سلطان الاذکار ‘‘ھو ‘‘

 اسم اللہ ذات کے ذکر کی چار منازل ہیں اللہ للہ لہ ھو اسم اللہ ذات اپنے مسمّٰی ہی کی طرح یکتا ' بے مثل اوراپنی حیرت انگیز معنویت وکمال کی وجہ سے ایک منفرد اسم ہے۔اس اسم کی لفظی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کے حروف کو بتدریج علیحدہ کردیا جائے تو پھر بھی اس کے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اورہر صورت میں اسمِ اللہ ات ہی رہتا ہے ۔ اسم اللہ کے شروع سے پہلا حرف اہٹا دیں تو للہ رہ جاتا ہے اور اس کے معنی ہیں'' اللہ کے لئے'' اور یہ بھی اسمِ ذات ہے قرآن مجید میں ہے:

للہ ما فی السمٰوٰت وما فی الارض
ترجمہ: ''اﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے''۔
اور اگر اس اسم پاک کا پہلا '' ل ' ہٹا دیں تو '' للہ '' رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں''اس کے لئے'' اور یہ بھی اسمِ ذات ہے ۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے:۔
لہ الملک ولہ الحمد وھو علٰی کل شیئ قدیر
ترجمہ: ''اسی کے لیے بادشاہت اور حمد وستائش ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے''۔
اور اگر دوسرا '' ل '' بھی ہٹا دیں تو '' ھو '' رہ جاتا ہے اور یہ اسمِ ضمیر ہے اور اس کے معنی ہیں'' وہ'' اور یہ بھی اسمِ ذات ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے:
ھو اللہ الذی لا الٰہ الا ھوترجمہ: وہی اﷲ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر ھُو (ذاتِ حق تعالیٰ)۔ فقراء اور عارفین نے '' ھو ' کو اسمِ اعظم اور سلطان الاذکار بتایا ہے۔
مام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں '' ھو '' اسمِ اعظم ہے۔
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فتوحاتِ مکیہ جلد دوم میں فرماتے ہیں:
ھو عارفین کا آخری اور انتہائی ذکرہے۔''
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس کو عارفین کا آخری اور انتہائی ذکر قرار دیا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ذاکراں را انتہا ھو شد تمام
ترجمہ: ذکرِ ھو ذاکرین کا انتہائی ذکر ہے ۔
ذکر ‘‘ ھو ‘‘ کرتے کرتے جب ذاکر کے وجود پر اسمِ ھو غالب آکر اُسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے تو اس کے وجود میں' ھو ‘ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔(محک الفقر کلاں)
باھو با ھو فنا با ھو بقا شد
کہ اول آخر راز ھو بقا شد
ترجمہ: باھُوؒ ، ھو کے ساتھ فنا ہو کے بقا پاگیا کیوں کہ اوّل آخر ھو کا راز اُسے مل گیا۔
ہر کہ ذکر ھو باھو یافتہ
بشنود یاھو از کبوتر فاختہ
ترجمہ:جو شخص باھُوؒ سے ذکرِ ''یاھُو'' حاصل کر لیتا ہے اُسے ہر کبوتراورہر فاختہ کی زبان سے ذکرِ ''یاھُو'' سنائی دیتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے ظاہری وصال کے بعد یہ ذکر ان کے روحانی وارث اور امانتِ الٰہیہ کے حامل سروری قادری مشائخ عطا فرماتے ہیں۔

باھو در ھو گم شدہ گم نام را کہ یافتہ؟
ہم صحبتم با مصطفٰی در نور فی اللہ ساختہ
ترجمہ: باھُوؒ تو '' ھو ' میں گم ہو گیا ہے ایسے گمنام کو بھلا کیسے پایا جا سکتا ہے؟ اور یوں نورِ ذاتِ الٰہی میں خود کو گم کرکے میں مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم مجلس ہو گیا ہوں۔
باھو از میان ھو چشم فی بیند خدا
درمیان ھو ببین وحدت لقا
ترجمہ: باھُوؒ '' ھو ' کی آنکھ سے خدا کو دیکھتا ہے اے طالب تو بھی '' ھو ' کی آنکھ سے دیدارِوحدت کی بہار دیکھ۔
کسے بس ذکر گوید ھو ہویدا
وجودش می شود زاں نور پیدا
ترجمہ: جس شخص کے وجود میں ذکرِ ھو جاری ہو جاتا ہے اُس کا وجود نورِ ذات میں ڈھل جاتا ہے
اسم یاھو گشت باھو راہبر
پیشوائے شد محمد معتبر
ترجمہ: اسمِ اعظم ھو سے فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے اس لیے باھوؒ دِن رات ذکرِ ''یاھُو'' میں غرق رہتا ہے۔
باھو ھو برد یا آورد برد
ہر کہ بہ آں عین بیند کہ نمرد
ترجمہ: باھُو ؒ '' ھو ' میں فنا ہو کر زندہ جاوید ہو گیا اس میں کوئی تعجب نہیں کہ جو عین ذات کو دیکھ لیتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا۔(عین الفقر)
اسم اعظم انتہائے با ھو بود
ورد باھو روز و شب یاھو بود
ترجمہ: اسمِ یاھُو نے باھُوؒ کا راہبر اور پیشوا بن کر اُسے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری سے مشرف کر دیا ہے۔
ابتدا ھو انتہا ھو ہر کہ باھو می رسد
عارف عرفاں شود ہر کہ باھو ھو شود
ترجمہ: ابتدا بھی '' ھو '' ہے اور انتہا بھی '' ھو '' ہے جوکوئی '' ھو ' تک پہنچ جاتا ہے وہ عارف ہوجاتا ہے اور '' ھو ' میں فنا ہو کر '' ھو ' بن جاتا ہے۔
اسم ھو سیف است باھو ہر زباں
قتل کن ایں نفس کافر ہر زماں
ترجمہ:باھُوؒ کی زبان پر ہر وقت اسمِ ھو کا ورد جاری رہتا ہے جو ایک ننگی تلوار ہے۔ اس تلوار سے وہ ہر وقت نفسِ قاتل کو قتل کرتا رہتا ہے۔
اگر تُو '' ھو '' کے اسرار حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے کو دِل سے نکال دے۔ (قربِ دیدار)
جس کے وجود میں ذکر اسمِ '' ھو ' کی تاثیر جاری ہو جاتی ہے اُسے '' ھو '(ذاتِ حق)سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ غیر ماسویٰ اللہ سے وحشت کھاتا ہے۔ (عین الفقر)
جب کوئی دل کے ورق سے اسمِ '' ھو ' کا مطالعہ کر لیتا ہے تو پھر اُسے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی ایسی حالت میں وہ خَلق کی نظر میں بے شعور ہوتا ہے مگر خالق کے ہاں وہ صاحبِ حضور ہوتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
گزشتہ ادوار میں اسمِ اللہ ذات مندرجہ بالا چار منازل اللہ للہ لہ ھو میں طالبانِ مولیٰ کو عطا کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے سلطان الاذکار '' ھو '' جو حقیقتاً طالب کو بارگاہِ الٰہی میں لے جاکر ذاتِ حق تعالیٰ کی پہچان عطا کرتا ہے، تک پہنچنے کے لیے بہت وقت درکار ہوتا تھا، اور عموماً کمزور طالبانِ مولیٰ کی رسائی کبھی ' ھو ' تک ہو ہی نہ پاتی تھی۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور مرشد کامل اکمل خادم سلطان الفقر حضرت سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کے فیضِ بے بہا اور بے پناہ روحانی قوت کی وجہ سے طالبانِ مولیٰ کو بیعت کے فوراً بعد سلطان الاذکار '' ھو ' عطا کر دیا جاتا ہے اور تصور کے لیے سنہری اسمِ اللہ ذات عطا کیا جاتا ہے۔
 
Hamid Jamil
About the Author: Hamid Jamil Read More Articles by Hamid Jamil: 18 Articles with 61114 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.