پاکستان کا وکیل……سردار عبدالقیوم خان
(Anwar Abbas Anwar, Faisalabad)
مجھے اس بحث میں نہیں الجھنا کہ
سردار عبدالقیوم خان آزادی کشمیر کے مجاہد اول ہیں یا نہیں اور نہ ہی مجھے
یہ ثابت کرنا ہے کہ کشمیر کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے سب سے
پہلی گولی کس نے چلائی تھی؟ لیکن ایک بات ضرور کہنی ہے کہ سردار عبدالقیوم
خان مرحوم کشمیری عوام میں پاکستان کی آواز تھے، وہ کشمیر کے پاکستان کے
ساتھ الحاق کے داعی و علمبردار تھے۔انہوں نے ہمیشہ رواداری ،عدم تشدد اور
مثبت سیاست کو فروغ دیا اور اپنے دامن کو کرپشن کی آلودگیوں سے پاک
رکھا،مرحوم برسوں آزاد کشمیر کے حکمران رہے ،اوران کے بعد بہت سے حکمران
آئے مگر ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا جا سکا…… مرحوم ایک وضع دار شخصیت
کے حامل سیاستدان اور ایک ہمدرد،مخلص انسان تھے ،ان کے سینے میں پاکستان کی
محبت سے لبریز دل دھڑکتا تھا آزاد جموں و کشمیر یا بھارت کے ساتھ الحاق کی
حامی قوتوں کے خلاف ننگی تلوار کا نام سردار عبدالقیوم خان تھا۔ان کی وفات
بلا شبہ پاکستان، آزادی کشمیر کی جدوجہد کے لیے ایک بہت بڑا قومی نقصان ہے
جو شائد صدیوں پر نہ کیا جا سکے۔
آج بارہ جولائی کو مرحوم کو دھیر کوٹ میں سپردخاک کیا گیا ان کے چاہنے اور
عقیدت مندوں کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مرحوم کی نمازے
جنازہ تین بار ادا کی گئی اور سری نگر میں بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا ہوئی
اور نماز جنازہ میں ہزاروں ان کے مداحوں نے شریک ہوئے۔بے شک مرحوم نے اپنے
سیاسی ورثے میں اپنا فرزند سردار عتیق احمد خان کو چھوڑا ہے لیکن ان میں
اتنا دم خم نہیں کہ وہ باپ کی موت سے پیدا ہونے والے خلا ء کو پر کر
سکیں۔سردار عبدالقیوم خان کشمیر کے حوالے سے ایک تاریخ کا درجہ رکھتے تھے
اور جدوجہد آزادی کشمیر کے تمام نشیب و فراز سے آگاہ تھے۔
سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے آزاد کشمیر کی سیاست میں پوری انگز جرآت ،بہادری
اور ایمانداری سے کھیلی اور جارحانہ سٹروک کھیلے ،اور مخالفین کے چھکے
چھڑائے ، مرحوم آزاد کشمیر کی سیاست کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں بھی
کردار ادا کرتے رہے ، قیام پاکستان سے انکی وفات تک معرض وجود میں آنے والے
تمام سیاسی اتحادوں کی تشکیل میں انکے کردار کسے سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔بھٹو
حکومت کے خلاف نوستاروں والے قومی اتحاد اور جنرل ضیا ء الحق کی آمریت کے
خاتمے کے لیے قائم ہونے والے اپوزیشن کے اتحاد ایم آر ڈی کی تشکیل میں انکے
کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا، لیکن جب ضیا کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت
کا آغاز ہوا تو سردار صاحب اس سے الگ ہو گئے-
سردار عبدالقیوم خان مرحوم جوڑ توڑ کی سیاست میں نوابزادہ نصراﷲ خاں مرحوم
اور پیر سید مردان علی شاہ المعروف پیر صاحب پگاڑا صاحب کے پلہ تھے ۔یہ بھی
ایک حقیقت ہے کہ مرحوم اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں انکی جماعت مسلم
کانفرنس پر گرفت قائم نہ رکھ سکے اور انکے تمام ساتھی بشمول سردار سکندر
حیات رفتہ رفتہ الگ ہوگئے۔شائد اسکی وجہ انکی جانب سے اپنے فرزند سردار
عتیق احمد خان کو اپنا جانشین بنانا اور مسلم کانفرنس کی قیادت انکے سپرد
کرنے کی خواۂش تھی۔مسلم لیگ نواز کی قیادت نے نہ جانے ان کی کس بات اور ادا
سے ناخوش ہوکر آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نواز کی بنیاد رکھی ، مسلم لیگ نواز
کے آزاد کشمیر مین قیام کا مرحوم کو بے حد رنج تھا اور وہ اپنے ملاقاتیوں
سے برملا اس کا اظہار بھی کیا کرتے تھے-
بلا شبہ سردار عبالقیوم خان مرحوم کو تاریخی نعرے ’’کشمیر بنے گا پاکستان
‘‘ کا خالق ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مرحوم آخری سانس تک مقبوضہ کشمیر کی
آزادی اور اسکے پاکستان سے الحاق کے حامی رہے باوجود اسکے کہ پاکستان کی
بیورو کریسی کی جانب سے انکے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا۔خیبر پختونخواہ
میں بھی ایک سردار عبدالقیوم خاں تھے جنہیں لوگ قیوم خاں کے نام سے پکارا
کرتے تھے انہوں نے بھی خیبر پختونخواہ کے پاکستان کے ساتھ الھاق میں اہم
کردار ادا کیا تھا،پاکستان کے عوام ان دونوں بزرگوں کی خدمات کو کبھی
فراموش نہ کر پائیں گے۔
سردار عبدالقیوم خان کی وفات سے آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام ایک مخلص
راہنما سے محروم ہوگئے ہیں،سردار عبدالقیوم خان کی موت ایک فرد کی موت نہیں
بلکہ ایک سوچ ، ایک فلسفے اور نظرئیے کی موت ہے،ان کی موت سے تحمل،برداشت ،رواداری
اور اخلاص کی سیاست یتیم ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کی موت سے جو نقصان اور خلاء
پیدا ہوا ہے وہ شائد صدیوں پورا نہ ہو سکے۔ انکے انتقال سے پاکستان کے عوام
ایک ہمدرد اور آزاد کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے داعی اور ایک بہت
بڑے ہمدرد سے محروم ہوگئے ہیں خدا مرھوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلی مقام
عطا فرمائے ،اور ان کے جانشینو ں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا
فرمائے - |
|