ہمیں بھی یاد رکھنا…!

اس سینہ گیتی پر بسنے والے ہر انسان میں اللہ نے خوشی وغم کا مادہ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطہ میں بسنے والوں نے مختلف قسم کے تہواروں کو اپنایا اور ایک ساتھ جمع ہوکر خوشیاں بانٹنے کے طریقے کو رائج کیا۔ لیکن تغیر زمانی نے ان تہواروں پر بھی گہرا اثر ڈالا اور ان میں نمایاں طور پر فرق پیدا ہوگیا، چنانچہ مختلف علاقوں میں مختلف قسم کے تہوار وجود میں آئے ، کہیں ٹماٹر سے کھیلنے کو تہوار بنایا گیا تو کہیں غباروں میں ہوا بھرنا خوشی کا باعث بنا تو کہیں سمندر کنارے مختلف پیرائے میں جمع ہوکر نہانا باعث مسرت ہوئی۔ اسی طرح اسلام میں بھی ایام خوشی ہیں چنانچہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگ دودن خوشیاںمنایا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دو دن کیا ہے (یعنی ان دودنوں میں تم کیوں خوشیاںمناتے ہو ) انہوں نے کہا کہ ہم زمانہ جاہلیت سے ہی ان دو دنوں میں خوشیاں مناتے آئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دودنوں کواللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سے بہتر دنوں سے بدل دیا ہے اور وہ بہتر دن یوم الاضحی اور یوم الفطر ہے۔ اور ایک حدیث میں آپ صلی اللہ نے عید کے دن کے تعلق سے فرمایا ہے کہ ہر قوم کیلئے خوشی کا دن ہے اور یہ ہماری خوشی کا دن ہے۔

عید کا انعام اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کیلئے مقرر فرمایاہے جو خوف خدا رکھتے ہیں، اس کی خوشنودی ومعرفت حاصل کرنے کیلئے رات کو قیام کرتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’الصوم لیکہ روزہ میرے لئے ہے وانااجزیٰ بہ اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روزے صرف اور صرف اللہ رب العزت کوخوش کرنے کیلئے اور اپنے لئے روحانی خوشی حاصل کرنا ہے۔ رمضان المبارک کے گزرنے کے بعد ان روزہ داروں کو ان کی محنت کا صلہ ملتا ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت ان کے سروں پر سایہ فگن ہوتی ہے۔ اس دن روزہ رکھناحرام ہے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے جزا ہے ، اللہ اس دن کامیزبان ہے۔ہمارے یہاں عیدالفطر کے دن رشتہ داروں اوردوست واحباب کے درمیان ہدیہ وتحائف کا ایک بہت ہی سنہرا دور چلتا ہے اور ہرایک اپنے گھر والوں کے لیے نئے نئے کپڑے اور لذیذ پکوانوں کا انتظام کرتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس منڈلاتی تتلیوں کی مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ کا چکر لگاتے ہیں، ہر بچہ اپنے پسندیدہ کپڑے کے متعلق فخریہ انداز میںاٹھلاتا نظر آتا ہے، غرضیکہ ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق اپنے گھر والوں کی ضرورت کو پورا کرتا لیکن ان باتوں کے علاوہ کیا ہم نے کبھی اپنے علاقہ میں بسنے والے ان غریبوں کی خبر گیری کرنے کی ضرورت محسوس کی جن کے پاس نہ رہنے کو مکان ہے اور نہ ہی نئے کپڑے بنوانے کے لیے روپیہ ، جو نان شبینہ کے محتاج ہیں، وہ بیوائیں جو اپنے معصوم بچوں کو جھوٹی تسلی دے کر بہلا دیتی ہیں وہ یتیم جن کے سرپر دست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں، جو بزبان خاموش یہ کہہ رہے ہیں کہ ’عید پھرہم غریبوں کو رُلانے آئی‘ ۔ لہذا ان معصوم اور غریبوں کا بھی ہم پر حق ہے یہی وہے جہ ہے کہ نماز عید سے قبل ہی صدقہ فطر کی ادائیگی کا حکم دیاگیا ہے تاکہ ضرورت مند مسلمان اس کے ذریعہ اپنی ضرورت کو پوری کرسکیں۔ جس طرح ہم اپنے بچوں کے لیے انواع واقسام کے کھلونے اور دیگر اشیاء خریدتے ہیں اگر ان میں سے کچھ غریبوں کا بھی حصہ نکال دیں تو ان کی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی۔

عیدالفطر کا خوشی کا دن ہے اوراس دن تمام مسلمان عید گاہ میں جمع ہوکر خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنی خوشی کااظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے بغل گیر ہوتے ہیں، سوئیاں اورمختلف اقسام کے شیر خورمے تیار کیے جاتے ہیں ہرممکن طریقے سے خوشی بانٹی جاتی ہے اور بانٹنا بھی چاہئے لیکن اس طرف بھی سوچنا چاہئے کہ ہم میںایسے افرادبھی موجود ہیں جن کے لیے عید کا یہ مقدس ومتبرک دن بھی عام دنوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا جو اپنے معصوم بچوں کے لیے کوئی خوشی کا سامان فراہم نہیں کرسکتے ہیں جو ہر آن ہر لمحہ موت کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہم جب نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو کہیں اسرائیل کے ظلم وجبر سے ارض تین شہر فلسطین لہولہان ہے تو کہیں بشار الاسد کے خونی پنجے میں کیمیکل ہتھیار کے شکار ہورہے ہیں تو وہیںبرما میں بدھشٹوں کے ذریعہ مسلمانوں پر بربریت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ دنیا کے تمام جنگ زدہ علاقوں کے مسلمان تقریباً ایک ہی کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں ۔ فلسطین نصف صدی سے زائد سے اسرائیل کے زنداں میں قیدہے تو افغانستان 2001سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے نرغے میں پس رہا ہے عراق خانہ جنگی کا شکار ہوکر داعش کے جبر سے پریشان ہیں تو یمن میں حوثیوں کی بغاوت نے ماحول خراب کرہی دیا تھا اس پر ستم بالائے ستم سعودی اتحادی نے اور جبر ڈھا کر ماحول کو پراگندہ کردیا ہے اور لبنان ، بوسنیا، کشمیر، پاکستان سب کے سب یکساں طور پر عالمی سازش کے شکار ہیں۔ نہ مساجد بمبار کے دھماکوں سے محفوظ ہیں نہ مدارس نہ اسکول وکالج اور برما کے مسلمانوں کے پاس تو رہنے کے لیے پہلے سے ہی گھر نہیں تھا اب دنیا کے امن کے پیامبروں کی سرپرستی میں ان سے زمین تک چھین لی گئی ہے، اور چین میں روزہ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی … ہم تو امن وامان والے شہر میں رہ رہے ہیں، اور وہ کرفیو زدہ علاقے میں محصور ہیںاور ریلیف کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ مقدس ماہ رمضان گزرگیا لیکن ان برمی، شامی، عراقی، افغانی، بوسنیائی، چینی، کشمیری مسلمانوں کی آزمائشوں میں کمی نہیں آئی۔ذرا ہم تصور کریں کہ اس عید کے موقع پر ہماراکوئی عزیز جیل میں ہو یادشمنوں کی قیدمیں ہو تو یاہم خود ہی ایسی جگہ پر ہوں جہاں ہمیں بھی مشق ستم بنایا جائے تو کیا ہماری عید کی خوشی خوشی رہ جائے گی، نہیں ہرگز نہیں! لہذا امت مسلمہ کجسد واحد کی طرح ہے اگر بدن کی کسی اعضا میں تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم اس سے متاثر ہوتا ہے اسلئے ہمیں چاہئے کہ اس قول کے مصداق ہونے کی کوشش کریںاور ان کی تکالیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہوئے ان کی مددواعانت کریں، ان کیلئے دعائیں کریں تاکہ وہ بھی آئندہ عید اپنے اہل وعیال کے ساتھ مناسکیں اور حقیقی خوشی محسوس کرسکیں۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69199 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.