بس ایک خطاپہ کہ شیوہ ہے میراحق گوئی !

مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کی واحد متحدہ تنظیم ہے جہاں سارے مسلک ومشرب سے تعلق رکھنے والے ارباب حل وعقد سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور امت کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں، خاندانی اجارہ داری اور سیاسی چالو ںسے پاک اس ادارہ کا قیام 1973میں عمل میں آیا، روز اول سے ہی اس کی باگ ڈور ان عظیم ہستیوں نے سنبھالا جو کہ ہمہ گیراورہمہ جہت شخصیت کی حامل تھیں، بورڈ کا قیام ایسے وقت عمل میں آیا تھا جب ہندوستانی حکومت مسلمانوں کے دینی مسائل پر دھا وابولنے کے لیے تیار بیٹھی تھی او رہندوستان میںیکساں سول کوڈ نافذ کرکے مسلمانوں کو قرآن وحدیث کی تعلیم سے جبراً دور کرنے کا منصوبہ بناگیاتھا، ایسے نازک وقت میں ان متحدہ ملی تنظیم نے حکومت کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنایااورمسلمانان ہند کو شرعی امور میں ’’مسلم پرسنل لائ‘‘ سے رجوع کرنے کے قابل بنایا۔
تقریباً 40سال بعد آج ملک کے حالات تقریباً وہی ہیں یا پھر اس سے بدتر ہیں،نئی حکومت ہندتوکے ایجنڈے کے نفاذکے تئیں سرگرم عمل ہے۔ مسلمانوں پر زبردستی سوریہ نمسکاراوریوگاجیسی خالص ہندوتواکلچرکو اقوام متحدہ سے منظور کراکر مسلمانان ہند کے سر تھوپ دیاگیا ہے اسکولوں میں مسلم بچوں کو زبردستی وندے ماترم پڑھنے پر مجبور کیاجارہا ہے، اسکولوں میں مذہب کی بنیاد پر یونیفارم بنائے جارہے ہیں ، اشتعال انگیزی اور شرانگیزی کا لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے، ایسے وقت میں بورڈ کو ایک فعال ، نیک طینت ، مخلص اور حکومت ہند کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے فرد کی ضرورت تھی چنانچہ 7جون کومنعقد کی گئی میٹنگ میں ملک کی بے باک ،جرات منداوربے لوث شخصیت حضرت مولانا ولی رحمانی مدظلہ العالی کوباتفاق رائے کار گزار جنرل سکریٹری نامزد کیاگیا چونکہ مولانا ولی رحمانی کا مسئلہ ’’یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ کا تھا جب کبھی کوئی مسئلہ مولانا ولی رحمانی صاحب کے سپرد کیاگیا حضرت مولانا نے اسے حل کرکے اس کا حق ادا کیا تھا۔ مولانا ولی رحمانی کومتفقہ طور پر کارگزار جنرل سکریٹری بنایاگیا ہے لیکن نہ معلوم کیوں کہ ہمارے بعض شہسواران قلم اراکین بورڈ کے اس فیصلے سے نالاں ہیں، بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف اخبار بازی کے ذریعہ اپنے زور قلم سے صفحات کے صفحات رنگین کررہے ہیں، قوم کے ان دانشوروں کا سارا کا سارا نزلہ حضرت اقدس کی ذات پر ہی گر رہا ہے، کوئی مولانا کی تعلیمی سند مانگ رہا ہے حالانکہ ان نامعقولوں کو یہ پتہ ہوناچاہئے کہ مولانا ولی رحمانی نے برسوں جامعہ رحمانی مونگیر میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں ۔آپ کے مشہور شاگردوں میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ہیں آپ نے جامعہ رحمانی میں مشکوۃ شریف تک کی تعلیم حاصل کی پھر ایک سال ندوۃ العلماء میں حصول علم کے لیے مقیم رہے اس کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا آپ کا فراغت 1964ہے ۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا فخر الدین ؒ، حضرت مولانافخرالحسن وغیرہ ہیں، مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء ڈاکٹر سعید الرحمان اعظمی آپ استادوں میں سے ہیں، ان کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم العالیہ آپ سے چند کلاس پیچھے تھے۔ نیزروایت حدیث کی ایک سندآپ کی تووہی ہے جواکابردارالعلوم دیوبندکی ہے اوردوسری سندہندوستان کی اقرب ترین سندہے جوپانچ واسطوں سے شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی تک پہونچتی ہے۔

ایک اور خود ساختہ محقق نے لکھا ہے کہ ’’لکھنو اجلاس کے بعد جو خبریں چھن چھن کر آرہی ہیں ان سے یہ عندیہ جاتا ہے کہ سیاسی مہم جوئی کی نئی اسکیموں کو شاید اب تقدس کی قباء میں زیادہ دنوں تک چھپانا ناممکن ہوگا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک یہ حضرات محض سیاسی مہم جوئی میں مشغول رہے ہیں ،قوم کے یہ راہ نما دراصل سیاسی پارٹیوں کے دم چھلہ رہے ہیں لیکن اب یہ ممکن نہیں ہوگا اور لباس قدسی میں ملبوس ان فریب کاروں کی عیاریاں بہت جلد طشت از بام ہوجائیں گی اور قوم کی سرپرستی قوم کے حقیقی راہ نما کے سپرد کردی جائیں گی۔ فاضل موصوف نے اس قضیہ کو ناقص چھوڑ دیا اور یہ بتایا ہی نہیں کہ ولی رحمانی کی جگہ کارگزار جنرل سکریٹری کس کو بنایاجائے اور یہ بھی بتانا گوارہ نہیں کیا کہ تقدس کی قباء کے بجائے اب کس لباس میں ملبوس حضرات قوم کی سرپرستی کریں گے۔ ابھی فاضل مضمون کی خامہ فرسائی سے چھٹکارہ بھی نہیں ملا تھا کہ ایک اور محقق نے مولاناولی رحمانی صاحب کے مکتوب کا حوالہ دیا اور اس پر چند تبصرے بھی لکھے کہ ایسے وقت میں جب کہ مودی سرکار ہر طرف سے گھری ہوئی ہے اور بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے مولانا ولی رحمانی کا حکومت سے ٹکرانے کا فائدہ کیا ہے ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی چارمہاں دیویوں کے خلاف سارے ثبوت طشت از بام ہونے کے باوجود اعلان ہورہا ہے کہ این ڈی اے میں کوئی وزیر اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوگا ویاپم گھوٹالہ اب تک تقریباً47افراد کو نگل چکا ہے اور یہ تمام افرادمنصوبہ بند طریقے سے قتل کیے گئے ہیں، پھر بھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل رہا ہے ۔ ان تمام باتوں کے درمیان کوئی ہم سے ہمارے ایمان کا سودا کرے اور خاموش تماشائی بنے رہیں یہ ظر ف ہم میں نہیں ہے ۔ یوگا، سوریہ نمسکار وغیرہ بلاواسطہ خدا کی وحدانیت پر حملہ ہے ایسی صورت میں مولانا ولی رحمانی کا خاموش رہنا اور اپنی قوم کو سوریہ نمسکار کی اجاز ت دے کر مصلحت پسندی کا ثبوت پیش کرنا ان کے خمیر میں نہیں ہے ۔ بلکہ مولاناکی ذات وہ ہے جنہوں نے اپنے آباء واجداد سے حکومت سے ٹکرانے کافن سیکھا ہے اورآنکھوں میں آنکھ ڈال کر حکومت ہند کو مجبور کرنا ان کا وطیرہ رہا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ مسلمان اس ملک میں مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہیں لیکن یہ بھی ایک ناقابل یقین حقیقت ہے کہ قوم کی خدمت اور قوم کے ہر ہر مسئلہ پر شانہ بشانہ تقدس کی قبائوں میں ملبوس یہ مولوی حضرات ہی رہے ہیں اور انہوںنے ہی قوم کی بہر صورت رہنمائی کی ہے۔ خواہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام ہو یا پھر جمعیۃ علماء ہند اور ان جیسی دیگر دوسری بڑی تنظیمیں مولوی حضرات کی ہی مرہون منت رہی ہے کہ انہوں نے انگریز سے ملک کو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پا ک کیا۔

مولانا رحمانی نے رحمانی تھرٹی قائم کرکے قوم پر وہ احسان عظیم کیا ہے جسے تاریخ ہند کبھی فراموش نہیںکرسکتی ولی رحمانی صاحب محض شخص کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک اورایک انجمن کا نام ہے جس نے مذہب وملت سے پرے بہار اور ہندوستان کے باشندوں پر ہزارہا احسانات کیے ہیں۔ خاندانی پس منظر سے ہٹ کر خدا نے اس بندہ میں والد اور دادا والی انقلابی شخصیت کویکجاکردیاہے۔ دادا نے ندوۃ العلماء قائم کرکے مسلمانوں کے لیے دینی ماحول میں عصری اورمذہبی تعلیم کا بندوبست کیاتووالدمحترم نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام سے لے کر جنرل سکریٹری تک جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔اللہ نے اس بندے سے بھی وہی ساری خدمات لے رہا ہے ۔ رحمانی تھرٹی کا قیام ممبئی میں انجمن اسلام کے اشتراک وتعاون سے شروع ہوچکا ہے جس کا مثبت نتیجہ سب کے سامنے ہے اور اب کارگزار جنرل سکریٹری بن کر مسلم پرسنل لاء بورڈکے ذریعہ قوم کی رہنمائی اور حکومت ہند کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کررہا ہے ۔ مولاناو لی رحمانی کو خدا نے فراست ایمانی سے نوازا ہے یہی وجہ ہے کہ سیاست کے دلدل میں رہنے کے باوجود اللہ نے آپ کو محفوظ رکھا، خانقاہ میں بیٹھنے والا شخص اسٹیج پرآکر ظالم حکمراں کے خلاف سینہ سپر ہوجاتا ہے، اور اپنی قوم کو شرک سے بچانے کے لیے ملک گیر مہم چلاتا ہے لیکن افسوس ہماری مسلم قوم کے چند(خود ساختہ) دانشوروں ، قلم کاروں پر جنہیں مولوی کی بھلائی نہیں دیکھی جاتی ۔ مولوی سیاست میں آئے تو کہتے ہیں کہ مولوی صاحب مسجدو مصلیٰ سنبھالو سیاست تمہارے لیے نہیں ہے ، مولوی خانقاہ میں بیٹھ کر عبادت کرے توکہتے ہیں کہ مولوی صاحب کو قوم کی کوئی فکر نہیں ہے، قوم کے ان خود ساختہ دانشوروں اور محققوں سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی اپنی گمراہ کن اوربے بنیادتحریر سے قوم میں انتشار نہ پھیلائیں، ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے بورڈ کا استعمال نہ کریں اور تقدس کی قباء میں ملبوس ان رہ نمائوں کی عزت کو سربازار نیلام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کے اس طرح کرنے سے ان پر تو کوئی آنچ نہیں آئے گی لیکن آپ دھتکار دئیے جائو گے۔ کیوں کہ چاند پر تھوکنے سے تھوک خودپر گرتا ہے۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77639 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.