ہے؟ فوج جو ملک میں ددہشت گردی کے خاتمے کے
لئے اقتصادی دہشت گردی کو روکنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے پیپلز پارٹی کی کرپشن
پروف اس حکمت عملی پر کیا ری ایکٹ کرے گی آنے والا وقت ہی بتائے گا فوج کو
بند گلی میں ڈالا گیا تو وہ اپنا راستہ نکالے گی جو فی الحال تیل اور اس کی
دھار کو دیکھ رہی ہے میڈیا کے ذریعے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جس طرح
عوام کے سامنے ایکسپوز ہوئی ہیں اس کا اندازہ ان پارٹیوں کو بھی بخوبی ہے
پانچ سالہ جان توڑ کرپشن کے نتیجہ میں پہلے ہی عوام پیپلزپارٹی کو سندھ تک
محدود کر چکی ہے اور اب سندھ بھی ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اپنی بقا کی اسی
طرح جنگ لڑ رہی ہے جس طرح ایم کیو ایم را سے رابطوں کے انکشافات کے بعد منہ
چھپاتی پھر رہی ہے کتنی دیر تک آئین اور قانون کی آڑ میں اپنی بدعمالیوں کو
چھپائیں گی؟ د یگر پارٹیوں کی صفوں میں چھپے اقتصادی دہشت گردوں کی تلاش
بھی جاری ہے اب یہ سیاسی پارٹیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس جمہوری تماشا کی بقا
کے لئے کتنی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں ورنہ گندے انڈوں کے ساتھ یہ
جمہوری تماشا زیادہ دیر چلنے والا نظر نہیں آتا اور عوام بھی اب فیصلہ کرنا
ہو گا کہ بدبو زدہ جمہوری تماشا انھیں چائیے یا ملک کیونکہ ان حالات میں
ملک کا چلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے جنرل راحیل جس حکمت عملی کے ساتھ ملک کی
بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں عوام ان کی صلاحیتوں اور اخلاص کی معترف دکھائی دیتے
ہیں خدا کرے سیاست دانوں کو بھی یہ بات جلد سمجھ آجائے ورنہ عوام تو ان کے
جمہوری تماشے کو سمجھ ہی چکے ہیں ۔ |