نریندر مودی کی پاکستانی وزیر
اعظم سے ملاقات اور ان کا پاکستان جانے کا فیصلہ عام نہیں ہے. آخر ایک
پڑوسی سے آپ کب تک منہ پھیرے رہ سکتے ہیں؟ بار بار چھلے جانے کے باوجود
بھارت کے پاس اختیارات محدود ہیں، لہذا وزیراعظم نریندر مودی کی اس ہمت
افزا پہل کی تنقیدبے مطلب ہے. سابق وزیر اعظم اٹل جی خود کہا کرتے تھے "ہم
اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے." یعنی ڈائیلاگ ہی ایک راستہ ہے، کیونکہ راستہ
بات چیت سے ہی نکلے گا. پاکستان اور بھارت کے درمیان کفر کے طویل گھنے
اگھےرو کے باوجود اگر امن ایک بہت دور لگتی ہوئی امکان بھی ہے، تو بھی ہمیں
اسی طرف چلنا ہے. سرحد پر اپنے احترام کے لئے ڈٹے رہنا، حملوں کا پرزور
جواب دینا لیکن بات چیت بند نہ کرنا، بھارت کے پاس یہی ممکن اور قابل
احترام اختیارات ہیں.
پاکستان کی سیاست کا مزاج مختلف ہے. فوج کی اہم کردار نے وہاں کی سیاست کو
یرغمال بنا رکھا ہے. عوام کا مزاج بھی بٹا ہوا ہے. لیکن ایک بڑی تعداد ایسی
بھی ہے جو ہندوستان سے پرامن تعلقات چاہتی ہے. 'گرم باتوں' کا مارکیٹ زیادہ
جلدی بنتا ہے اور وہ فروخت بھی ہے. میڈیا، سیاست اور معاشرے میں ایسی ہی
آوازیں زیادہ نظر آتی اور سنی جاتی ہیں. امن، امن اور بہتر مستقبل کی طرف
دیکھنے والی آوازیں اکثر سنی کر دی جاتی ہیں. لیکن پاکستان کو بھی پتہ ہے
کہ دہشت گردی کو پالنے-پوسنے کا انجام کس طرح اپنے ہی معصوم بچوں کے جنازے
میں بدل جاتا ہے. اپنے معصوموں کا جناجا ڈھوتا پاکستان جانتا ہے کہ امن ہی
ایک راستہ ہے، لیکن اس کی سیاست اور گرم مزاج دھرمادھتا نے اس کے پاو ¿ں
باندھ رکھے ہیں. ہندوستان کے تئیں دھرا اور 'بھارت خوف' وہاں کی سیاست کا
مستقل احساس ہے. اس وہاں ایک بڑی مارکیٹ ہے. ایسے میں بھارت جیسا ملک جو
مسلسل اپنے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کا طلب گا ر ہے، پاکستان کو اس کے حالات
پر نہیں چھوڑ سکتا. رشتوں میں برف جمتی رہی ہے تو قیادت کی تبدیلی کے ساتھ
پگھلنے بھی رہی ہے. اپنے ایٹم بم پر پاکستان کو بہت ناز ہے. کچھ بیکار
آوازیں اپنا غم غلط کو اسے بھارت کے خلاف چلانے کی باتیں بھی کرتی ہیں.
لیکن ہمیں پتہ ہے کہ جوہری جنگ کے انجام کیا ہیں. کوئی بھی ملک خود کو نقشے
سے مٹانے کی سوچ نہیں سکتا. کشمیر میں ہمارے کچھ الجھن نوجوانوں کو استعمال
ایک چھدی جنگ لڑنا اور آمنے سامنے کی لڑائی میں بہت فرق ہے. پاکستان نے اسے
بھوگا ہے، سیکھا بھلے کچھ نہ ہو.
آج کی بدلتی دنیا میں جب دہشت گردی کے خلاف ایک منظم اور تادیرجنگ کی ضرورت
ہے تو پاکستان آج بھی اچھے اور برے طالبان کے فرق کو سمجھنے میں لگا ہے.
نریندر مودی کے دہلی کی اقتدار میں آمد سے پاکستان کے شدت پسندوں کو بھی
اپنی سیاست کو چمکانے کا موقع ملا. زبانی تیر چلے. لیکن نریندر مودی نے بات
چیت کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کر یہ بتا دیا ہے کہ وہ اڑیل نہیں ہے اور صحیح
فیصلوں کو کرتے ہوئے بات چیت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں. آپ دیکھیں تو موجودہ
کے دونوں حکمرانوں مودی اور شریف کے درمیان بات چیت سے پہلے دن سے قائم ہے.
دونوں نے آداب برقرار رکھتے ہوئے باہمی ڈائیلاگ برقرار رکھا. مودی کی حلف
میں آکر شریف نے ہمت کا ہی تعارف دیا تھا. اپنی تنقید کی پرواہ نہ کرتے
ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے دہلی آنے کا فیصلہ کیا تھا. اپنے ممالک کی
سیاسی سفارتی پرسگو پر ہونے والی بیان بازی کو چھوڑ دیں تو دونوں لیڈروں نے
ضبط برقرار رکھا ہے. مودی کے اقتدار میں آنے سے پاک بھارت تعلقات بگڑےگے،
اس امکان کی بھی ہوا نکل گئی ہے. مودی نے صاف کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں
اٹل جی کو لائن کو آگے بڑھائیں گے. آخر کشمیر میں جو ہوا وہ مودی کے جرات
ہی پیدا فیصلہ تھا. پی ڈ ی پی- بی جے پی حکومت کو ممکن بنانے کا معجزہ آخر
کار مودی کا ہی اصل خیال ہے. اب جبکہ وہ عید ماننے کشمیر جا رہے ہیں تو یہ
سمجھا جا سکتا ہے کہ کشمیر کی مودی کے لئے کیا اہمیت ہے. ایک ہندوستانی
حکمران ہونے کے ناطے پاکستان کی 'کشمیر فرانس' کو بھی وہ سمجھتے ہیں.
باوجود اس کے اتنا تو ماننا ہی پڑے گا کی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے
بغیر، ہندوستان ایک سپر پاور نہیں بن سکتا. فوجی وسائل پر ہو رہے اخراجات
کے علاوہ تشدد، دہشت گردی اور بدامنی کی وجہ سے دونوں ملک بہت نقصان اٹھا
رہے ہیں. ایسا نہیں ہے کہ حکمرانوں کو اس حقیقت کا پتہ نہیں ہے لیکن کچھ
ایسے معاملے ہیں جس بات نکلتی تو ہے پر دور تلک نہیں جاتی. بھارت کے سابق
وزرائے اعظم نے اپنے سطح پر کافی کوشش کی لیکن کہتے ہیں کہ تاریخ کی غلطیوں
کا صدیاں ادائیگی کرتی ہیں. بھارت اور پاکستان ایک ایسے ہی بھنور جال میں
پھنسے ہیں.
نریندر مودی نے عالمی سیاست میں بھارت کی موجودگی کو قائم کرتے ہوئے اپنے
پڑوسیوں سے بھی رشتے بہتر بنانے کی پہل کی ہے. وہ جہاں دنیا جہان کو ناپ
رہے ہیں وہیں وہ نیپال، بھوٹان، ورما، بنگلہ دیش، افغانستان کو بھی اتنا ہی
تعاون، وقت اور اہمیت دے رہے ہیں. وہ صرف سپر پاور کو تلاش کرنے میں میں
نہیں لگے ہیں بلکہ ہر علاقائی طاقت کا ساتھ لے رہے ہیں. روس سے الگ ہوئے
ممالک کا سفر اس کی مثال ہے. مودی کی پاکستان سفر اس معنی میں خاص ہے. اس
سے یہ مذاق بھی ختم ہو جائے گا کہ آخر مودی اور شریف پاکستان کے باہر ہی
کیوں ملتے ہیں. ماہر سیاست مسٹر وےدپرتاپ ویدک بھی مانتے ہیں کہ "پاکستان
کا بھدرلوی شخص کے طور پر چاہے مودی کو پسند نہ کرتا ہو لیکن وہ بھارت کے
وزیر اعظم کے طور پر مودی کا استقبال کرنے کے لئے آتر ہے. گزشتہ سال میری
پاکستان سفر کے دوران یہ بات مجھے تمام اہم حکمراں اور مخالف رہنماؤں نے
کہی تھی. مودی نے اپنی پاکستان سفر کی بساط اچھی طرح سے بچھا لی ہے. شاید
یہ سفر تاریخی ثابت ہو. "
یہ امید لگانے میں حرج نہیں ہے کہ نریندر مودی کشمیر بحران کو حل کرنے کو
پہلی ترجیح دیگیں. ان کے ذہن میں دفعہ -370 کی ٹیس ہے لیکن وہ اس حوالے سے
جلد بازی میں نہیں ہیں. ملک کو لے کر مودی میں دماغ میں کئی خواب ہیں جن
پرامن کشمیر بھی ان کا ایک بڑا خواب ہے. کشمیر میں ہوئے پی ڈی پی-بی جے پی
کے معاہدے کو کسی بھی نظر سے دیکھیں، لیکن بی جے پی اس سیاسی دھارے کو
سمجھنے والا ہر شخص سمجھتا ہے کہ کشمیر کا بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لئے
کیا اہمیت ہے. بی جے پی چاہ کر بھی اپنے پورواپر سے پلہ نہیں جھاڑ سکتی.
نریندر مودی اگر پاکستان کی سیاسی سوچ میں کچھ تبدیلی لا کر ہندوستان کے
تئیں تھوڑا بھی سدبھبھاو بھر پاتے ہیں تو یہ ایک تاریخی واقعہ ہوگی. یہ کام
کسی بھاجپائی وزیر اعظم کے لئے اتنا ہی آسان ہے جبکہ کسی دوسرے کے لئے بہت
مشکل. دیکھنا ہے کہ تاریخ کی اس گھڑی میں نریندر مودی اپنے خوابوں کو کیسے
سچ کر پاتے ہیں۔ |