کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں یہ تنہا ہے
کراچی سب کا ہے اس کا کوئی نہیں اس بار کی گرمی و طویل لود شیڈنگ نے با ور
کروادیا ہم کس قدر بد انتظامی کا شکا ر رہے ہم سب نے معا شی وانتظامی بد
حالی کو قریب سے دیکھا ہمارے پا س اس نا گہانی آفت سے بچنے کا کو ئی نسخہ
مو جود نہیں اب لوگ خود کو غیر محفوظ وبے بس سمجھنے لگے ہیں یہاں رہنا ایک
آزما ئش سے کم نہیں لاچار شہریوں کے لئے فرار کا کو ئی را ستہ نہیں حکمرانی
کا پورا نظام متزلزل ہے اداروں کا عوام سے کو ئی را بطہ نہیں پولیس ہماری
حفا ظت کے لئے نہیں کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں میں مسلسل اضافہ ہوتا
جا رہا ہے کراچی کی اپنی آبادی اقلیت بنتی جا رہی ہے ہر جا نب انسانوں کا
ٹھا ٹھے ما رتا سمندر ہے وسائل محدود ہیں دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہو نے
والے شہر میں ٹریفک کا کوئی با ضا بطہ نظام موجود ہی نہیں سخت گرمی میں
عوام آدھ گھنٹے کا سفر چھ گھنٹے میں کرتی دکھا ئی دیتی ہے بحثیت پا کستا نی
کو ئی کا م ٹھیک وقت پر مکمل نہیں کرتے کو ئی پر وجیکٹ ،سڑ ک یاکو ئی پل
مکمل نہیں ہو ا کو ئی بات نہیں ہنوز دلی دور است! ابھی افتتا ح میں کئی دن
با قی ہیں ہو جا ئے گا جب دو دن رہ گئے اخبا روں میں وزیر صا حب کے تا ریخ
افتتا ح کی خبر لگ گئی تو ہنگا می بنیا دوں پر کا م شروع ہو گیا مہینو ں کا
کام دن رات لگا کر ختم کیا گیاہم ایک ایمر جنسی پسندقوم ہیں نفسیا تی طور
پر ایک ایسی قو م جو آج کا کام کل پر ٹالنے کو اپنا ایما ن سمجھ چکی ہے جب
بحر ان و خطر ہ سرپر پہنچتا ہے تب ہی ہم اسے حل کر نے کی طر ف دوڑتے ہیں
اسکے بر عکس دیگر قوموں نے اپنے بحرانوں کا اندا زہ بہت پہلے لگا لیا انھوں
نے بے پنا ہ محنت کی ا پنی ذا ت سے با لا تر ہو کر قوم کی خدمت کی ان مسا
ئل وبحرا نوں کو اپنے ملک سے دور دھکیل دیا۔
اس وقت ہما را ملک انر جی یا تو انا ئی کے بحرا ن کا شکا رہے ہم الزام در
یا ؤں میں پا نی کی قلت کو دیتے ہیں حلا نکہ یہ چیز تو ہمیں بہت پہلے مد
نظر رکھنی چا ہیے تھی اسکا متبا دل نظا م ر کھنا چا ہیے تھا معاشی ترقی میں
بجلی کی اہمیت ر یڑھ کی ہڈی کے مترا دف ہے مگر اپنی ہی غلطیو ں کی و جہ سے
نہ صر ف ہما رے گھرو ں میں اندھیروں کا بسیرا ہے بلکہ ہما ری نسلو ں کا
مستقبل بھی تا ریکیو ں میں ڈوب گیا ہے ہم تو قدرت کے بنائے ہوئے ایک چھوٹے
سے پرندے ’’بیا ‘‘سے بھی گئے گزرے ہیں وہ بھی اپنے گھو نسلے کو روشن رکھنے
کے لیے ایک جگنو کو اپنے گھر قید رکھتا ہے ہماری معیشیت تبا ہی کے دھا نے
پر کھڑ ی ہیں حکو مت کے زیر سر پر ستی ملک بھر میں ۸ سے ۱۵ گھنٹے کی لو ڈ
شیڈنگ نے ہزارو ں کارخانے ،ملو ں ودیگر کا رو با ر کو ختم کر دیا ہے لاکھو
ں گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہو گئے ہیں اس پر ظلم ہے کہ بل ہزاروں سے کم کا
نہیں آتا حکومت نے بھی عوام کے ساتھ مرے کو سو درے اور ما رو کے مصا دق آئے
دن بجلی مہنگی سے مہنگی کر نے کی خبر عوام پر بجلی بن کر گرتی ہے بجلی کے
بل پر ٹیکس ، میٹر ٹیکس اور بنک سر چارج پہلے ہی بل کے ساتھ لگ کر آجا تا
ہے عوام کوما لی خسا روں اورذہنی انتشا ر نے سرا پا احتجا ج بنا دیا ہے وہ
غیض وغضب بن کر سڑکو ں پر نکل آئیں ہیں کہیں روڈبلاک کیے ہو ئے ٹائر جلا ئے
ہوئے یہ عوام سخت گرمی میں سراپا احتجا ج ہیں کسی کی شکا یت ہے کئی دنوں سے
لا ئٹ نہیں تو کوئی نو حہ کنا ں ہے کہ بجلی نہ ہو نے سے پمپنگ اسٹشن بندہے
جس سے پا نی کی سپلا ئی بھی منقطع ہے مسلما ن حاکم کی ر یا ست میں اگر کو
ئی کتا بھی بھو کا ہو تو اس کی پوچھ گچھ قیا مت کے دن حکمرا ں سے ہو گی
ادھر تو کوئی انسانوں کو نہیں پو چھتا سینکڑوں لوگ ہیٹ اسٹروک سے وفات پا
چکے ان کا بلوا سطہ یا بلا واسطہ تعلق لو ڈ شیڈنگ سے ضرور ہے اگر پیپلز
پارٹی اپنے قا ئد ذولفقار علی بھٹوکی پالیسی پر عمل کرتی تو کسی کے مرنے کی
نو بت نہ آتی پارٹی کے قائد کا نعرہ رو ٹی کپڑااور مکا ن اب صرف حکمرانوں
کے لیے رہ گیا ہے چند دن پہلے پیپلز پا رٹی نے اپنا تیسرا بجٹ پیش کیا جو
کس طر ح بھی پیپلز پا رٹی کے منشور سے میل نہیں کھا تا ہا ں! بے نظیر انکم
سپورٹ کی گداگری ضرور نظرا ٓتی ہے ہمیں ما ننا پڑے گا ہما ر ے سیاسی جما
عتوں نے ما یو سی ا ور غر بت کے سوا کچھ نہیں دیا دیہی زند گی کی طرف نگا ہ
دو ڑا یے تو فصل پر پا نی دینے کے لئے دہقانوں کو بجلی کی ضرو رت ہے ہندو
ستا ن میں کسانو ں کو مفت بجلی فر اہم کر کے سوا ارب لو گو ں کا پیٹ بھرا
جا سکتا ہے تو مفت نہ سہی کم ازکم ٹیو ب ویل چلا نے کے لیے تو بجلی فرا ہم
کر د یجیے ہما رے اداروں کی مجر ما نہ غفلت ونا اہلی ہے جس کے سبب ہم گذ
شتہ کئی د ہا ئیوں میں ایک بھی ڈیم نہ بنا سکے اس دورا ن لاکھوں گیلن قیمتی
پا نی سمند رمیں ضا ئع کر چکے ہیں سینکڑوں ایکڑ ارا ضی بنجر کر چکے ہیں تر
بیلا ڈیم کے بعد ہم نے کو ئی ڈیم نہ بنا یا بس زبا نی جمع خر چ کر تے رہے
اگر یہ ڈیم تعمیر کرلیے جا تے تو ار بوں رو پئے کا زر مبا دلہ بھی بچا سکتے
تھے ڈیمو ں کے ذر یعے جو بجلی حا صل کی جا تی اس سے قد رتی گیس اور تیل کی
بچت الگ ہوتی جسے ہم کسی اور کا م میں لا سکتے تھے سیلا بو ں سے جو جا نی
ومالی نقصا ن ہو تا ہے اس سے بھی نجا ت مل جا تی خطر ہ سر پر پہنچ چکا ہے ۔
موجودہ دور میں قو مو ں کی معا شی اور زر عی تر قی میں ڈیمز کا کر دا ر نہا
یت اہم ہے ا سکے علا وہ دریا ئی و سمند ری لہرو ں سے چھو ٹے جنریٹر لگا کر
سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے یہ مقا می استعما ل میں لا ئی جا سکتی ہے پا
کستا ن تو انا ئی کے و سائل سے مالا مال ہے اس کے استعما ل کے لیے صیح منصو
بہ بند ی کی ضروت ہے پا کستا ن میں قدرتی گیس کے ذ خا ئر مو جود ہیں کو ئلہ
سے بجلی پیدا کر نے کی طرف صیح معنو ں میں تو جہ نہیں دی گئی ہما رے ہا ں
دنیا کے اعلیٰ معیار ی کو ئلہ کے وسیع ذ خا ئر مو جو دہیں استفا دہ کیا جا
ئے تو ہم اپنی ضروریا ت کو کا فی حد تک اس سے پو را کر سکتے ہیں اﷲ تعا لیٰ
نے پا کستا ن کوسورج اور ہوا کی دولت سے نو ازا ہے ہم پو رے سال سورج کی رو
شنی سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں ہما ری سات کلو میٹر ساحلی پٹی پر چو بیس
گھنٹے تیز ہو ائیں چلتی ہیں ہم اس پٹی پر ہو ائی چکی لگا ئیں تو اس بجلی سے
پورا شہر روشن کر سکتے ہیں ہمارے پا س سب کچھ ہے مگر محنت کے لیے و قت نہیں
مہذب قو میں مستقبل پر نظر رکھ کر جا مع منصو بہ بند ی کر تی ہیں انھو ں نے
بحرا نوں سے نبٹنے کے بعد ٓائندہ کا لا ئحہ عمل بھی تیا رکر لیا ہے وہ تو
انا ئی کے متبا دل ذر ائع پر بھی کا م کر ہے ہیں کل جب دنیا میں تیل گیس کے
ذرا ئع ختم ہو جا ئیں گے ڈیمو ں کے لیے پا نی نہ رہے گا تو اس کا متبا دل
رو شنی اور ہوائیں ہو ں گی جو کبھی ختم نہ ہوں گی اب وہ اس طر ف تجر بات
میں مگن ہیں ادھر ہم دیر آئید درست آئید کی ہنگا می بنیا دوں پر کا م کر نے
کے عا دی ہیں کراچی میں گرمی کی لہر نے بد انتظامی کی پول پٹی کھول دی ہے
کسی دانشور نے خوب کہا ہے,, شہر بھی درختوں کی مانند ہوتے ہیں وہ اسی وقت
پھلتے پھولتے ہیں جب ان کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہو ں کراچی کے خزاں
آلود ہو نے کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے ملک اپنے صوبے سے دور ہو تا جا رہا
ہے،،۔ |