اس میں شک نہیں کہ پاکستان
کی تقدیر اور روشن مستقبل کا انحصار اب آپ کے درست اور جرات مندانہ فیصلوں
پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو اس کالم کے ذریعے چند اہم اورمفید مشورے
دینا چاہتا ہوں تاکہ آپ عوام میں پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہوجائیں ۔لاہور
میں میٹرو بس سسٹم تعمیر کیا گیا جو آپ کی مقبولیت کی ایک مثال بن چکا ہے
لیکن لاہور میں ہی ہر جگہ ٹریفک جام دکھائی دیتی ہے۔ اگر ٹریفک کو رواں
رکھنے کے لیے پہلے آپ دو منزلہ سڑکیں تعمیر کرلیتے پھر میٹرو سسٹم تعمیر
کرتے تو زیادہ بہتر ہوتاہے۔
دانش سکولوں کا قیام اچھا فیصلہ ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلے سے موجود
سرکاری سکولوں اور کالجز میں بنیادی اور جدید سہولتیں فراہم کرکے دانش سکول
بناتے۔ اس وقت پنجاب کے تقریبا تمام سرکاری سکول آپ کی توجہ کے محتاج
ہیں۔پہلے وہاں جدید سہولتیں فراہم کردی جاتی تو کسی کودانش سکولوں کے خلاف
بات کرنے کی جرات نہ ہوتی ۔اب لاہور میں چینی بنک سے قرض لے کر اورنج ٹرین
چلائی جارہی ہے جو بہت اچھی بات ہے ۔ اگر اس سے پہلے پاکستان ریلوے کے
بنیادی ڈھانچے ( ریلوے ٹریک ٗ پل ٗ ریلوے اسٹیشن ٗ انجن ٗ کوچز وغیرہ ) کو
تبدیل کرنے پر یہ تین سو ارب خرچ کردیئے جاتے تو سارے پاکستان کے لوگوں کو
ایک اچھا میعاری ذریعہ سفر جدید ریلوے کی شکل میں میسر آجاتا ۔اس وقت عالم
یہ ہے کہ ریلوے کا کوئی اسٹیشن ٗ ٹریک ٗ انجن ٗ ریل کا ڈبہ ٗ ورکشاپ ٗ
ریلوے کیبن اورکنٹرولر آفس سمیت کوئی بھی میعارکے مطابق نہیں ہے۔ گزشتہ
دنوں ریلوے پل کے بیٹھ جانے سے کتنے فوجی افسر اور جوان شہید ہوئے جن کی
شہادت کا دکھ آج بھی ہر پاکستانی کے دامن گیر ہے ۔دل خون کے آنسو روتا ہے
کہ جنہوں نے وطن عزیز کادفاع کرنا تھا وہ اپنی نااہلی کے ہاتھوں ہی جام
شہادت نوش کرگئے ۔اس لیے بہترین مشورہ یہی ہے کہ پہلے ریلوے کے موجودہ
انفرسٹرکچر کو جدید پیمانے پر استوار کرلیں پھر ہر شہر میں اورنج ٹرین
چلائیں۔ ہم سب آپکی تعریف کریں گے۔آپ نے ڈیزاسٹر اتھارٹی پنجاب بنائی ہے۔
لوگوں کو احتیاطی تدابیر کا بتانا بہت اچھی بات ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر
وفاقی حکومت بھارت کو پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے سے باز رکھنے کے لیے
اقوام متحدہ میں آواز اٹھاتی لیکن وفاقی حکومت کی خاموشی کی بدولت پاکستانی
دریا صحرا بن چکے ہیں۔میری رائے میں یہ خاموشی اور چشم پوشی قومی جرم ہے جو
آنے والی نسلوں کے لیے بربادی کا کھلا پیغام ہے۔اگر آپ بھارت کو پاکستانی
دریاؤں کا پانی ذخیرہ کرنے سے نہیں روک سکتے تو کم ازکم یہ تو کرسکتے ہیں
۔کہ جب بھارت ڈیموں سے پانی چھوڑتا ہے ۔اس پانی کو پنجاب کی حد ودسے نکلنے
سے پہلے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر محفوظ کرلیں تاکہ یہ پانی زراعت اور بجلی
پیداکرنے کے کام آسکے اور سندھ میں کچے کے علاقے میں ڈیم تعمیر کرلیاجائے
تو سونے پر سہاگہ ہوگا ۔افسوس کہ ہم اپنی غفلت کی وجہ سے یہ قیمتی پانی
سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ اگر آپ دریاؤں اور نہروں کو گہرا اور کناروں
بلند اور پختہ کرکے بھارت کے چھوڑے ہوئے پانی کو محفوظ کرلیں تو آپ کانام
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گااور ہر سال سیلاب کی تباہ
کاریوں اوردوبارہ آبادکاری کے اخراجات بھی بچ جائیں گے۔اس پیسے سے آپ پورے
ملک میں میٹرو سسٹم تعمیر کرسکتے ہیں۔آپ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات
استوار کرنا چاہتے ہیں ٗ ضرور کریں کیونکہ یہ زمانہ جنگ کانہیں امن کاہے
۔اس سے دونوں ملکوں کو اپنی توجہ معیشت کی بحالی پر مرکوز کرنے کاموقعہ
میسر آئے گا لیکن بھارت پر یہ واضح کردیں کہ جب تک پاکستانی دریاؤں کے پانی
پر قبضہ ختم نہیں ہو جاتا ٗ جب تک کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے
مطابق استواب رائے نہیں ہوجاتا ٗ جب تک بھارتی خفیہ ایجنسی را پاکستان میں
افراتفری پھیلانا بند نہیں کردیتی اس وقت تک بھارت سے دوستانہ تعلقات
استوارنہیں ہوسکتے ۔اگر یہ مسائل ہوجائیں تو ہم اچھے دوست بن سکتے ہیں
وگرنہ قیامت تک دشمنی ختم نہیں ہوگی۔ان دنوں اقتصادی راہداری اور اس وابستہ
کثیر الامقاصد منصوبوں کا چرچا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ عظیم الشان
منصوبہ واقعی پاکستانی قوم کی تقدیر بدل دے گا ۔لیکن گوادر سے چینی سرحد تک
یہ موٹر وے جہاں جہاں سے گزرے گی ان علاقوں میں سب سے پہلے ٹیکنیکل کالج
بنائیں مقامی لوگوں کو وہ ہنر سیکھائیں پھر انہیں موٹروے کی تعمیر کرنے
والے اداروں میں ملازمت بھی دیں ٗ صنعتی زون قائم کریں ٗ جدید سہولتوں سے
آراستہ دوبئی طرز کے انٹرنیشنل سٹی بنائیں جہاں دوبئی کی طرح عالمی معیار
کی سہولتیں حاصل ہوں ٗ مقامی سطح پر سڑکوں کا جال بچھائیں پھر اقتصادی
راہداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اور عوامی مقبولیت حاصل کریں ۔ بجلی کے
بیشمار منصوبے شروع کیے جاچکے ہیں اور 2017 تک لوڈشیڈنگ کے خاتمے کااعلان
بھی بڑے فخر سے کیاجارہاہے ۔ جب تک بجلی سپلائی سسٹم کو اپ ٹو ڈیٹ نہیں
کیاجاتا بجلی پیدا کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ بجلی کی پیداوار کے
ساتھ ساتھ سپلائی سسٹم کو بھی عالمی معیار کے مطابق بنائیں وگرنہ معاملہ
پھر وہیں رہے گا۔سٹی گورنمنٹ ہو ٗواسا ہو ٗ ایل ڈی اے ٗ پولیس کا محکمہ ٗ
ہائی ویز کا محکمہ ہو ہر جگہ بھاری تنخواہ لینے والے افسران کی فوج جمع ہے
۔جو سارے فنڈ ہڑپ کرجاتی ہے اور ترقیاتی کاموں کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ اگر
ان اداروں کو موثر ٗفعال اور متحرک بنانا ہے تو پہلے ان محکموں پر افسران
کا بوجھ کم کریں ٗ پھر کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے اگرایک ہی فائل دس
افسروں کے پاس سے ہوکر گزر ے گی تو وقت اور وسائل کا ضیاع ہوگا۔ ہونا وہی
ہوتاہے جو پہلا افسر لکھتا ہے۔ سڑکیں فلائی اوور ٗ بائی پاس اور رنگ روڈ
ضرور بنائیں لیکن ان کی دیکھ بھال کے لیے بھی مستعد اورمتحرک چھوٹے ادارے
بنائیں تاکہ ان کو بربادی سے بچایا جاسکے ۔مجھے یقین ہے اگر آپ نے میرے ان
مفید مشوروں پر عمل کرلیا تو آپ کی مقبولیت میں حد درجہ اضافہ ہوجائے گا ۔
ان شااﷲ ۔ |