صرف پاؤ دودھ

حضرت عمر فاروق ؓ کا دور خلافت تھااور وہ رات کے وقت شہر کا گشت کرکے لوگوں کا حال معلوم کیا کرتے تھے جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا انہیں خود رات کی تاریکی میں راشن مہیا کرتے انہوں نے فرمایا تھا کہ درائے فرات کے کنارے اگرکتے کا بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو اسکا ذمہ دار عمر ہوگا اسی لیے تو انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی تھی پولیس ،بیت المال جیسے لازاوال محکمے انہوں نے ہی بنائے تھے بے مثال عدل و انصاف کی بدولت شام ،مصر اور ایران تک پھیلی ہوئی28لاکھ مربع میل رقبہ پر حکومت کرنے والے حضرت عمر فاروق ؓ خود کوئی مراعات نہیں لیتے تھے یہاں تک کہ انہیں اپنے سلے ہوئے کپڑوں کے متعلق بھی وضاحت پیش کرنا پڑی کہ کپڑا کم ہونے کی وجہ سے انکے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا انہیں دیدیا تھا جبکہ ہمارے حکمرانوں نے قومی خزانے کولوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے جسکا جتنا جی چاہے لے جائے کیونکہ یہاں عدل وانصاف نہیں ہے ابھی پچھلے دنوں نیب نے سپریم کورٹ میں سیاستدانوں کے منہ سے شرافت کا جونقاب اٹھایا تو اقتدار کے حمام میں سبھی ننگے ہوگئے یہی وجہ ہے حکمران دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں اور ایک عام شہری فاقہ کشی پر مجبور ہے ہمارے ہاں غربت اور مفلسی کا یہ عالم ہوچکا ہے کہ پیسے اور روزگار نہ ہونے سے ایک 6 ماہ کا بچہ ماں کی گود میں بھوک سے بلکتا ہوا موت کی آغوش میں چلا گیا ماں صدمے سے پاگل ہوگئی اسکے بعد اہل شہر اور اہل محلہ کی بے حسی بھی دیکھنے کے قابل تھی پورے محلے ،پورے شہرسمیت وہاں کے نام نہاد عوامی خدمت گاروں کے پاس بھی اتنے پیسے نہیں تھے کہ کوئی ایک فرد اس معصوم بچے کے کفن دفن کا انتظام اپنی جیب سے ہی کردیتا اسکے لیے بھی محلے داروں نے چندہ اکٹھا کر کے بچے کے کفن دفن کا انتظام کیا لعنت ہے ایسے محلے داروں پر کہ جنکے محلے میں غربت ننگی ناچ رہی تھی اور وہ بے خبری کی نیند سورہے تھے اور بچے کے مرنے کے بعد محلے داروں نے بچے کی میت کے ساتھ چندہ مانگ کر اس گھر کا جنازہ بھی ساتھ ہی نکال دیا لعنت ہے ایسے اراکین اسمبلی پر جو ووٹ لینے کی خاطر تو ان غریب افراد کے دروازے پر بھکاری بن کر چلے جاتے ہیں مگر جب انہی محسنوں پر برا وقت آتا ہے تو کوئی ایک بھی غیرت مند سامنے نہیں آتا کہ وہ کفن دفن کا انتظام بغیر چندہ اکٹھا کیے ہی کردیتا لعنت ہے ایسے نظام پر جہاں کمیشن خور اور بھتہ مافیادونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوں مگر 6ماہ کا بچہ دودھ نہ ملنے کے باعث دم توڑ جائے اور لعنت ہو ایسے حکمرانوں پر جن کے بچوں کی حفاظت کے لیے سینکڑوں پولیس اہلکار انکے اردگرد منڈلاتے ہوں جنکے سر میں درد بھی ہوں تو علاج کروانے پاکستان سے بھاگ جاتے ہوں اور لعنت ہوں ایسے مردہ معاشرے پربھی جن کی بے حسی تمام حدیں پھلانگ چکی ہوں جو اپنے اپنے مفادات کے لیے لٹیرے سیاستدانوں کے لیے تو باہر نکلتے ہوں مگر اپنا حق لینے کے لیے باہر نکلنا ہماری عوام کو پسند نہیں شائد اپنے حق کے لیے باہر نکلنے پر بریانی کی دیگیں نہیں ملتی الٹا پولیس کے ڈنڈے کھانا پڑتے ہیں جبکہ سیاستدان ہمیں سڑکوں پہ لاکر پیسے دیتے اور بریانی کھلاتے ہیں ہم لوگ اس حد تک گھٹیا بن کر گرچکے ہیں کہ اس وقت تک کسی کی مدد نہیں کرتے جب تک سامنے کیمرے آن نہ ہوں اگر اس بچے کے سامنے بھی کوئی کیمرہ تصویر بنا رہا ہوتا تو کئی مخیر پیدا ہوجانے تھے اور نارنگ منڈی کے صدر بازار کے ساتھ ملحقہ عتیق سٹریٹ میں یہ دل دکھا دینے والا واقعہ پیش نہ آتا جہاں انتہائی غریب دھوبی خاندان کا فردشفاقت علی محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرہا تھااور اسکے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ اپنے بچے کے لیے ایک پاؤ دودھ کا انتظام ہی کرسکتاجسکی وجہ سے اسکا لخت جگر بھوک کی وجہ سے دنیا سے چلا گیا اس بچے کا خون کس کس حکمران کے سر جائیگا ہے کوئی اس کا جواب دینے والا یہ صرف ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرہ میں آدھی آبادی اس صورتحال سے دوچار ہے اگر ایک وقت کا کھانا مل گیا تو دوسرے وقت کا کچھ پتا نہیں کہ کیا بنے گا حکمرانوں نے ہماری یہ حالت بنا دی ہے کہ نہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی بیماری سے لڑنے کی سکت ہے سرکاری ہسپتالوں میں بھی اس کا علاج اچھا ہوتا ہے جسکی سفارش اچھی ہوتی ہے اسکے بغیر وہاں علاج ہے اور نہ ہی دوائی ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل گرمی کی شدت سے کراچی میں سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے اور نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ مردہ خانوں اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی تھی لوگ اپنے پیاروں کو لیے کہاں کہاں نہیں گئے خواری کا یہ عالم تھا کہ لاش گھر میں رکھیں تو خراب ہونے کا خدشہ تھا مردہ خانوں میں ضرورت سے زیادہ لاشیں جمع ہوچکی تھی اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی اس صورتحال میں بھی حکمرانوں نے آپس میں سیاست سیاست کا کھیل کھیلنا شروع کردیا نہ جانے کب ہم ایک قوم بنیں گے اور لٹیرے سیاستدانوں سے نجات ملے گی۔
 
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 613886 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.