بلدیاتی اداروں کے انتخابات

 بلدیاتی انتخابات جمہوری نظام کی بنیاد ہوتے ہیں یہ ادارے دوسرے الفاظ میں جمہوریت کی نرسریاں ہیں اور مقامی سطح پر ترقی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔گلیاں،ان میں روشنی کا انتظام ،پارکوں کا قیام،پرائمری سکول اور ایسے دوسرے امور بلدیاتی اداروں کے نمائندے ہی نمٹاتے ہیں۔ اس طرح یہ ادارے حکومت اور جمہوریت کا ہم عضو ہیں۔نچلی سطح پر عوام کے یہ منتخب نمائندے لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل کرتے ہیں چونکہ سیکورٹی معاملات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ قومی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے یہ ادارے پوری تندہی اور توجہ کیساتھ اپنے اپنے حلقوں کے عوام کے مسائل حل میں لگے رہیہیں اور جہاں انہیں مشکل پیش آئے وہاں صوبائی حکومت سے مدد لیتے ہیں۔بڑے بڑے منصوبے یعنی سڑکیں بنوانا فلائی اوور تعمیر کرنا ،بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنا، صوبائی حکومتوں کاکام ہے۔ ان کے علاوہ تمام دوسرے تعمیری اور سماجی کام مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی سرانجام دیے جاتے ہیں۔

پنجاب میں بلدیاتی اداراروں کی کارکردگی کو مزید موثر بنانے کے لیے لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ متعارف کروایا گیا ہے۔اس ایکٹ کی رو سے صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے آبادی اور پسماندی کے لحاظ سے بجٹ فراہم کیا جائے گا۔اس قانون کے ذریعے فنڈز مقامی حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کو منتقل کیے گئے ہیں اور یہ اپنی ضرورتوں کے مطابق ان فنڈز کو استعمال کرنے میں مکمل طور پر بااختیار ہوگئے ہیں۔ اب یہ ادارے اپنے بجٹ اپنی ضرورتوں کے مطابق بغیر کسی کی مداخلت کے منظور کریں گے اور اپنی مرضی سے سال بھر اخراجات کریں گے۔اس طرح لوکل باڈیز کو اپنے پیداکردہ اور صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ وسائل خرچ کرنے میں مکمل مالی خود مختاری حاصل ہوگئی ہے۔ابھی بھی ان اداروں کی استعداد کار کو بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہیچونکہ موثر بلدیاتی حکومتوں کے ڈھانچوں کی ترقی میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کو بڑے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے قابل بنایا جائے تاکہ ترقی کی رفتار جو بہت سست ہے اسے تیز کیا جاسکے۔

پنجاب کے بلدیاتی ڈھانچے کی ایک خوش کن بات یہ ہے کہ یہاں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔یہ اتھارٹی بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوگی اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن کمیٹی کی صورت میں صوبائی حکومت بھی ان کی معاون ہوگی۔جو ضلع میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دے گی۔ اس طرح اس ایکٹ کے تحت دسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے تاکہ صحت کی سہولیات لوگوں کو ان کی دہلیز پر مہیا کی جائیں۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بہت کام ہوچکا ہے اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت لوگوں کی بھر پور خدمت کررہے ہیں۔جن علاقوں میں یہ بنیادی مراکز صحت نہیں ہیں وہاں ان کے قیام کی کاوشیں جاری ہیں۔اس طرح مصالحتی کمیٹیاں اورپنچایت کمیٹیاں بھی قائم کی جائیں گے اور چھوٹے موٹے تنازعات یہ کمیٹیاں نمٹائیں گی جس سیعدالتوں پر مقدمات کابوجھ کم ہوجائے گا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فروری 2015 میں بلدیاتی ایکشن کے شیڈول کا اعلان کیا تھا۔جس کے تحت 30 مئی کو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن مکمل ہوچکے ہیں۔ اس سیقبل بلو چستان میں بھی بلدیاتی الیکشن کروائے جاچکے ہیں اور وہاں مقامی حکومتی کی تشکیل کا کام بھی تقریبامکمل کرلیا گیا ہے۔خیبرپختونخوا میں بھی ضلعی و تحصیل حکومتوں کی تشکیل کا کام جاری ہے۔ سندھ میں بلدیاتی الیکشن مارچ 2016میں ہوں گے اور پنجاب میں اسی سال نومبر میں کرائے جانے کا امکان ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع کے مطابق اس نے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی تمام تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں نئی حلقہ بندیوں کے قواعد کامسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے جو کمیشن میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ یہ رولز آئندہ دوسرے صوبوں پر بھی لاگو ہوں گے۔وفاقی دارالحکومت اور الیکشن کمیشن کے سٹاف کو حلقہ بندیوں کے طریقہ کار کے بارے میں تربیت بھی دی جاچکی ہے۔

لوکل گورنمٹ ترمیمی آرڈنینس مجریہ 2012 میں بڑے شہروں میں میٹرزکا پرانا نظام بحال کیا جاچکا ہے اور ضلع کو نسلوں کی قیادت چیئر مین کریں گے جبکہ مشرف دور کے ناظم اور نائب ناظم کے عہدے ختم کردیے گئے ہیں۔اس آرڈنینس کے تحت 33 فیصد کوٹہ خواتین اور ملکی تاریخ میں پہلی بار پانچ فی صد نوجوانوں کے لیے رکھا گیا ہے۔ ڈویڑنل سطح پر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز بھی قائم کی جائیں گی جو خطرناک اور مخدوش حالت کی عمارتوں کے گرنے سے ہونے والیحادثات کی روک تھام کریں گی۔ان اتھارٹیز کے دفاتر ضلعی اور تحصیل سطح پر بھی قائم کیے جائیں گے۔جن شہروں کی آبادی پانچ ملین یا ا سے زیادہ ہے جیسے لاہور اسے میٹرو پولیٹن کی حیثیت دی جائے گی جبکہ ایک ملین یا زیادہ کی آبادی رکھنے والے شہری مراکز میٹرو پولیٹن کا نام دیا جائے گا اور جن شہروں کی آبادی دوسے پانچ لاکھ کے درمیان ہے وہ میونسپل کارپوریشن کہلائیں گی۔یونین کونسلوں کی سطح پر چیئر مین اوروائس چیئرمین چھ دوسرے ارکان کے ساتھ براہ راست منتخب کیے جائیں گے تاہم ضلع کونسل کی سطح پر چیئرمین اور وائس چیئرمین کے لیے بالواسطہ الیکشن کی تجویز دی گئی ہے۔اس طرح میئر اور ڈپٹی میئر اور ٹاؤن کمیٹیوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین براہ راست طریقہ کار کے ذریعے منتخب کیے جائیں گے۔یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ پنجاب میں 17 اکتوبر 2009 کے بعد سے بلدیاتی الیکشن نہیں ہوئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ حکومت کو رواں سال کے اندر یہ الیکشن کرانیکی ہدایت کر چکی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بلدیاتی ادارے دنیا بھر میں نئی قیادت کو ابھارنے میں نرسری کا کام کرتے ہیں۔جس سے جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔حکومت پنجاب ایسا بلدیاتی نظام لانے کا عزم رکھتی ہے جو دورہ جدید کی ضرورتوں کو پورا کرسکے اور جمہوری عمل کے فروغ میں مدد دے۔عوام کو توقع ہے نیا بلدیاتی نظام نوجوانوں کو اپنی ذہنی صلاحیتوں اور قابلیت کو بروئے کار لانے کا بھر پور موقع فراہم کرے گا۔شفافیت، میرٹ اور اچھی حکمرانی اور احتساب کا موثر نظام جو کسی بھی نظام کی کامیابی کا ضامن ہے حکومت پنجاب اس پربالخصوص توجہ دے رہی ہے۔

پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے جہاں مقامی حکومتوں کا نظام آئین میں18 ترمیم کی منظوری کے بعد تعطل کا شکار ہے۔اس ترمیم کی رو سیلوکل گورنمنٹ کی ذمہ داری مرکز سے صوبائی حکومتوں کو منتقل ہوگئی ہے۔بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں تاخیر کے سبب صلح کا انتظام ضلعی ایڈمنسٹریٹر کے تحت چلایا جاتا رہا ہے۔پاکستان کے سیاسی افق پر ماضی کے اتار چڑھاو نے یقینا جمہوری اداروں پر گہرا اثرات چھوڑے ہیں اور وہ اس طرح پنپ سکے جس طرح انہیں فروغ ملنا چاہیے تھا۔ جمہوریت کا تسلسل یقینا ہر سطح پر ایک مثبت تبدیلی مرتب کرے گا۔ بلدیاتی نظام اس سلسلے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔مقا می سطح عوامی شعور بڑھنے سے قومی شعور بنتا ہے۔ یقینا ہمارے عوام گزشتہ مقامی حکومتوں کی کارکردگی دیکھتے ہوئے کافی باشعور ہوچکے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان اور کے پی کے بلدیاتی الیکشن میں ایسے رہنما و ں کو مستر د کردیا جنہوں نے اپنے حلقوں میں کوئی کام نہیں کیا محض زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔جس طرح کنٹونمنٹ انتخابات میں کارکردگی کی بنیاد پر ن لیگ نے اکثریت حاصل کی۔اسی طرح پنجاب میں انتخابی میدان مارنے کے لیے بھی وہ پر امید ہے۔ اس سلسلے میں حمزہ شہبازشریف کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو صوبے بھر میں انتخابی مہم، امیدواروں کے چناو کیلئے مشاورت کرے گی اور حتمی فیصلہ کرے گی۔ بہرحال ملک میں نئی بلدیاتی قیادت ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں بھی انہی رہنماوں کو ووٹ ملیں گے جو عوامی مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ ان سیاسی رہنماوں کو جنہوں نے کرپشن اور بد عوانی کے ریکارڈ قائم کیے اور پھر ان پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہ کی۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.