صدقہ فطر کے مسائل

حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوٰۃ فطر (صدقہ فطر) کے طورپر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا ہے، نیز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کے بارے میں یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو (عیدالفطر کی) نماز کے لئے جانے سے پہلے دیدیا جائے۔‘‘( بخاری شریف)

ہر اس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے جو اپنے لئے اور ان لوگوں کے لئے کہ جن کی طرف سے صدقہ فطر دینا اس کے ذمہ ہے ایک دن کا سامان خوراک رکھتا ہو اور وہ بقدر صدقہ فطر اس کی ضرورت سے زائد بھی ہو بعض کے نزدیک صدقہ فطر اسی شخص پر واجب ہوگا جو غنی ہو، یعنی وہ اپنی ضرورت اصلیۃ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر اسباب وغیرہ کا مالک ہو‘ یا اس کے بقدر سونا چاندی اپنی ملکیت میں رکھتا ہو اور وہ قرض سے محفوظ ہو۔

صدقہ کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے وقت ہوتا ہے لہٰذا جو شخص طلوع فجر سے پہلے وفات پا جائے اس پر صدقہ فطر واجب ہے ۔ اسی طرح جو شخص طلوع فجر کے بعد اسلام لائے اور مال پائے یا جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہو اس پر بھی صدقہ فطر واجب نہیں۔ جو غلام خدمت کے لئے ہو اس کی طرف سے اس کے مالک پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں جو غلام تجارت کے لئے ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ،اسی طرح جو غلام بھاگ جائے اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ،ہاں جب وہ واپس آجائے تو اس وقت دینا واجب ہوگا۔

اولاد اگر چھوٹی ہو اور مالدار نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کے باپ پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں اگر چھوٹی اولاد مالدار ہو تو پھر اس کا صدقہ فطر اس کے باپ پر واجب نہیں ہے، بلکہ اس کے مال میں سے دیا جائے گا۔ بڑی اولاد جس پر دیوانگی طاری ہو اس کا حکم بھی چھوٹی اولاد کی طرح ہے‘ اسی طرح بڑی اولاد کی طرف سے باپ پر اوربیوی کی طرف سے خاوند پر ان کا صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں اگر کوئی باپ اپنی ہوشیار اولاد کی طرف سے یا کوئی خاوند اپنی بیوی کی طرف سے ان کا صدقہ ان کی اجازت سے ازراہِ احسان و مروت ادا کردے تو جائز ہوگا۔ہمارے ملک میں چونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہے ۔اس لیے جو شخص گھر کا انتظا م انصرام چلا رہا ہو۔وہ گھر کے سارے افراد چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے ۔بالغ ہوں یا نابالغ سب کا فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

مذکورہ بالا حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ صدقۂ فطر نماز عید سے پہلے ہی اداکردینا مستحب ہے اگر کوئی شخص اس سے بھی پہلے خواہ ایک مہینہ یا ایک مہینہ سے بھی زیادہ پہلے دے دے تو جائز ہے۔ نماز عید کے بعد یا زیادہ تاخیر سے صدقہ فطر ساقط نہیں ہوتا بہر صورت دینا ضروری ہوتا ہے۔

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہم کھانے میں سے ایک صاع یا جڑ میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع یا خشک انگوروں میں سے ایک صاع صدقہ فطر نکالا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم
)
ایک روایت ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے رمضان کے آخری دنوں میں (لوگوں سے) کہا کہ تم اپنے روزوں کی زکوٰۃ نکالو یعنی صدقہ فطر ادا کرو سرکادوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ صدقہ ہر (مسلمان آزاد ،غلام، لونڈی، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر کھجوروں اور جڑ میں سے ایک صاع اور گیہوں میں سے نصف صاع فرض (یعنی واجب) ہے۔‘‘ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ اسی حدیث کے مطابق کہتے ہیں کہ صدقہ فطر کے طور پر اگر گیہوں دیا جائے تو اس کی مقدار نصف صاع یعنی ایک کلو ۶۳۳ گرام ہونی چاہئے۔ حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے روزوں کو بیہودہ باتوں اور لغو کلام سے پاک کرنے کے لئے نیز مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے۔‘‘ (ابوداؤد) مطلب یہ ہے کہ صدقۂ فطر کو اس لئے واجب کیا گیا ہے تاکہ تقصیرات و کوتاہی اور گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو خلل واقع ہوجائے وہ اس کی وجہ سے جاتا رہے نیز مساکین و غرباء عید کے دنوں میں لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچ جائیں ۔اور وہ صدقہ لے کر عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوجائیں۔

’’جو شخص صدقۂ فطر نمازعید سے پہلے ادا کرے گا اس کا صدقہ ’’مقبول صدقہ‘‘ ہوگا اور جو شخص نمازعید کے بعد ادا کرے گا تو اس کا وہ صدقہ (بس) صدقوں میں سے ایک صدقہ ہوگا۔ حضرت عمر و ابن شعیبؒ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ کے گلی کوچوں میں یہ منادی کرائی کہ ’’سن لو! صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مردہو یا عورت‘ آزاد ہو یا غلام اور چھوٹا ہو یا بڑا (اور اس کی مقدار) گیہوں یا اس کی مانند چیزوں (مثلاً خشک انگور وغیرہ) میں سے دو مداور (گیہوں کے علاوہ دوسرے اجناس میں سے ایک صاع ہے۔ (ترمذی)

صدقہ فطر کے متعلق یہ جو بات مشہور ہے کہ جو زکوٰ ۃ ادا کرسکتا ہے وہ ہی صدقہ فطرانہ ادا کرے گا ،غلط ہے۔ بلکہ صدقہ فطر ہر شخص اداکرے گا ۔جیسا کہ درج بالاحدیث میں منقول ہے نیز عام شخص سوا دوکلو جو یا اس کے برا بر قیمت یا کوئی جنس فطرانہ کے ادا کرے گا۔لیکن خاص شخص اور موجودہ دور کے امیر افراد جس میں مالکان فیکٹریاں،ججز، آرمی کے آفیسرزایم پی اے اور ایم این اے حضرات اور انتظامیہ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کا فطرانہ سوار عجوہ کھجورکی مانند ہوگا، اور اور اس کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی اسطاعت کے مطابق ہر امیر مسلمان کو لازمی طور صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔ جبکہ رواں سال عام شخص کا فطرانہ کم از کم 100 روپے ہے۔ ہمارے ہاں جب اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جب دینے کا وقت آتا ہے تو حساب لگا کر دیتے ہیں اور جب بارگاہ الٰہی سے لینے کا وقت آتا ہے تو بہت لمبی لمبی امیدیں رکھتے ہیں جو کہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہیں۔ ہر صورت یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں یقینی اضافہ ہوتا ہے۔ بہر کیف صدقہ فطرانہ اگرہر شخص اپنے نصاب کے مطابق اداکرے تو ہمارے ملک کے غربا بھی عید اچھی طرح منانے کے حامل ہوجائیں ۔اﷲ پاک ہر مسلما ن کو صدقہ فطرادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
٭٭٭
(بروز جمعتہ المبارک ملی ایڈیشن کے لیے)
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 818807 views Journalist and Columnist.. View More