سردار قیوم اور تکمیلِ پاکستان کا ایجنڈا
(سیف و سُبو۔۔۔۔۔۔ شفقت نذیر, Stoke-on-trent)
(سردار قیوم سے رشتہ داری۔۔۔!)
جب انسان چلا جاتا ہے تو اس سے جڑی ہوئی بہت سی یادیں ساون کی بارش کی طرح
امڈ آتی ہیں ۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان یادوں کا براہ راست اس
انسان سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ بلواسطہ طور پر ان کا نام آجاتاہے۔ میرے نانا
حاجی محمد(الحاقِ پاکستان کی قرارداد پر ان کے د ستخط موجود ہیں) مسلم
کانفرنس پونچھ کے ایک نامور رہنما اور میرے بڑے تایا شیخ غلام حسین مسلم
کانفرنس پونچھ سٹی کے جنرل سیکرٹری تھے لیکن ان کے بعدمرحوم سردار عبدلقیوم
خان کی سیاسی جماعت سے ہمار ے پورے خاندان کا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ
کے ایچ خورشید کے ہی سیاسی نظریات آج تک ہمارے محور اور مرکز رہے مگر اس کے
باوجود سردار صاحب سے ذاتی تعلق اور احترام کا رشتہ بھی کبھی ختم نہیں ہوا۔
میرے والد شیخ نذیر حسین(قلمی نام شفقت پونچھی) تقریباً روزانہ رات کو کاکا
جی ہاوٗس جاتے جہاں محترم قدس طاہر بن عبدلعزیز(کاکاجی ) کی معیت میں
سنگیوں کی محفل جمتی اور شریکِ محفل روحانی سبزازاروں اور آبشاروں سے بھری
وادیِ تصوف کی سیر کرتے وہاں سردار صاحب بھی موجود ہوتے ۔ کاکاجی ہاوٗس کا
ماحول روحانیت سے پُر اور بہت ہی خواب ناک ہوتا تھا ۔ میں بچپن سے اس ماحول
کو دیکھتا آیا ہوں۔ کاکاجی کے فرزند توصیف صاحب میرے ہم عمر تھے۔ جبکہ رفعت
صاحب سب سے بڑے ، ان سے چھوٹے سمیع صاحب اور سب سے چھوٹے نجم صاحب ۔ اب
توصیف صاحب کے علاوہ کوئی بھی حیات نہیں ہے۔ سردار عبدلقیوم کے فرزند سردار
خلیق ، سردار عتیق اور سب سے چھوٹے سردار اسرا ر بھی کاکا جی ہاوٗس کے
دالانوں میں کھیل کر بڑے ہوئے ۔ سردار اسرا رتو بھری جوانی میں ہی داغِ
مفارقت دے گئے اور سردار خلیق صاحب بھی بعد میں فوت ہوگئے۔
میں، توصیف صاحب اور کبھی کبھی سردار اسرار اکھٹے راولپنڈی زراعت فارم سے
ملحقہ اے ون سٹلائٹ ٹاوٗن کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے کاکاجی ہاوٗس کے
دالانوں میں دھما چوکڑی مچاتے اکثر جب ہم کھیل رہے ہوتے تومخصوص لباس میں
ملبوس سردار صاحب کی بھی ہمیں جھلک نظر آجاتی ،سفید شلوار قمیض پٹو کا ہاف
کوٹ جس پر شولڈر لگے ہوئے اور سر پر جناح کیپ پہنے ہوئے وہ کاکا جی ہاوٗس
کی مسجد کے محراب کے نیچے بنے ہوئے چھوٹے سے (کھڈلا نما) کمرے سے نکل رہے
ہوتے ۔ہمیں تو بہت عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ وہاں عبادت کرنے یا پھر کتب کی
تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔
کاکا جی ہاوٗس میں ایک پرانی ویلی جیپ کھڑی ہوتی جو ہماری تختہِ مشق بنتی
اس کھیل کود اور شور شرابے سے وہاں ہمیں کوئی منع نہیں کرتا تھا البتہ جب
سردار صاحب مسجد کے ان مخصوص کمروں میں محوِ عبادت ہوتے تو وہاں ایک بزرگ
جنہیں سالار صاحب کہا جاتا تھا وہ ہمیں خاموشی سے کھیلنے کا اشارہ کرتے ۔
لیکن کاکاجی انہیں بھی منع فرما دیتے ، برف کی طرح سفید لباس اس پر سینٹ
مائکل(مارکس اینڈ سپینسر) کے سفید کالر (اس وقت الگ بنے ہوئے کالربرطانیہ
سے آتے تھے) لگے ہوئے، کیمل کلر کا مخصوص لمبا کوٹ اور سر پر گلگتی طرز کی
گرم ٹوپی پہنے ہوئے جب کا کا جی نظر آتے تو وہ ہمیں پاکیزگی، لطافت اور
روحانیت کا پیکر لگتے۔ ناجانے کیوں لیکن کبھی مجھے کاکاجی نے میرے نام سے
نہیں پکارا وہ مجھے کاکا کہتے تھے۔ان کے بعد اگر ہمیں وہاں کوئی شخصیت نظر
آتی تو وہ کاکا جی کے بھائی حاجی صاحب یا پھر سردار عبدلقیوم تھے ۔مجھے یاد
ہے کہ کاکا جی ہاوٗس میں تعاویزات سے زیادہ حکمت سے لوگوں کا علاج کیا
جاتا، ادویات بنانے کا بھی ایک الگ شعبہ تھا وہاں ،اور اکشر یہ بات ہمارے
مشاہدے میں آتی کہ کا کا جی کے علاوہ سردار صاحب بھی ادویات بنانے والوں کو
ہدایت دے رہے ہوتے۔
کاکاجی ہاوٗس کی ایک خاص بات یہ تھی کی وہاں کا بچہ بچہ ادب وآداب کا پابند
تھا ، اپنے سے بڑوں اور اپنے سے چھوٹوں کو بھی آپ اور جناب سے مخاطب کیا
جاتا تھا ، بد تہذیبی او ر بدتمیزی کا تو دور دور تک کوئی تصور نہیں تھا
وہاں ہر آنے والے مہمان کی شاہانہ خاطر تواضوع تو ایک معمول کی بات تھی
کاکاجی ان کے بچے اور خود سردار صاحب اور ان بچے بھی کاکاجی ہاوٗس میں آنے
والوں کی مہمان نوازی میں مصروف رہتے۔اس طرح کی روایات شائدہی کسی اور پیر
خانے میں آپ کو ملے۔ ہم بچوں کو کا کا جی کی طرف سے عیدیاں بھی ملا کرتی
تھیں ۔چونکہ سردار صاحب کے بچوں نے بھی اسی ماحول میں پرورش پائی ، اس لیئے
ادب و آدا ب ان کی گھٹی میں بھی موجود تھا۔ سردار خلیق اور بعد میں سردار
عتیق کی شادیاں بھی کاکا جی کے خاندان میں ہوئیں۔
میں جو واقعہ آپ کو یہاں سنانے جا رہا ہوں اس کا براہ راست تعلق سردارصاحب
سے نہیں ہے تاہم بلواسطہ تعلق ضرور کہا جاسکتا ہے۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے
جب آتش جواں تھا ۔ میں اسلام آباد کے ایک اخبار روزنامہ مرکز میں بحثیت
رپورٹر کام کرتا تھا ، اس روز میں جلدی گھر آگیا تھا ۔ ہم سٹلائٹ ٹاوٗن ایف
بلاک کے اس مکان میں رہائش پذیر تھے جس کی پہلی اینٹ خود کاکا جی نے لگا کر
اس کا سنگِ بنیاد رکھا تھا ۔ شام کا ملگجا اندھیرا چھایا ہوا تھا ، میں
اپنے کمرے میں تھا کہ میرا سب سے چھوٹا بھائی طلعت بھاگتا ہواآیا اور
گبھرائے ہوئے لہجے میں کہنے لگا کہ عصمت (میرا منجھلا بھائی) کو باہر گھرکے
سامنے پارک میں بہت سے لڑ کوں نے گھیر رکھا ہے اور اس کے مار رہے ہیں ۔ میں
تیزی سے اٹھا اور گیراج کے راستے باہر کی طرف بھاگا ، گیراج سے گزرتے ہوئے
میرے ہاتھ میں ایک بچوں کا بیٹ آگیا جسکو لہراتے ہوئے میں باہر آگیا مجھے
اس ملگجے اندھیرے میں سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔ میں نے آنکھیں بند کر کے وہ
چھوٹا سابیٹ گمانا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ بہت ہی اونچی آواز میں ان کا
للکارنے لگا ۔وہ لڑکے کافی بڑی تعداد میں موجود تھے اور کسی نے اپنے ہاتھ
میں لوہے کا سریا اور کسی نے ہاکی پکڑی ہوئی تھی ۔لیکن میری للکار، بیٹ
گمانے کی پھرتی اور اندھیرے کی وجہ سے وہ یہ سمجھے کہ ناجانے کتنے لوگ گھر
سے باہر آکر ان پر حملہ آور ہوگئے ہیں سو میں اور میرا چھوٹا سا بیٹ دو لوگ
اور وہ سروں کا سمندر اکیلا۔ وہ سب میرے آگے آگے اور میں ان کے پیچھے
پیچھے۔۔ بہت ہی عجیب نظارا تھا ہاتھوں میں ہاکیاں اور لوہے کے سریے اٹھا ئے
ہوئے وہ گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے اور میں۔۔۔۔!
یہ واقعہ سنانے کا مقصد اپنی بہادری کا ڈنکہ بجانا نہیں بلکہ اس قصے کے
پیچھے جو اصل کہانی ہے وہ بیان کرنا ہے۔ خیر ان لڑکوں کے منتشر ہونے کے بعد
جب میں واپس اپنے گھر کے سامنے آیا تو دیکھا کہ ابھی تک ایک شخص میرے والد
صاحب کے پاس کھڑا تکرار کر رہا ہے سو میں نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا
جو ان لڑکوں کے ساتھ کیا تھا اور اس نے بھی وہی کیا جو اُن لڑکوں نے کیا
تھا۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ تمام لڑکے ہمارے گھر کے قریب واقع
راولپنڈی کامرس کالج کے ہوسٹل کے تھے اورجس آخری شخص کو میرے بیٹ سے چھکا
لگا تھا وہ اس ہوسٹل کا وارڈن تھا۔میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ کسی بات پر تلخ
کلامی کے بعدان لوگوں نے اس ہوسٹل وارڈن کی معیت میں ہمارے گھر پر حملہ کیا
تھا۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اگلے دن کامرس کالج کے تمام طلبہ نے
ہمارے خلاف زبردست احتجاج کا پروگرام بنایا۔ کالج سے لیکر نیو ٹاوٗن تھانے
تک جو کہ تقریباً ڈیڑھ میل کا فاصلہ بنتا تھااس پر وال چاکنگ کی گئی اور
ہمارے خلاف نعرے لکھے گئے غنڈوں کو گرفتار کرو ، کامرس کالج کے ہوسٹل کے
طلبہ کو انصاف دو، اور سب سے دلچسب جو نعرہ لکھا گیا وہ یہ تھا کہ سردار
قیوم کے رشتہ داروں کوگرفتار کرو۔ بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ
ہمارے خلاف ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جو ہماری گرفتاری کا مطالبہ کر تے
ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ غنڈوں کو پولیس اس لیئے گرفتار نہیں کر رہی کہ وہ
سردار قیوم کے رشتہ دار ہیں۔ معاملہ اس قدر بڑھا کہ جلوس کے شرکاء نے نیو
ٹاوٗن پولیس اسٹیشن پر حملہ کردیا اور وہاں توڑ پھوڑ کرنے لگے پولیس کو
اپنے بچاوٗ کے لیئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا، دس کے
قریب لڑکوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔ ان تمام واقعات کے گواہ موجودہ وفاقی
سیکرٹری وزارتِ امورِ کشمیر شاہد اللہ بیگ بھی ہیں جو اس وقت راولپنڈی کے
اسسٹنٹ کمیشنر تھے اورانہیں معاملات کو سلجھانے کے لیئے نیو ٹاوٗن تھانے
آنا پڑا تھا۔ خیر شاہد اللہ بیگ صاحب نے دونوں پارٹیوں کا موقف سننے کے بعد
گرفتار شدگان کو چھوڑنے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی کامرس کالج کے اساتذہ
کی بھی سخت الفاظ میں سرزنش کی۔
تو اس طرح سے سردار عبدلقیوم خان سے نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری رشتہ داری بن
گئی جس کی گواہی ای اور ایف بلاک سٹلائٹ ٹاوٗن کی دیواروں نے بھی دی ۔ ویسے
بھی سردار صاحب مجھے بیٹا جی کہہ کر بُلاتے تھےیہ الگ بات ہے کہ اس واقعہ
کا تذکرہ نہ میں نے سردار صاحب سے کیا اور نہ آج تک سردار عتیق صاحب کو پتہ
ہے کہ دنیا ہمیں اُن کا رشتہ دار سمجھتی ہے۔
اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران متعدد بارسردار عبدلقیوم صاحب کے خیالات کو
انٹرویو میں سمو کر صفحہ قرطاس پر بکھیرا ،فضاحت و بلاغت ان کے گھر کی
باندی تھی۔ اور سیاست میں وہ طاق تھے۔ اکثر ان کے جوابات ذو معنی ہوتے تھے
جنہیں سمجھنے کے لیئے بھی ایک وسیع مطالعہ کی ضرورت ہوتی۔ ان کی زندگی پر
لکھنے کے لیئے ایک کالم نہیں پوری کتاب چاہیئے۔اپنی زندگی میں انہوں بہت
بڑے بڑے جلسے کیئے لیکن ان کے آخری جلسے کی مثال ملنا مشکل ہے۔
کشمیری اپنے اس دکھ کا اظہار کر رہے ہیں کہ تکمیلِ پاکستان کے داعی اور
الحاقِ پاکستان کے نعرے کے موجد کی نمازِ جنازہ میں قابلِ ذکر پاکستانی
قیادت نے شرکت نہیں کی ان کا کہنا ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبدللہ
فوت ہوئے تھے تو اندرا گاندھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان کی آخری رسومات میں
شرکت کے لیئے پہنچ گئیں تھیں۔ اس پر صرف یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے
ہاں کی سیاست بہت ہی بے رحم ہے جن پہ تکیہ ہوتا ہے وہی پتے ہوا دینے لگتے
ہیں گلہ کس پہ کیا جائے کہ آزاد کشمیر کی ریاستی جماعت کا شیرازہ بکھیرنے
والے بھی تو کوئی غیر نہ تھے ، سردار قیوم کہا کرتے تھے کہ مسلم کا نفرنس
آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کا ہی دوسرا نام ہے اور پہلے نام والوں نے ہی اپنے
دوسرے نام کو اپنے سے الگ کرنے میں ذرا تعمل نہ کیا ۔ سردار صاحب سے بھٹو
کی ناراضگی کی بھی یہی وجہ تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کے آزاد کشمیر میں قیام
کے مخالف تھے۔اور جس کا عتاب انہوں نے سہا۔
مجھے نہیں معلوم کہ ان کا نظریہ الحاقِ پاکستان کہاں تک درست تھا، انہوں نے
کون کون سی سیاسی غلطیاں کیں ، اور کیا واقعی وہ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ
کے آدمی تھے، چلیں میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ انہوں نے بھارتی ایجنٹ یش
پال سنگھ سے ملاقاتیں کیں تھیں۔لیکن میں یہ کبھی بھی نہیں مان سکتا کہ اُن
کی نیت میں کوئی کھوٹ تھا یا وہ کشمیر کے بارے صرف لفاظی کرتے تھے ۔ میں
اُن کی ذاتی زندگی کے چند گوشوں سے واقف ہوں اس لیئے برملا اس بات پر یقین
رکھتا ہوں کہ سردار صاحب اپنے نظریے کے حوالے سے تکمیلِ پاکستان کے اٰیجنڈے
پر مکمل نیک نیتی سے عمل پیرا تھے۔اگر کوئی قابلِ ذکر پاکستانی سیاست دان
اُن کے جنازے میں شریک نہیں ہوا تو کیا ہوا ،کسی بھی مسلمان کی آخری خواہش
کیا ہوتی ہے یہی نا کہ اس کی آخرت اچھی ہو، وہ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتا
ہے کہ جب اس کی موت آئے تو زمانہ گواہی دے کہ ایک مسلمان اپنے خالقِ حقیقی
سے جا ملا ہے۔ اور سردار عبدلقیوم صاحب کا سفرِ آخرت ان تمام گواہیوں سے
معمور ہے، رمضان کا آخری عشرہِ نجات، جمعہ کا دن اور جس شخص کے سات جنازے
پڑھے جائیں(ایک کاکاجی ہاوٗس میں، ایک شکرپڑیاں پریڈ گراوٗنڈ میں اور پانچ
دھیرکوٹ غازی آباد میں) کیا یہ گواہی کافی نہیں ہے۔یہ سب کچھ اللہ ہی کی
طرف سے ہوتا ہے اور وہی اپنے بندوں کا اقبال بلند کرتا ہے یہ کسی انسان کے
ہاتھ میں نہیں ہے۔ |
|