گلگت بلتستان ’’خطہ کشمیر
‘‘کا نہیں ، ’’ریاست جموں و کشمیر‘‘ کا حصہ اور فریق ہے
گلگت بلتستان کی نومنتخب حکومت نے 100دن کی ترجیحات کو حتمی شکل دے دی
گلگت بلتستان کے نو منتخب وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے اپنے حکومت کی
100دن کی ترجیحات کو حتمی شکل دی ہے اور عوام کی توقعات کے مطابق ان
ترجیحات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی،سیاحت کے فروغ کے لئے آگاہی مہم ،کرپشن
کے خلاف ایکشن ،400کلومیٹر کے قریب سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور دیگر امور کو
شامل کیا گیاہے۔ اگرچہ صوبائی وزیر رانا فرمان علی کا دعویٰ ہے کہ رواں برس
اکتوبر تک خطے میں بلدیاتی انتخابات بھی کرائے جائیں گے تاہم ترجیحات میں
شامل نہ کرنے سے شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں اس لئے صوبائی حکومت کو واضح
طور پر نہ صرف اعلان بلکہ انتخابی عملی تیاری کرنی ہوگی۔
مسلم لیگ (ن) نے انتخابات سے قبل خطے کی آئینی حیثیت کے حوالے سے وعدہ
کیاہے کہ وہ ماضی سے بڑھ کر لوگوں کو حقوق دینگے یہی وجہ ہے کہ مشیر خارجہ
سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے کافی کام بھی کیا ہے ۔ ذرائع کا
دعویٰ ہے کہ امکان تھا کہ وزیر اعظم نوازشریف کے عید الفطر کے بعد متوقع
دورہ گلگت بلتستان میں آئینی انتظامی اور اقتصادی پیکجز کا اعلان کریں گے ،
لیکن آزاد کشمیر کی قیادت اور حکومت کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد اس بات کا
امکان ہے کہ معاملات تاخیر کا شکار ہوں گے۔ انہی صفحات پر ہم نے ایک ہفتہ
قبل قارئین کو آگاہ کیا تھاکہ’’ حکومت گلگت بلتستان کوپاکستا ن کا آئینی
عبوری صوبہ بنانے کیلئے تیاری کر رہی ہے‘‘ اس کے بعد آزاد کشمیر کے وزیر
اعظم چوہدری عبدالمجید،صدر سردار یعقوب خان اور دیگر سیاسی قائدین کی جانب
سے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس عمل کو کشمیر کاز کیلئے
زہر قاتل قرار دیا گیا۔ کشمیری قیادت نے حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی
کیاہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی انتظامی تبدیلی کی جائے اور نہ ہی
عبوری آئینی صوبے کا درجہ دیا جائے۔کشمیری قیادت کے اس ردعمل کے بعد گلگت
بلتستان سے بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے ۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر
حاجی فدا محمد ناشاد، وزیر اطلاعات ابراھیم ثنائی ،صوبائی وزیر حاجی
جانبازخان اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سخت ردعمل کا
اظہار کرتے ہوئے ’’کشمیر ‘‘سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیاہے۔
دراصل جانبین حقائق اور تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے اپنے منفی اور سخت
ردعمل کے ذریعے دونوں خطوں کے مابین نہ صرف دوریاں پیدا بلکہ عوامی مشکلات
میں اضافہ بھی کررہے ہیں۔ کشمیری قیادت کو کسی طرح کے سخت ردعمل کے اظہار
سے قبل ان سوالات کا جواب دینا ہوگا کہ’’ کشمیری قیادت نے 1947ء سے آج تک
گلگت بلتستان کو نظر انداز کیوں رکھا؟، اپنے لئے آزاد ریاست بھی قائم کی
اورعبوری آئین بھی حاصل کیا لیکن گلگت بلتستان کومکمل نظر اندازکیوں کیاگیا؟،
28اپریل 1949کے معاہدہ کراچی کے بعد کیا کشمیر قیادت نے کبھی گلگت بلتستان
کے عوام کے خیالات نظریات جاننے کی کوشش کی؟، دونوں جانب کی سرگرم حکومتی و
عوامی حمایت یافتہ کشمیری قیادت 68سال سے گلگت بلتستان سے نظریں کیوں چراتی
رہی ہے ؟ ، پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257میں ریاست کشمیر کا ذکر توکیاگیا
لیکن آزاد کشمیر سے پانچ گناہ زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے گلگت بلتستان کو
مکمل نظر انداز کیا گیا اس پر کشمیری قیادت نے خاموشی کیوں اختیار کی ؟،
قیام پاکستان کے بعد تاریخ کا جائزہ لیں تو گلگت بلتستان کو عملًا کشمیری
قیادت نے مکمل طور پر نظر انداز رکھا ایسا کیوں کیاگیا ؟،اورکشمیری قیادت
کو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ گلگت بلتستان تاریخی اور جغرافیائی طور پر
’’خطہ کشمیر ‘‘کا حصہ نہیں ہے،اس لئے کشمیری قیادت کسی سخت ردعمل اور لوگوں
کے جذبات کو مجروح کرنے والے بیانات واقدامات کے بجائے خطے کے عوام کے
خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا حل پیش کرنے کی کوشش کرے جس میں تنازعہ
کشمیر ،عوامی جذبات اور پاکستانی کاز کو نقصان پہنچائے بغیر عوامی خواہشات
کی تکمیل ہوسکے۔
دوسری جانب گلگت بلتستان کی حکومت ،قیادت اور عوام کو بھی یہ بات اپنے ذہین
میں بیٹھانی ہوگئی کہ اگرچہ گلگت بلتستان جغرافیائی اور تاریخی طور پر’’
خطہ کشمیر ‘‘کا حصہ نہیں ہے ،لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گلگت بلتستان
’’تنازع کشمیر اور اکتوبر 1947ء تک قائم ریاست جموں وکشمیر کا صوبہ تھا ،ہے
اور تنازع کشمیر کے حل تک یہ صوبہ رہے گا ۔گلگت بلتستان اقوام متحدہ سمیت
پورے عالم میں’’ متنازع ریاست جموں کشمیر ‘‘کا اہم فریق ہے اور گلگت
بلتستان کے عوام اگر اس تنازعہ سے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں تو پھر ان کی
حیثیت کیا ہوگی اس پر بھی انہیں غور کرنا چاہیے، صرف لاتعلقی کے اظہار سے
تاریخی حقائق مسخ نہیں ہوں گے، اگر کشمیر سے تعلق نہیں اور پاکستان کا
آئینی حصہ ہے تو پھر 1947ء سے آج تک پاکستان کے تین آئین میں اس خطے کا
کہیں ذکر کیوں نہیں ہوا؟،گلگت بلتستان کے عوام کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ
اکتوبر 1947ء تک جو ’’ریاست جموں وکشمیر ‘‘ڈوگرا راج میں قائم تھی گلگت
بلتستان اس کا ایک اہم حصہ تھا اور وہ ریاست اس وقت بنیادی طور پر چار حصوں
میں تقسیم ہے۔ آبادی اور رقبے کے تناسب سے بڑا حصہ بھارت کے زیر انتظام
(مقبوضہ کشمیر)ہے۔آبادی کے حساب سے دوسرا بڑا حصہ (آزاد کشمیر )پاکستان کے
زیر انتظام ہے ۔رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا حصہ( گلگت بلتستان) بھی پاکستان
کے زیر انتظام ہے اور چوتھا حصہ( اسکائی چن) چین کے پاس ہے جو رقبے کے حساب
سے ریاست جموں وکشمیر کا تیسرا بڑا حصہ ہے،تاہم آبادی نہیں ہے۔ گلگت
بلتستان، کشمیر اور پاکستانی قیادت کو چاہیے کہ کشمیر کی اس حیثیت اور
تنازع کو مدنظر رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر کوئی ایسا حل تلاش کریں جو ایک طرف
عوامی خواہشات کی تکمیل، ان کے مسائل کا حل اور مشکلات کے تدارک کا سبب بنے
وہی پر کشمیر کاز اور کشمیریوں کی جدوجہد کو نقصان بھی نہ پہنچے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے آئین میں گلگت بلتستان کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے
خطے میں ترقیات اور بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے مختلف مسائل کے حل میں
پاکستان کو عالمی سطحی پر شدید مشکلات کا سامناہے، باالخصوص پاک چین
اقتصادی راہداری ، دیامر بھاشا ڈیم اور عالمی سرمایہ کاری وغیر ہ، شاید اسی
ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو تقریبا 68سال بعد یہ خیال آیاکہ
گلگت بلتستان کو بھی کوئی ایسا نظام دیا جائے جو کشمیر کاز کو متاثر کیے
بغیر عوامی امنگوں کے مطابق ہو۔ اگر تینوں حکومتوں نے اس تنازع کا مناسب حل
نہ نکالا اورجلد بازی میں عبوری صوبہ یا کوئی ایسا حل پیش کرنے کی کوشش کی
تو عالمی سطحی پر تنازع کشمیر، کشمیریوں کے مؤقف اور پاکستان کے کشمیر کاز
کو نقصان کو ہوسکتا ہے اور ایسا عمل پاکستان اور خطے کے مسلمانوں کے ساتھ
غداری کے مترادف ہوگا۔ بعید نہیں کہ بھارت اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے
اپنے آئین کے آرٹیکل 370میں ترمیم کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم
کرکے کشمیر کو اپنا باقائدہ صوبہ قرار دے ۔بھارت اٹوٹ انگ کے دعوے توکرتاہے
مگر اس کے اپنے آئین کا آرٹیکل 370کہتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں
ہے متنازعہ ریاست ۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کیلئے بھارتی انتہاپسندی تنظیمیں اور
جماعتیں کوشاں ہیں ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اس آرٹیکل کے خاتمے کیلئے
کشمیر اسمبلی سے سادہ اکثریت میں منظوری ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز
جماعتیں اور قیادت انتہا درجے کی بھارت نوازی کے باوجود آرٹیکل 370میں کسی
قسم کی ترمیم یا خاتمے میں معاون بننے کووطن ( کشمیر )سے غداری سمجھتی ہے
،اسی لیے حکومت پاکستان ، حکومت آزاد کشمیر،حکومت گلگت بلتستان اور تینوں
فریقین کی سیاسی و مذہبی قیادت جلد بازی اور موقع پرستی کے فیصلوں کے بجائے
سوچ بچار کے بعد مل بیٹھ کر کوئی ایسا حل تلاش کریں جو موجودہ حالات میں سب
کوقابل قبول ہواور کشمیر کاز کو بھی نقصان نہ پہنچے۔مزید یہ کہ کشمیری
قیادت اپنی ماضی کی خامیوں کونہ صرف تسلیم کریں بلکہ گلگت بلتستان کے عوام
سے معذرت اور آئندہ سخت رد عمل سے گریز کرے۔ |