بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی
النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔
٭ عید الفطر کی شب میں عبادت کرنا مستحب ہے جیساکہ حدیث میں گزر ا کہ حضور
اکرم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی
گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔۔۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان کی
آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ
کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ
ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد،
بزار ، بیہقی، ابن حبان) معلوم ہوا کہ عید کی رات میں بھی ہمیں عبادت کرنی
چاہئے اور اِس بابرکت رات میں خرافات میں لگنے اور بازاروں میں گھومنے کے
بجائے عشاء اور فجر کی نمازوں کی وقت پر ادائیگی کرنی چاہئے، نیز تلاوتِ
قرآن ، ذکر واذکار اور دعاؤں میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا چاہئے یا کم از کم
نمازِ عشاء اور نماز فجر جماعت کے ساتھ ادا کریں۔
٭ عید الفطر کے دن میں روزہ رکھنا حرام ہے جیساکہ حدیث میں گزرا۔
٭ عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب ِاستطاعت عمدہ کپڑے پہننا، خوشبو
لگانا، صبح ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا،
عید کی نماز کیلئے جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا، ایک راستہ سے عیدگاہ
جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کیلئے جاتے ہوئے تکبیر کہنا (اَللّٰہُ
اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَر،لَا اِلہَ اِلَّا اللّٰہ، وَاللّٰہُ اَکْبَر،
اَللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْد)، یہ سب عید کی سنتوں میں سے ہیں۔
٭ حضور اکرم ﷺ عید الفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھاکر ہی جاتے تھے اور عید
الاضحی میں بغیر کھائے جاتے تھے۔ (ترمذی)
٭ عید الفطر کے روز نماز عید سے قبل نمازِاشراق نہ پڑھیں۔ (بخاری ومسلم)
عیدالفطر کی ۲ رکعت نماز میں ۶ زائد تکبیریں:
٭ عید الفطر کے دن جماعت کے ساتھ دو رکعت کا بطور شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔
٭ عید الفطر کی نماز کا وقت طلوع ِآفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتاہے۔
٭ عید الفطراور عید الاضحی کی نماز میں زائد تکبیریں بھی کہی جاتی ہیں جنکی
تعداد میں فقہاء میں اختلاف ہے، البتہ زائد تکبیروں کے کم یا زیادہ ہونے کی
صورت میں امتِ مسلمہ نماز کے صحیح ہونے پر متفق ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے
مشہور فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہؒ نے ۶ زائد تکبیروں کے قول کو اختیار
کیا ہے۔
٭ حضرت سعید بن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اور
حضرت حذیفہ بن الیمان ؓسے سوال کیا کہ رسول اﷲ ﷺ عیدالاضحی اور عید الفطر
میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓنے جواب دیا: چار تکبیریں
کہتے تھے جنازہ کی تکبیروں کی طرح۔حضرت حذیفہ ؓ نے (حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ
کی تصدیق کرتے ہوئے) کہا کہ انہوں نے سچ کہا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے
بتایا کہ جب میں بصرہ میں گورنر تھا تو وہاں بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد۔باب التکبیر فی العیدین، السنن الکبری للبیہقی ۔باب فی ذکر
الخبر الذی قد روی فی التکبیر اربعاً)
٭ احادیث کی متعدد کتابوں میں جلیل القدر صحابی حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے
عیدین کی چار تکبیریں (پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور دوسری رکعت
میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ) منقول ہے۔یاد رکھیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے شاگردوں کے خصوصی شاگرد ہیں، بلکہ حقیقت
یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ ہی حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی قرآن
وحدیث فہمی کے حقیقی وارث بنے ۔
٭ امام طحاوی ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد تکبیراتِ جنازہ کی
تعداد میں اختلاف ہوا ۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں حضرات صحابۂ
کرام نے باہمی غوروخوض کے بعد اس امر پر اتفاق کیا کہ جنازہ کی بھی چار
تکبیریں ہیں نماز عیدالاضحی اور عید الفطر کی چار تکبیروں کی طرح (پہلی
رکعت میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر کے ساتھ)
۔ (طحاوی ۔ التکبیر علی الجنائز کم ہو؟)
غرضیکہ عہد فاروقی میں اختلافی مسئلہ"تکبیراتِ جنازہ" کو طے شدہ مسئلہ
"تکبیراتِ عید" کے مشابہ قرار دے کر چار کی تعیےن کردی گئی۔
﴿وضاحت﴾: امام طحاوی حنفی ؒ (۲۲۹ھ۔۳۲۱ھ)بہت مشہور ومعروف محدث وفقیہ گزرے
ہیں جنہوں نے عقیدہ پر ایک ایسی کتاب "العقیدۃ الطحاویۃ" تحریر فرمائی ہے
جو عرب وعجم میں بہت زیادہ مقبول ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس سے بہتر کتاب
عقیدہ کے موضوع پر تصنیف نہیں کی گئی۔ عرب ممالک کی متعدد یونیورسٹیوں اور
علمی اداروں کے نصاب میں داخل ہے۔
٭٭٭ عید کی نماز کے بعد امام کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، خطبہ شروع ہوجائے تو
خاموش بیٹھ کر اُس کا سننا واجب ہے۔ جو لوگ خطبہ کے دوران بات چیت کرتے
رہتے ہیں یا خطبہ چھوڑکر چلے جاتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ |